شمالی کوریا کے ایٹمی اثاثوں کی وجہ بھی امریکی غفلت ہے۔سینیٹر پریسلر کے خیال میں‘ امریکہ کو ریپبلکن پارٹی کے پرانے ادوار کی خارجہ پالیسی کو اپناناہوگا۔امریکہ نیو کلیئر ہتھیاروں سے مسلح ریاست کو پاک تو نہیں کرسکتا لیکن اس سے معاملات طے کئے جا سکتے ہیں۔جیسے آئزن ہاورنے کوریا کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے اورجیسے نکسن نے چین سے بات چیت کا آغاز کیا۔اسی طرح ہم پاکستان سے ایٹمی نظام کو شفاف بنانے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔امریکہ اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے سینیٹر پریسلر کہتے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بتدریج آگے بڑھیں گے کیونکہ چند سال پہلے تک دونوں ملکوںنے کوئی گرائونڈ ورک نہیں کیا تھا۔ابھی تک بھارت سے امریکہ کا مضبوط تعلق محض اسلحہ بیچنے تک ہے‘ جس کی قیمت بھارت کے غریب عوام ادا کر رہے ہیں۔
شرکا میں شامل گروپ کیپٹن علی، جنہوں نے اپنا تعارف پاکستانی ایمبیسی میں ایئر اتاشی کی حیثیت سے کروایا، نے چند تیکھے اور مفصل سوالات کئے۔
یہ بتائیے کہ آپ ان واقعات کا جواز کیا پیش کریں گے کہ نیو کلیئر ہتھیاروں کے حساس پرزے ‘ دنوں بلکہ ہفتوں تک‘ بغیر کسی نگرانی کے امریکن ایئر بیس پر موجود رہے؟ یہ واقعہ کم از کم تین مرتبہ ہوا۔حسین حقانی شریک گفتگو ہوئے اور کہاکہ ایسی مثال امریکہ میں تو موجود ہے مگر پاکستان میں ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا۔اگر پاکستانی فخر سے یہ کہیں کہ ہمارے ایٹمی ہتھیار‘امریکہ سے زیادہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
سینیٹر کا جواب تھا کہ جی ہاں! ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ یہ مشکل ہے کہ یہ جہاں بھی موجود ہوں‘ حادثات کا امکان رہتا ہے۔
امریکی انتظامیہ ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا کام اپنے ملک سے شروع کیوں نہیں کر تی ؟ جبکہ آپ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امریکی دارالحکومت میں طاقت کے کئی مراکز ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں‘ جس کی وجہ سے دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو ہو ا ۔ دوسرے ملکوں کو بتانے کے بجائے‘ آپ اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے؟
سینیٹر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اپنے دفاعی اخراجات میں کمی کرنی چاہئے۔اس کے بعد ان کا طویل جواب آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ نہیں تھا۔
کیا شمالی کوریا اور پاکستان کو ایک جیسی ریاستیں قرار دینا انصاف ہو گا؟
سینیٹر کا جواب تھا کہ جی ہاں‘ایٹمی حملے کے خطرات کے پس منظر میں دونوں ریاستیں ایک جیسی ہیں۔دونوں ریاستوں کے مفادات‘ امریکہ سے متصادم ہیں۔پاکستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے مگر شمالی کوریا کے ساتھ بات ہو سکتی ہے۔ ان پر فوجی حملہ کوئی آپشن نہیں۔اگر ہم شمالی کوریا کی ایٹمی تنصیبات تباہ بھی کر دیں تب بھی وہ ‘روایتی اسلحے اور فوج کی طاقت سے جنوبی کوریا کو تباہ کر دے گا۔
مندرجہ بالا مباحثہ‘جو کہ ایٹمی اثاثوں کے موضوع پر کیا گیا‘ خصوصی مہارت رکھنے والے سینیٹر پریسلر‘ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔بحث کانتیجہ آخر کار اسی نکتے پر ہوا کہ ایٹمی تصادم کے نتیجے میں‘ شمالی کوریا‘ جنوبی کوریا کو تباہ کر دے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شمالی کوریا کو اچھی طرح یہ بات معلوم نہیںہے کہ وہ بھی اسی سرزمین کا حصہ ہے‘ جہاں جنوبی کوریا واقع ہے؟۔ سینیٹر پریسلر نے اپنی بحث میں‘ کہیں بھی اس امکان کا جائزہ نہیں لیا کہ شمالی کوریاکی ایٹمی جارحیت کے نتیجے میں‘ کیا جنوبی کوریا خاموش رہے گا؟ امریکہ ‘ شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات کے بعد‘ کیا جنوبی کوریا کوبے یارو مددگار چھوڑ دے گا؟یا پھر وہ اپنے دعوئوں کے مطابق براہ راست ‘شمالی کوریا پر حملہ کر دے گا؟ایٹمی سائنس اب ترقی کے اس درجے پر پہنچ چکی ہے ‘جہاں سے کوئی بھی ایٹمی طاقت ‘ جوابی وارکر سکتی ہے۔جب بھی کوئی ملک ایٹمی طاقت بنتا ہے تو اس کی حقیقت کو پوری طرح جان لینے کے بعد‘ وہ اپنے دفاع کا انتظام کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ امریکی ماہرین اور قیادت اتنی کم فہم نہیں کہ وہ جنوبی کوریا کو غیر محفوظ چھوڑ دے۔جس دن شمالی کوریا نے ایٹمی تجربات کا فیصلہ کیا ہو گا‘ اس سے پہلے ہی امریکہ‘ جنوبی کوریا میں ایٹمی ہتھیار پہنچا چکا ہو گا۔مندرجہ بالا مباحثے میں ماہرین نے خود بھی اعتراف کیا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کا تصور کیا ہے؟ یہ کہ جیسے ہی کرہ ارض پر کوئی بھی ایٹمی طاقت‘ پاکستان پر حملہ کرنے کاسوچے گی‘ پاکستان اس سے پہلے وار کرنے کی صلاحیت پیدا کر چکا ہے۔آج ایٹمی حملے سے بچائو کے لئے واحد تدبیر یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی طرف سے‘ ایٹمی کارروائی ہونے سے پہلے‘ اپنے دفاع کا بندوبست کرنااولین ترجیح ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو ملک بھی ایٹمی ہتھیار بناتا ہے‘وہ ایٹمی حملے سے بچائو کا انتظام پہلے سے کر لیتا ہے۔