تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-11-2017

الزغل اور ابن البیطار کے شہر میں

میں مالاگا میں ہوں۔ ہسپانویوں کا مالاگا‘ عربوں کا مالقہ ہے۔ یہ الزغل اور ابن البیطار کا شہر تھا۔ الزغل مالقہ کا آخری حکمران۔ بزدل زمانہ ابوعبداللہ محمد کا جری اور شجاع چچا۔ اپنے بھائی ابوالحسن علی عرف مولائے ابوالحسنین کی طرح میدان جنگ کا سپاہی۔ الزغل نصری حکمرانوں کا آخری حکمران تھا جس نے ہتھیار پھینکنے کے بجائے لڑ کر میدان جنگ میں شکست کھائی مگر اس کی شکست کے وجہ نہ تو اس کی کمزوری تھی اور نہ ہی شجاعت میں کوئی کمی بلکہ اس کی پیٹھ میں بھی اس کے بھتیجے ابوعبداللہ نے ہی خنجر گھونپا۔
مسلم سپین یعنی اندلس کی وسیع و عریض سلطنت سمٹتے سمٹتے اب صرف غرناطہ تک محدود ہو چکی تھی۔ بوڑھا ابو الحسن علی کسی نہ کسی طرح اس آخری مورچے پر ڈٹا ہوا تھا مگر اس کے خلاف سازشوں میں بھی اس کا بیٹا ابو عبداللہ پوری طرح جٹا ہوا تھا۔ مولائے ابو الحسن کو اپنے بیٹے کی بزدلی کا بھی خوب اندازہ تھا اور اس کی سازشوں کا بھی۔ جب اقتدار میں عیسائیوں سے معاہدہ کر کے برسر اقتدار آنے کے لیے بے چین ابوعبداللہ کو اس کے باپ ابو الحسن علی نے الحمرا میں قید کر دیا تو اس کی ماں عائشہ نے اسے‘ دوپٹوں کو باندھ کر رسی بنا کر دی اور وہ محل سے فرار ہو گیا اور جنگ میں مصروف اپنے باپ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر واپس غرناطہ آ کر اقتدار پر قابض ہو گیا۔ مولائے ابو الحسن غرناطہ کا نصری امیر تھا۔ نصری‘ امارت الموحد حکمرانوں کے زوال کے بعد 1230ء میں غرناطہ کی امارت پر قابض ہوئے۔ مولائے ابوالحسن بنونصر کا اکیسواں حکمران تھا۔ بنو نصر جن کا نعرہ تھا ''ولا غالب الا للہ‘‘ اللہ سے سوا کوئی غالب نہیں۔
مولائے ابوالحسن 1464ء سے 1482ء تک اٹھارہ سال غرناطہ کا حکمران رہا۔ پھر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں غرناطہ کے اقتدار پر اس کے بیٹے ابوعبداللہ نے قبضہ کر لیا۔ لیکن ابوالحسن نے اگلے ہی سال 1483ء میں پھر غرناطہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ دو سال بعد ابوالحسن انتقال کر گیا۔ تب غرناطہ کا اقتدار اس کے بھائی ابوعبداللہ الزغل نے سنبھال لیا مگر ابوعبداللہ نے ایسے موقع پر جب فرڈٹینڈ اور ازایبلا اس آخری مسلم سلطنت پر چاروں طرف سے چڑھے آ رہے تھے‘ اپنے بہادر چچا کے ساتھ وہی کچھ کیا جو وہ اپنے باپ کے ساتھ کر چکا تھا۔ الزغل غرناطہ پر صرف ایک سال حکمران رہا۔ جب وہ مالقہ کے محاصرے کے دوران فرڈینڈ کی فوجوں سے نبرد آزما تھا‘ غرناطہ میں اس کا بھتیجا ابوعبداللہ دوبارہ غرناطہ پر قابض ہو گیا۔ الزغل واپس مالقہ کی طرف پلٹا مگر چاروں طرف سے امڈ آنے والے عیسائیوں نے‘ جن کی قیادت فرٹینڈ آف آراگون کر رہا تھا، چار ماہ تک مالقہ کو محاصرے میں لیے رکھا۔ سات مئی 1487ء سے تیرہ اگست 1487ء تک جاری رہنے والے محاصرے اور جنگ کا حال بڑا دردناک بھی ہے اور مزاحمت کا ایک ناقابل فراموش باب بھی۔ الزغل اور اس کے ساتھیوں نے قلیل تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود ایسی مزاحمت کی کہ عسکری تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس محاصرے نے مالقہ کے شہریوں کے سبھی راستے تو مسدود کئے ہی تھے خوراک کی قلت نے محاصرین کا برا حال کر دیا تھا مگر الزغل ہتھیار ڈالنے پر تیار نہ تھا اس نے باہر نکل کر راستہ بنانے کی کوشش کی مگر اس کے اس دستے کو ابوعبداللہ کے سپاہیوں نے اپنی تلواروں کی باڑ پر رکھ لیا۔ اس کے عوض ابوعبداللہ نے فرڈینڈ اور ازایبلا سے غرناطہ کی سلامتی کا پروانہ حاصل کر لیا۔
الزغل کے قلعے کے آثار آج بھی شہر کے درمیان پہاڑی پر موجود ہیں۔ میں عامر جعفری اور طیب میاں نے ہوٹل کی استقبالیہ والی خاتون سے پوچھا کہ قلعہ کتنی دور ہے؟ اس نے جواب دیا قلعہ یہاں سے پندرہ منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔ ویسے یہاں سے گیارہ نمبر بس بھی سٹی سنٹر جاتی ہے، آپ اس پر بھی جا سکتے ہیں۔ ہم نے پیدل جانے کو ترجیح دی۔ قلعہ جس پہاڑی کے اوپر ہے‘ اس نے نیچے سے اب سرنگ نکالی گئی ہے جو قدیم شہر کو ملاتی ہے۔ پہاڑی تو دس منٹ بعد ہی آ گئی مگر اوپر چڑھتے ہوئے کتنی دیر لگی اس کا اندازہ رات کو ہوا۔ بلامبالغہ کئی سو سیڑھیاں اور درجنوں چڑھائیوں پر چڑھتے چڑھتے میرا تو برا حال ہو گیا۔ سٹیوانگر میں ڈاکٹر نوخیز سے پائوں کے ٹخنوں کی نسوں میں لگوائے گئے ٹیکوں نے آدھی چڑھائی تک تو کام کیا مگر پھر ان کا اثر بھی ختم ہو گیا۔ چڑھائی کے بعد جب اوپر سے نیچے شہر کو دیکھا تو مجھے بمشکل یقین آیا کہ میں اتنی بلندی پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ عرصے سے گھنٹوں کے درد اور گزشتہ کچھ عرصے سے ٹخنوں کی رگوں (Tendons) میں ہونے والی شدید درد نے تو چلنے پھرنے سے عاجز کر دیا تھا۔ میری حالت دیکھ کر ڈاکٹر نوخیز نے دونوں Tendons میں انجکش لگئے۔ جس سے بڑا افاقہ ہوا مگر سب کچھ اکارت گیا۔ ''مالقہ‘‘ کے آخری حصار پر کھڑے ہو کر ''مالاگا‘‘ کے شہر پر نظر دواڑئی تو دل اداسی سے بھر گیا۔ الزغل کی شکست کے ساتھ ہی مالاگا پر مسلم اقتدار کا طویل دور ختم ہوا اور پھر ظلم و ستم کا ایک ایسا لمبا سلسلہ شروع ہوا جو مسلمانوں کے دور کی غلامی سے لے کر ان کی عورتوں کو بطور تحفہ بانٹنے تک جاری رہا۔ تاوقتیکہ یہ شہر مکمل طور پر مسلمانوں سے خالی کروا لیا گیا۔ قلعہ سے واپسی پر ہوٹل جانے کے بجائے ہم پرانے شہر چلے گئے۔ وہی پرانا نقشہ اور وہی تنگ گلیاں، کہیں کہیں پرانے دروزے اور دیواروں کے محفوظ کئے گئے چھوٹے چھوٹے حصے۔ پرانی حویلیوں کے آثار اور درمیانی چوک میں کیتھڈرل۔ رات گئے واپسی ہوئی تو تھکن سے چور اور چلنے پھرنے سے عاجز تھے۔ رات سونے سے پہلے درد کشا گولیاں کھائیں تب جا کر کہیں نیند آئی۔
بین المدینہ بڑی صاف ستھری آبادی اور پررونق بازار پر مشتمل تھی۔ سامنے ساحل سمندر تھا۔ سڑک کے ایک طرف ایک مجسمہ لگا ہوا تھا۔ پڑھا تو پتا چلا کہ یہ مشہور مسلمان سائنسدان ماہر نباتات‘ طبیب اور ماہرِ دوا سازی ضیاء الدین ابن محمد عبداللہ ابن احمد اطلاقی المعروف ابن البیطار کا مجسمہ تھا۔ 1197ء میں مالاگا میں پیدا ہونے والے اس طبیب اور ماہر دوا ساز نے پہلے سے موجود ایک ہزار ادویات نہ صرف باقاعدہ ترتیب میں ریکارڈ کیں بلکہ اس میں تین سو سے چار سو تک مزید ادویات کا اکیلے نے اضافہ کیا۔ سپین سے مسلمانوں کو ایسے ختم کیا گیا کہ اس بے دخلی اور نسل کشی کی تاریخِ عالم میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آٹھ سو سال تک مسلمان اس ملک کے بیشتر حصے پر حکمران رہے اور 1492ء کو آخری مسلمان ریاست کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو درجہ بندی کر کے ملک سے نکالا گیا۔ بقیہ کو بہانوں سے قتل کیا گیا یا عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جن پر شک تھا کہ محض اوپر‘ اوپر سے عیسائی ہوئے ہیں ان کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا اور اس طرح ان کی چھانٹی کی گئی۔ سپین سے مسلمانوں بلکہ دوبارہ عیسائیت اختیار کرنے والے ہسپانوی باشندوں کی صفائی کی مہم مسلسل جاری رہی۔ یہ مہم مسلسل 1492ء سے لے کر اپریل 1609ء تک جاری تو تھی ہی لیکن 1609ء سے 1614ء تک شاہ فلپ سوم نے اس سلسلے کے بچے کھچے ان ہسپانوی النسل عیسائیوں کو بھی سپین بدر کر دیا جن کے آبائو اجداد مسلمان ہوئے تھے۔ یعنی سپین کو ان عیسائیوں سے بھی پاک کر دیا گیا جن کے آبائو اجداد میں سے کسی نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے دوبارہ عیسائیت اختیار کر لی تھی مگر ان کو معافی نہ مل سکی۔
موسی بن نصیر 712ء میں سپین آیا اور ابوعبداللہ 1492ء میں واپس افریقہ آیا۔ یہ سات سو اسّی سالہ اقتدار کی کہانی ہے اور اس طرح ختم ہوئی کہ 1492ء سے لے کر 1992ء تک‘ پورے پانچ سو سال سپین میں ایک بھی باقاعدہ مسجد نہ تھی۔ سپین میں مسجد بنانے پر پابندی 1992ء میں ختم ہوئی۔ اس سے پہلے کسی کو سپین میں مسجد بنانے کی اجازت نہ تھی۔ عامر جعفری نے پوچھا کیا سپین میں مسلم اقتدار کا خاتمہ ابوعبداللہ کی بزدلی سازش اور غداری کے سبب ہوا؟ میں نے کہا نہیں! ایسا نہیں۔ ابوعبداللہ یہ سب کچھ نہ بھی کرتا تو انجام کار یہی ہونا تھا۔ 1492ء کو نہ ہوتا‘ دوچار سال بعد ہو جاتا لیکن یہ سب ویسا بھی نہیں جیسا ہم ڈرامے دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں۔ لیکن باقی باتیں غرناطہ کے راستے میں۔ الحمرا کے محل میں۔ ولا غالب الا للہ والے بنو نصر کے بنائے ہوئے محل کی دیواروں کے سائے تلے۔ ابھی الزغل اور ابن البیطار کے شہر کا نوحہ پڑھنے دو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved