تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-11-2017

چٹکی

ایک بہت بڑا ماہرِ نفسیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایغور پاشا ہمدرد دل کا مالک بھی تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک ماہر کو اس وقت لازمی طور پر اپنی خدمات پیش کرنی چاہئیں، جب اس کی ضرورت ہو۔ وہ شخص جو بجلی کے آلات کا ماہر ہے، اگر وہ تاروں کو آپس میں گڈ مڈ دیکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ آگ لگنے کا خطرہ ہے۔ اگر صرف اس لیے وہ اپنی خدمات پیش نہیں کرتا کہ کسی نے اسے اس کام کے لیے خصوصی طور پر بلوایا نہیں تو اسے اپنے شعبے کا ماہر نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا کا اصول یہ تھا کہ جب بھی کسی کو وہ نفسیاتی مسائل میں الجھا ہوا دیکھتا تو بلا جھجک اپنی خدمات پیش کر دیا کرتا۔ فیس ادا ہونا، نہ ہونا اور مریض کا کلینک آنا‘ نہ آنا اس میں حائل نہیں ہو تا تھا۔ 
اس کے باوجود اگر پاشا نے اُس شخص کو اپنی خدمات مہیا کرنے میں اتنی دیر کی تو اس کا سبب یہ تھا کہ پاشا کو پوری طرح یقین نہیں تھا کہ وہ نفسیاتی مریض ہے یا نہیں۔ وہ پارک میں سیر کے لیے آتا تھا۔ چلتے پھرتے اور بنچ پر بیٹھے ہوئے، وہ خاموش رہتا اور اکثر چٹکی بجاتا رہتا۔ اس چٹکی کے علاوہ، اس کی حرکات و سکنات میں کسی طرح کی دیوانگی نہیں تھی۔ یہ ایسی عادت نہیں تھی کہ جسے چھوڑا نہ جا سکتا۔ آخر ایک روز چہل قدمی کرتے ہوئے، وہ اس کے پاس گیا اور اس نے اپنا تعارف کرایا۔ ''پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا کو کون نہیں جانتا‘‘ اجنبی نے مسکراکر کہا ''کیا آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ میں چٹکی کیوں بجاتا ہوں؟‘‘ پاشا حیران رہ گیا۔ اجنبی بلا کا ذہین تھا۔
اس کا نام ایڈم تھا اور اپنی کہانی سنانے پر وہ آمادہ تھا۔ اس نے کہا بچپن ہی سے وہ گہرے غور و فکر کا عادی تھا۔ اس کے ماں باپ میں اکثر جھگڑا رہتا تھا۔ ان کا مزاج آپس میں نہیں ملتا تھا ۔ ماں کو تیز خوشبو پسند تھی اور باپ کو مدھم۔ ماں تیز رفتار سے گاڑی چلاتی تو باپ اسے ٹوکتا۔ جب باپ آہستہ گاڑی چلاتا تو ماں بار بار گھڑی دیکھتی رہتی۔ سب سے زیادہ بحث وہ سیاست پر کرتے۔ دونوں الگ الگ لیڈروں کو پسند کرتے تھے۔ ان کی چخ چخ کے دوران ہی ایڈم پندرہ سال کا ہو گیا۔ اس نے کئی دفعہ ان کی بحث و تکرار میں مداخلت کی لیکن اس سے صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ جب بھی وہ جھگڑا شروع کریں گے، میں چہل قدمی کے لیے باہر نکل جایا کروں گا۔ کبھی کبھار وہ اپنے اس فیصلے کو بھول کر ان کی تکرار میں شریک ہو جاتا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ جب بھی ان کی لڑائی شروع ہوگی، وہ چٹکی بجایا کرے گا۔ اس نے سنا تھا کہ ماہرینِ نفسیات مریضوں کو کلائی پر الاسٹک بینڈ باندھ دیا کرتے ہیں کہ جب بھی تکلیف دہ خیالات کا تسلسل شروع ہو، الاسٹک بینڈ کھینچ چھوڑا کریں۔ کلائی پرضرب لگے گی اور بندہ ماضی سے حال میں آ جائے گا۔
یوں ایڈم چٹکی بجانے لگا۔ چٹکی بجاتے ساتھ ہی وہ مکمل طور پر خاموش ہو جاتا اور جلد از جلد جھگڑے والی جگہ سے نکلنے کی کوشش کرتا۔ ایک روز جس کالج میں وہ پڑھتا تھا، وہاں دو طلبہ گروپوں میں جھگڑا ہوا۔ اس کے زیادہ تر ہم جماعت ایک گروپ کی حمایت میں برسرِ پیکار تھے۔ ایڈم نے چٹکی بجائی اور وہاں سے نکل آیا۔ بعد میں ایک گروپ کے لڑکوں نے اسے بزدل کہا۔ ایڈم مسکراتا رہا اور چٹکی بجاتا رہا۔ آخر دل کی بھڑاس نکال کر جب وہ چپ ہوئے تو ایڈم نے کچھ مشروبات منگوا کر انہیں بھی دیئے اور خود بھی پیے۔
یہ وہ صورتِ حال تھی، جس میں چٹکی اسے مصیبتوں سے بچا رہی تھی۔ یہ چٹکی اس پر عقل کے دروازے کھول دیتی تھی۔ گہرے غور و فکر کے عادی ایڈم پر زندگی کامیابی کے دروازے کھول رہی تھی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ 95 فیصد معاملات میں، جب آپ ٹھیک ہوتے ہیں لیکن کوئی آپ کو غلط کہہ رہا ہو تو چیخ و پکار کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس نے نوٹ کیا کہ جب کوئی شخص غلط کر رہا ہو، چاہے وہ اپنے غلط ہونے کا ادراک رکھتا ہو یا نہ، بحث سے ایک آنے کا فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ ہاں، نرم الفاظ میں اپنا نکتۂ نظر ضرور پیش کرنا چاہیے۔ آپ جو کام شروع کرنا چاہتے ہیں، سب لوگوں پر یہ ثابت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ آپ عقلمندی کا اقدام اٹھانے جا رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز کا خود بخود ہی فیصلہ ہو جاتا تھا کہ کون سا شخص غلط تھا اور کون سا صحیح ۔ کون سا فیصلہ درست تھا اور کون سا غلط۔
ایڈم بہت گہرائی میں سوچنے لگا تھا۔ اس نے ملازمت شروع کر دی تھی۔ ایک روز اس کے ایک ساتھی کا ایک بہت بڑا پرائز بانڈ نکل آیا۔ ایڈم اسے مبارک باد دینے گیا۔ اس وقت نہ جانے کیوں ایک فقرہ اس کی زبان پر آنے لگا۔ وہ اسے کہنا لگا تھا کہ اب اپنے بڑھے ہوئے پیٹ اور گہرے رنگ کا بھی علاج کرا لینا۔ ایک دم ہی اس کے دماغ نے ہاتھ کو چٹکی بجانے کا حکم دیا اور وہ چپ ہو گیا۔ یکایک اسے ادراک ہوا کہ اس کے دماغ پر حسد کی کیفیت کا حملہ ہوا ہے۔ اس کیفیت میں بولے گئے جملے سے ایک مستقل کشمکش بلکہ دشمنی کا آغاز ہو سکتا تھا۔ یہ مکمل طور پر ایک غیر ضروری جملہ تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ کچھ دیر بعد آہستہ آہستہ حسد کی یہ کیفیت ختم ہو گئی۔
ایڈم اپنے خیالات پہ نگران ہو گیا تھا۔ ہر اچھے خیال پر اس کا ذہن چٹکی بجاتا اور ہر برے خیال پر بھی۔ اپنے خیالات کو وہ پہچاننے لگا تھا۔ وہ مذہب کا بھی طالبِ علم تھا۔ اپنے نفس پہ اترنے والے ہر دو طرح کے خیالات پر وہ نگران ہو گیا تھا۔ اچھے کو تھام لیا کرتا اور برے کو چھوڑ دیتا۔ اس نے کہا، جب مجھے غصہ آتا تو ہرگز ہرگز میں کلام نہ کرتا۔
یہ وہ وقت تھا، جب کافی دیر کے بعد پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا نے اپنے لب ہلائے۔ اس نے اصرار سے کہا کہ ایڈم غیر ضروری تفصیل میں نہ جائے بلکہ سنجیدگی سے نفسیاتی علاج کے بارے میں سوچے۔ وہ غیر ضروری طور پر چٹکی بجاتا رہتا ہے اور اس میں دیوانگی کے آثار ہیں۔ ایڈم نے چونک کر پاشا کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر تنائو ہے بلکہ کسی حد تک حسد۔ وہ بلا کا ذہین تھا۔ اسے اندازہ ہوا کہ عقلمندی سے بحث مباحثے سے یوں بچ نکلنا پاشا کو پسند نہیں آیا۔ اس نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ پاشا خود اکثر و بیشتر فضول مباحثوں کا حصہ بنتا رہتا ہے۔ اس کی اَنا پر ضرب لگی ہے۔
ایڈم نے کہا، پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا، آپ کی ماہرانہ رائے کا شکریہ۔ میں اپنے نفسیاتی علاج کے بارے میں سنجیدگی سے سوچوں گا؛ حالانکہ دل ہی دل میں وہ جانتا تھا کہ اسے کسی علاج کی ضرورت نہیں۔ یہ بات اس نے صرف پاشا سے جان چھڑانے اور اسے حسد کی کیفیت سے نکالنے کے لیے کہی تھی۔ ہاں، البتہ وہ یہ ضرور سوچ رہا تھا کہ آئندہ ہاتھ سے چٹکی بجانے کی بجائے دماغ کے اندر ہی بجا لیا کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved