تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     06-11-2017

متفرقات

اردو زبان: جناب عبداللہ طارق سہیل نے درست لکھا ہے کہ جو مہارت ،قرینۂ اِظہار اور بے ساختہ پن اہلِ زبان کے کلام میں ہوتا ہے، وہ دوسروں کے حصے میں کیسے آسکتا ہے،کیونکہ علمی زبان میں ایک گونہ تکلف جبکہ مادری زبان کے اظہار میں بے ساختہ پن ہوتاہے اور دونوں کی تاثیر میں فرق لازمی ہے۔برصغیر کی تقسیم سے قبل دہلی ،لکھنؤ اور حیدر آباد دکن کے لہجے اور محاورے میں اختلاف کی باز گشت سنائی دیتی رہی ہے ۔لیکن اگرحقیقت پر مبنی بات کی جائے تویہ المیہ ہے کہ آج اہلِ زبان اردو اسپیکنگ رہ گئے ہیں، اردو خواں اور اردو لکھاری کم ہوتے جارہے ہیں ۔ لاہورکی پنجابی زبان کی طرح اہلِ کراچی کی اردو زبان بھی خالص نہیں رہی، انگلش میڈیم تعلیم ، میڈیا ،ہندوستانی فلموں اورڈراموں کا بھی اس میں بڑادخل ہے۔
میں نے ایک مرتبہ آرٹس کونسل کراچی کے ایک سیمینار میں کہا تھا:''اردو والو!ڈرواس وقت سے جب آپ اپنے بچوں کو اردو لکھانے اور پڑھانے کے لیے لاہور سے اساتذہ بلائیں گے ‘‘۔آج اردو اخبارات میں بیشتر لکھاریوں اورکالم نگاروں کا تعلق لاہورو اسلام آباد سے ہے اور ان میں کئی ایسے ہیں جنہیں زبان وبیان پر بڑا عبور ہے ،صاحبِ طرز ہیں ۔اردو شعراء بھی زیادہ وہیںپائے جاتے ہیں اور کتب بینی کیتَنَزُّل کے اس دور میں اردو کتابوں اور رسائل کی بڑی مارکیٹ بھی وہیں ہے۔ ان میں سے جنہیں اردو ادب کی مختلف اصناف پر عبوراورعربی و فارسی کا لمس ہے، ان کی تحریریں دلکش ہوتی ہیں ۔عربی و فارسی کے لَمس کے بغیر اردو نثر ونظم میں وہ دلکشی اور تاثیر نہیں آسکتی جو کلاسیکل شعرا ء اور نثر نگاروں کی تحریروں میں ہے۔اگر ہم نے اردو زبان کے ایسے ماہرین پیدا کرنے ہیں جنہیں اردو کے کلاسیکل لٹریچر پر عبور ہو ،تومیرا مشورہ ہے کہ اردو کے ایم۔اے اور ایم فل کے نصاب میں ابتدائی عربی اور فارسی کی تعلیم بھی شامل کی جائے۔ اس سے میری مراد صرف ادبی سرمایہ ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں ہمارا دینی سرمایہ بھی بے بہا ہے ۔ ''کلاسیکل لٹریچر‘‘ کی اصطلاح انگریزی میں رائج ہے ،اردو میں اسے کسی تغیّر وتبدّل یامُوَرَّدکیے بغیر قبول کرلیا گیا ہے،تاہم اس کا بہتر متبادل ''ادب عالی‘‘ ہوسکتا ہے۔
جدید دور کی چکاچوند اور طلبِ معاش نے زبانوں کی ساخت کو کافی حد تک متاثر کیا ہے ۔ آفتابِ رسالت طلوع ہونے کے زمانے تک مکہ مکرمہ کے خاندانی لوگ اپنے بچوں کو خالص عربی سکھانے ،عربیت کے مزاج میں ڈھالنے کے لیے رضاعی مائوں کے پاس بدوی معاشرت میں چھوڑتے تھے اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا بچپن بھی اسی ماحول میں گزرا ہے ۔تاریخِ ادبِ عربی میں عربی شاعری کوچار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے : (الف)شعرائے جاہلیہ،(ب)مُخضرمین، جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں ادوار میںشاعری کی، (ج)جو آفتابِ رسالت طلوع ہونے کے بعد شعوری عمر میں داخل ہوئے ، اسلام قبول کیا اور شاعری کی، (د)متولّدین، وہ شعراء جو اسلامی تمدن کے ارتقااورتہذیبوں کے اختلاط کے بعد بنوعباس کے دور میں معروف ہوئے۔بڑے شہروںاورتجارتی مراکز میں زبان خالص نہیں رہتی ،اس میں غیر ارادی طور پر دوسری زبانوں کی اصطلاحات اور محاورات کی آمیزش ہوجاتی ہے، خالص عربیّت کے لیے عہدِ جاہلیت کی شاعری کوآج بھی حجت ماناجاتاہے ، عربی کا مشہور شاعر متنبّی کہتا ہے:
حُسْنُ الْحِضَارَۃِ مَجْلُوْبٌ بِتَطْرِیَۃٍ
وَفِی الْبَدَاوَۃِ حُسنٌ غَیْرُ مَجْلُوْبٖ
وَمِنْ ھَوٰی کُلِّ مَنْ لَّیْسَتْ مُمَوِّھَۃً
تَرَکْتُ لَوْنَ مَشِیْبِیْ غَیْرَمَخْضُوْبٖ
ترجمہ:''شہری حسینائوں کا حسن بنائو سنگھار کا مرہونِ منت ہوتا ہے ،جبکہ بدوی ماحول میں رہنے والوں کا حسن فطری ہوتا ہے،چونکہ میں میک اپ سے بے نیاز فطری حسن کا شیدائی ہوں ،اس لیے حسینانِ فطرت کی محبت میں، میں نے اپنے بالوں کوخضاب لگانا بھی چھوڑ دیا ہے ‘‘۔ اہلِ زبان پنجاب کے اُدباء اور شعراء کاکلام پڑھ کر مسحور ہوتے ہیں ، لیکن بعض الفاظ کا تلفظ اور لہجہ اُن کی سماعتوں کو بھلا نہیں لگتا۔ ماضی میں ہم کراچی کے ادیبوں کے تبصرے سنتے تھے کہ جنابِ ابنِ انشاء کی تحریر کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی لگتی ہے، لیکن لہجہ ٹھیٹھ پنجابی ہے۔
جنابِ راحیل اظہر کا شکریہ:انہوں نے لکھا ہے :''مفتی منیب الرحمن کے گزشتہ دو کالموں میں زبان کی کچھ غلطیاں تھیں، مثلاً: ''کے بجائے‘‘ کی جگہ ''کی بجائے‘‘، ''اس کے گھر پہنچا آئے‘‘کی جگہ ''اس کے گھر چھوڑ آئے‘‘، ''اُن کی سوا مشکل ہے ‘‘کی جگہ ''اُن کو سوا مشکل ہے ‘‘۔
میں نے نیٹ پر جنابِ انتظار حسین اور جنابِ وسعت اللہ خان کے کالموں میں دیکھا :انہوں نے ''ان کی سوا مشکل ہے ‘‘ ہی لکھا ہے، اس تصحیح پر جنابِ راحیل اظہر کا شکریہ۔علامہ جاوید غامدی نے اپنی تفسیر میں ''ان کو سوا مشکل ہے ‘‘لکھا ہے ۔ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:99،میںمولانا نایاب حسن نے ''دینی واصلاحی جلسے:چند قابلِ توجہ پہلو‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں ''اُن کو سوا مشکل ہے ‘‘لکھا ہے ۔اب جناب راحیل اظہر محاکَمہ کر کے فیصلہ فرمائیں کہ اُن کے بقول ہم سے جو ادبی گناہ سرزد ہوا ہے، اس کی سزا کیا ہے، کیونکہ اس گناہ کا ارتکاب کرنے والے دسیوں ہیں ،میرے نزدیک معنوی طور پر دونوں کو درست ماننے میں حرج نہیں ہے اور ''کو ‘‘ ہمارے ذوقِ سماعت کو بھلا لگتا ہے ،لیکن ہم نہ اہلِ زبان ہیں اور نہ اردو ادب پر اتھارٹی ، بلکہ طفلِ مکتب ہیں۔
جہاں تک ''کے بجائے‘‘ کی جگہ ''کی بجائے‘‘ کا تعلق ہے ،تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ میں بعض اصحابِ قلم کی اتباع میں ''کے بجائے‘‘ ہی لکھتا رہاہوں،لیکن ایک اہلِ زبان نے مجھے کہا:''کی بجائے‘‘لکھنا چاہیے ، اس کے بعد میں نے اسے اختیار کرلیا۔اس سے پہلے میرے مطبوعہ کالموں میں ہر جگہ''کے بجائے‘‘ ملے گا۔دراصل بجائے کے دو معنی ہیں: ''کی جگہ ‘‘یا ''متبادل‘‘ ، میری رائے میں اگر''بجائے‘‘کو متبادل کے معنی میں لیاجائے تو ''کے بجائے ‘‘ مناسب ہے اور ''جگہ‘‘ کے معنی میں لیا جائے تو ''کی بجائے‘‘مناسب ہے ۔ہم اردو کے طالب علم ہیں ،ان میں سے کسی ایک کواس درجے میں ترجیح دینا کہ اس کے متبادل کو غلط قرار دیا جائے، یہ اساتذہ کا منصب ہے ۔''پہنچا آئے‘‘ اور ''چھوڑ آئے‘‘ میں معنوی فرق تو کوئی نہیں ہے، البتہ ''پہنچا آئے‘‘میں وضع داری زیادہ ہے ، ہمارے زمانۂ طالب علمی میں جب طلبہ کہتے : ''کتاب پڑی ہوئی ہے ‘‘،تو ہمارے استاذِ گرامی ٹوکتے اور فرماتے:''کتاب رکھی ہوئی ہے ‘‘بولا کرو، کیونکہ پڑی ہوئی میں ذرا بے قدری کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔اگرچہ انگریزی میں ''بے قدری‘‘ہمیں قبول ہے، لفٹ مانگتے وقت ہم کہتے ہیں:''آپ مجھے فلاں جگہ Dropکردیں۔ایک بار پھر جناب راحیل کا شکریہ۔ 
میں نے گزشتہ کالم میںSpices کے معنی میں ''مصالحہ‘‘کا لفظ لکھا ہے ،اردو میں ''مسالا ‘‘بھی استعمال ہوتا ہے اور'' فیروز اللغات ‘‘میں اسے عربی لفظ ''مَصالَح‘‘کا مُوَرَّد لکھا ہے اور اردو لغت بورڈ کی اردو لغت میں میم اور لام کی زبر کے ساتھ'' مَصَالَح ‘‘ لکھا ہے۔ عربی میںبابِ ''مُفاعَلَہ‘‘کے وزن پرمصدرمَصَالَح نہیں بلکہ ''مُصالَحَہ‘‘ ہے ،لیکن یہ Spicesکے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اس کے معنی ہیں: دو افراد کا باہم صلح کرنا یااُن کے درمیان مُوافَقت ۔جدیدعربی میں مَصَالَح یا مَسَالا یا Spices کے لیے ''بُھَار‘‘آتا ہے اور لام کی زبر کے ساتھ ''مَصَالَح‘‘عربی لفظ نہیں ہے ،البتہ لام کی زیر کے ساتھ ''مُصَالِح‘‘بابِ مُفَاعلہ کا اسمِ فاعل ہے۔
ذمے دار کون:الیکشن ایکٹ میں جو غفلتِ مجرمانہ کا ارتکاب کیا گیا ہے ،اس کے بارے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ذمے دار کون ہے؟۔ یہ سوال اٹھانے والے پارلیمنٹ کے اندر بھی ہیں جو تمام مراحل میں اس ایکٹ کی تیاری اور منظوری کا حصہ بنے رہے اور پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے والے بھی ہیں۔ اس سوال کا دیانتدارانہ جواب صرف مولانا فضل الرحمن نے دیا ہے کہ ہم سب اس غفلت کے ذمے دار ہیں۔ مجھ سے ملاقات میں جماعتِ اسلامی کے جنابِ اسداللہ بھٹو نے تسلیم کیا کہ ہم سے بھی کوتاہی ہوئی ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات وہ اپنے امیر کے منہ سے نہیں کہلواسکتے ۔الیکشن بل کی تیاری کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنی ،پھر اس کی ذیلی کمیٹی بنی اور پھر یہ بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںسے منظور ہوکر ایکٹ بنا۔اس کا کافی حد تک ازالہ پارلیمنٹ نے کردیا ہے اور کچھ حصے کا ازالہ باقی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیاپارلیمانی کمیٹی یا اس کی ذیلی کمیٹی کے مسودہ ٔ قانون یا پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ میں کسی فردِ واحد کو ترمیم یا تنسیخ کا اختیار ہے ،اگر اس کا جواب اثبات میں ہے ،تو ہمیں بتایا جائے کہ کس قانون کے تحت اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھراس کی ذمے داری پوری پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے اور اُن میں بھی سب سے زیادہ اُن پر جو اسلام کے نام پر ووٹ لے کر آئے ہیں۔ووٹ تو انہوں نے اسی لیے لیا تھا کہ ہم پارلیمنٹ کے اندر نفاذِ اسلام کی کوشش کریں گے ،وہاں اپنی ذمے داری پوری کرنے کی بجائے آپ روزانہ جلسوں سے خطاب فرمائیں، پریس کانفرنسیں کریں یا ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز میں بیٹھے نظر آئیں، تو پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنے اُن افراد کو بھیجیں جو پارلیمنٹ کے اندر اپنے فرائض کو پوری تَن دہی اور ذمے داری سے انجام دیں، غفلت کا ارتکاب نہ کریں،جب آپ محض پروٹوکول اور مراعات کے لیے رکن بنیں گے اور پوری طرح فرائض انجام نہیں دیں گے تو اس طرح کی غفلتیں سرزد ہوں گی۔ کیا سب کو ذمے دار کے عنوان سے ایک'' تخیّلاتی ہیولیٰ‘‘ چاہیے کہ جس پر وہ سنگ باری کریں اور اسے قرارِ واقعی سزا دیں۔تاحال انہوں نے یہ واضح نہیں فرمایا کہ اُن کے ذہن میں اس غفلتِ مجرمانہ یا جرمِ صریح کی قرار واقعی سزا کیاہے۔اسلام آباد میں ایک کانفرنس میں این جی او کی ایک بیگم صاحبہ نے فرمایا :''اسلام پر ہر کوئی بات کرسکتا ہے ،ہم مُلّا کو اس کا ٹھیکیدار ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ‘‘۔تو میں نے اُن کی خدمت میں عرض کی: محترمہ!ہم ٹھیکیدار نہیں ہیں، چوکیدار ہیں اور چوکیدار کا کام یہی ہے کہ کوئی عمارت میں نقب لگانے آئے ،تواس کا ہاتھ پکڑ کر روک دیا جائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved