شوق کا کوئی مُل نئیں اور پاگل پن کی کوئی حد نہیں۔ معاشرے میں ہر طرف طرح طرح کے شوق بکھرے پڑے ہیں۔ بیشتر شوق یا مشاغل اس طرح اپنائے جاتے ہیں جیسے ان کے بغیر زندگی میں کوئی خلا رہ جائے گا یا زندگی ہی نہ رہے گی! لوگ اپنے شوق پورے کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ ذاتی مفاد پر اہلِ خانہ، بلکہ اہلِ محلہ و علاقہ کے اجتماعی مفاد کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ کوئی کبوتر پالتا ہے تو زمین والوں کو بھول کر کبوتروں کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے۔ اور کبوتر تو تھک ہار کر نیچے آ جاتے ہیں، اُن کا شوقین فضاء ہی میں بسیرا کیے رہتا ہے! کسی کو کتے پالنے کا شوق چَراتا ہے تو وہ رات دن انسانوں کو چھوڑ کر کتوں کی صحبت سے ہم کنار رہتا ہے، اور ''کتا نوازی‘‘ پر فخر کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاتا! کسی کے سر پر مچھلی کے شکار کا شوق بھوت کی طرح سوار ہوجائے تو اُس کی انتہائے شوق اہلِ خانہ کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی رہتی ہے! کسی کو کسی کھیل سے شغف ہو تو زندگی میں صرف وہ کھیل رہ جاتا ہے۔ قصہ مختصر، بڑا ہی عجیب معاملہ ہے کہ لوگ کسی بھی شوق کو محض فراغت کے لمحات گزارنے یا بیزاری دور کرنے کے ذریعے کے طور پر اختیار نہیں کرتے بلکہ اُسی کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اور جتنے بھی ضروری کام ہیں اُنہیں بالائے طاق رکھ کر سکون کا سانس لیا جاتا ہے، لمبی تان کر سوتے رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ صاف لفظوں میں کہیے تو ہمارے معاشرے میں ہر شوق یا مشغلہ دراصل چور دروازہ ہے جس کے ذریعے لوگ کہیں سے نکل بھاگتے ہیں یا کہیں گھس جاتے ہیں!
پاکستانی معاشرے میں شوق کم ہیں نہ شوقینوں کی قلت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سبھی نے فرض کرلیا ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو قدرت جتنا وقت دیتی ہے ہمیں اُس سے دگنا وقت دیا گیا ہے اور اب لازم ہے کہ اِس فاضل وقت کو پوری توجہ اور انہماک سے ضائع کیا جائے! ٹارگٹ کلنگ اپنی جگہ مگر اُس سے بڑھ کر ہے ٹائم کلنگ! جسے دیکھیے وہ وقت کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکنے کے فراق میں ہے۔ بہت سوں کو تو اِس طور وقت ضائع کرتے دیکھا گیا ہے گویا اُنہیں خوف ہو کہ اگر اُنہوں نے وقت سے جان نہ چھڑائی تو اُن پر فردِ جرم عائد کردی جائے گی!
مملکتِ خدادادِ پاکستان میں ہر طرف دریائے شوق لہریں مارتا دکھائی دیتا ہے۔ لوگوں نے طے کرلیا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسا شوق ضرور پالیں گے جو اُنہیں دنیا ما فیہا سے بے نیاز کردے اور اپنی ہی ذات میں گم رہنے کی تحریک دیتا رہے۔ پھر اِس کے نتیجے میں متعلقین کا بیڑا غرق ہوتا ہے تو ہوتا رہے، اُن کی بلا جانے۔ کسی بھی شوق کی کوکھ سے پیدا ہونے والا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ متعلقہ فرد کو اپنے شکنجے میں اِس طور کَس لیتا ہے کہ پھر وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ کبھی کبھی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ؎
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا!
اور کبھی کبھی کیا؟ اب تو یہ کیفیت ہر وقت دکھائی دے رہی ہے۔ لوگ اسمارٹ فونز میں ایسے الجھ کر رہ گئے ہیں کہ دونوں ہاتھوں سے فون تھام کر انگوٹھوں کی مدد سے ساری دنیا کے سلام کا جواب انتہائی خوش دلی سے دے رہے ہوتے ہیں اور سامنے بیٹھا ہوا شخص تین چار مرتبہ سلام کرے تب کہیں جاکر ''ہونہہ‘‘ کی شکل میں جواب ملتا ہے اور وہ بھی اِس طرح کہ نظریں اسمارٹ فون ہی پر دھری رہتی ہیں! ؎
پھر نظر لوٹ کر نہیں آئی
اُن پہ قربان ہوگئی ہوگی!
ڈیڑھ عشرے کے دوران لوگ سیل فون کے سیل (کوٹھڑی) میں بند ہوکر رہ گئے ہیں! کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس جن سے گلو خلاصی ممکن بنانے والے عامل کہاں سے لائیں! لطیفہ یہ ہے کہ سیل فون کے غیر معمولی استعمال میں مبتلا 90 فیصد سے زائد افراد وہ ہیں جن کے لیے سیل فون کا استعمال کسی بھی اعتبار سے بنیادی ضرورت نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ خود کو ہر وقت مصروف دکھانا ہے اور یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ اُن کی اس قدر اہمیت ہے کہ لوگ ہر وقت رابطے میں رہنا پسند کرتے ہیں! اور خود اِن کا یہ حال ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے فرد پر متوجہ ہونے کو تیار نہیں، اُسے وقت دینا اپنی اور اپنے (تیزی سے ضائع ہوتے ہوئے) وقت کی توہین سمجھتے ہیں! یہی آج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ناقدری کا رونا روتا رہتا ہے، شکوہ کناں رہتا ہے کہ کوئی پوچھتا ہی نہیں اور اگر کوئی پوچھے تو بے اعتنائی برتتے ہوئے یہ تاثر دیتا ہے کہ اُسے تو کسی کے التفات کی کچھ خاص ضرورت نہیں!
ویسے سیل فون کی اسیری کے معاملے میں ہمیں زیادہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ پڑوس کا بھی شرمناک حد تک بُرا حال ہے۔ وہاں بھی لوگ اِس آلے کے آلۂ کار ہوکر رہ گئے ہیں۔ صرف ایک واقعے سے آپ اندازہ لگا لیجیے کہ وہاں کے ''فون پرست‘‘ بھی اپنے پاکستانی ''ہم منصبوں‘‘ کو منہ دینے کی کتنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ممبئی کے نواحی علاقے تھانے میں ایک صاحب کو نیا آئی فون خریدنا تھا۔ چپ چاپ دکان پر جاکر فون خرید سکتے تھے۔ مگر نہیں صاحب۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا؟ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب فون خریدنا بھی ایونٹ سے کم نہیں! مثل مشہور ہے کہ چاند چڑھے گا تو دنیا دیکھے گی، سو 32 سالہ پلّی وال نے چاند چڑھانے کا فیصلہ کیا۔ دولھے کی طرح تیار ہوئے۔ چمکدار شیروانی زیب تن کی، سر پر پگڑی باندھی، ایک گلاب لیا اور بادشاہوں کی طرح اُسے سُونگھتے ہوئے گھوڑی پر سوار ہوئے۔ بینڈ باجے والوں کو ساتھ لیا۔ پندرہ بیس دوست بھی ''باراتیوں‘‘ کی صورت ساتھ ہوئے۔ اور یہ ہجوم ''بارات‘‘ کی شکل میں آؤٹ لیٹ پر پہنچا اور دکاندار نے ''ڈبّا پیک‘‘ آئی فون باہر آکر پلّی وال کو سلامی کے سے انداز سے پیش کیا! ع
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے!
دکاندار کو بھی خریدار کی اتنی ناز برداری تو کرنا ہی تھی۔ آخر 90 ہزار کا آئی فون خریدا گیا تھا!
اس طرح کے تماشے ہمارے ہاں بھی کم نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ صرف دولہا کی کار سجائی جاتی تھی۔ ہم نے نئی کراچی کے علاقے میں قصاب برادری کی باراتیں دیکھی ہیں۔ بیس بیس کاریں ایک ہی طرح سے سجی ہوئی ہوتی ہیں۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ دولھا کی کار کون سی ہے! اور بارات کے سرے پر کھلی وین میں چار پانچ لاکھ روپے کا آتش بازی کا سامان ہوتا ہے۔ بارات جہاں جہاں سے گزرتی ہے، دھوم دھڑاکوں سے اپنے ہونے کا پتا دیتی جاتی ہے!
دنیا بھر میں مشغلہ زندگی کو بامعنی بنانے کا ذریعہ ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں مشاغل کو زندگی سے فرار کا راستہ سمجھ کر اپنایا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر مشاغل کوئی مثبت نتیجہ پیدا نہیںکر رہے۔ ؎
ہے انتہائے یاس بھی اِک ابتدائے شوق
پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم!