تین نومبر کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد نواز شریف نے پنجاب ہاؤس میں سیاسی مشاورت کے لیے جو مجلس منعقد کی اس کا اہم ترین موضوع تھا‘ آئندہ عام انتخابات۔ ایک خاتون وفاقی وزیر نے بات شروع کی اور انہیں بتایا کہ پیپلز پارٹی‘ جو پارلیمانی کمیٹی میں مردم شماری کے بعد آئندہ انتخابات کے لیے ضروری دستوری ترمیم کے لیے تیار تھی، اچانک یو ٹرن لے کر مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں ووٹ دینے سے انکار کر چکی ہے۔ اس کے بعد ایک اور وفاقی وزیر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی آئین میں ترمیم کی مخالفت کرکے دراصل حالات کو بنگلہ دیش ماڈل کی طرف لے جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش ماڈل کا ذکر آنا تھا کہ اس مجلس میں موجود ہر شخص اس کا ذکر کرنے لگا اور زور و شور سے اس کی مخالفت میں دلائل دیے جانے لگے۔ درمیان میں خاموشی کے ایک مختصر وقفے میں کسی نے نواز شریف پر چلنے والے احتساب کے مقدمات کا ذکر کیا تو انہوں نے اسے روک کرکہا، ''اس معاملے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں، آپ اپنی توجہ آئندہ انتخابات پر ہی مرکوز رکھیں‘‘۔ تھوڑی دیر مزید گفتگو کے بعد یہ بات طے پا گئی کہ آئندہ عام انتخابات کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا دراصل غیر جمہوری قوتوں کو بروئے کار آنے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے‘ لیکن پیپلز پارٹی ایسا کیوں کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سب کی نظریں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی طرف لگی ہوئی تھیں‘ جنہوں نے کمزور سی آواز میں اتنا کہا کہ، ''پیپلز پارٹی والے ایک دن پہلے تک تو بالکل تیار تھے دستور میں ترمیم کے لیے لیکن چوبیس گھنٹے میں کیا ہوا، اس بارے میں کوئی نہیں جانتا‘‘۔ زاہد حامد کی آواز میں کمزوری کی وجہ یہ تھی کہ وہ چند دن پہلے بھی اسی طرح کی ایک مجلس میں احتساب کے متعلق قوانین میں ترمیم میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے ہدفِ تنقید بن چکے تھے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے کئی سینئر اراکین دبے لفظوں میں اور چند ایک نواز شریف کے سامنے کھلے الفاظ میں زاہد حامد کی سست روی پر بات کر چکے تھے۔ نواز شریف نے مجلس مشاورت میں موجود چند لوگوں کو مردم شماری اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے قانونی مشکلات کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی اور یہ کہہ کر لاہور روانہ ہو گئے کہ ''آئندہ انتخابات کے لیے راستہ صاف کرنے کے حوالے سے ہم ہر حد تک جانے کو تیار ہیں‘‘۔ لاہور میں بھی مسلم لیگ ن کے جو رہنما ان سے ملے، انہوں نے اپنی اطلاعات یا تجزیے کی بنیاد پر یہی بتایا کہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بروقت نہ ہو پائیں تو موجودہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد بننے والی نگران حکومت کے لیے قانونی طور پر یہ گنجائش پیدا ہو جائے گی کہ اس کی ساٹھ روزہ مدت میں غیر معین اضافہ کیا جا سکے یوں پاکستان کے دستور سے ہی بنگلہ دیش ماڈل کی پیدائش ممکن ہو جائے گی۔ اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والی مشاورتوں کے بعد نواز شریف اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک کے سیاسی نظام میں موجود طاقت کے تمام مراکز جون دو ہزار اٹھارہ میں ان کے نکل جانے کے بعد ممکنہ طور پر کوئی ایسا نظام تشکیل دیں گے‘ جس میں مسلم لیگ ن کے سوا تمام فریق کسی نہ کسی طرح حکومت میں شامل ہوں گے۔ نواز شریف کو ''مائنس‘‘ کر دیے جانے کا یہ خدشہ تیزی سے حقیقت بنتا نظر آ رہا ہے‘ اس لیے اب ان کی پوری توجہ آئندہ انتخابات کے بروقت انعقاد پر مرکوز ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار ہیں۔
نواز شریف اندیشوں میں مبتلا ہیں تو آصف علی زرداری خفگی کا شکار ہیں۔ وہ جب بھی لاہور آتے ہیں پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما صوبے میں پارٹی کی تباہی کی ذمہ داری ان کی مفاہمت کی سیاست پر ڈالتے ہیں۔ انہیں ان کے دوستوں نے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ دو ہزار آٹھ کے الیکشن سے پہلے وہ رائے ونڈ گئے تو جیالوں کے دل ٹوٹ گئے تھے‘ اس کے باوجود نواز شریف نے ہر وہ کام کیا جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کمزور ہو حتیٰ کہ وہ خود میمو گیٹ میں پٹیشن لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد دو ہزار تیرہ میں جب عباس شریف کی تعزیت کے لیے انہوں نے رائے ونڈ جانا چاہا تو انہیں خام طریقے سے بتا دیا گیا کہ انہیں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا‘ لیکن دو ہزار چودہ میں جب عمران خان کے دھرنے کے باعث نواز شریف حکومت کو خطرہ لاحق ہوا تو زرداری نے نہ صرف ان کی مدد کی بلکہ رائے ونڈ جا کر پیغام دیا کہ نظام کو بچانے کے لیے وہ نواز شریف کے حلیف بننے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس احسان کا بدلہ انہیں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور ان کے دست راست انور مجید کے قانونی گھیراؤ کی صورت میں ملا۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے دوستوں کو گرفتار کرنے میں اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ صورتحال بطور وزیر اعظم نواز شریف کے علم میں بھی تھی لیکن انہوں نے اس سلسلے کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پھر جب دو ہزار پندرہ میں زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی تو اس کے بعد نواز شریف نے ایک بار پھر ان سے کنارا کر لیا اور اتنے دور چلے گئے کہ ملاقات بھی گوارا نہیں کی۔ اس کے بعد زرداری نے ریاستی نظام میں اپنی جگہ پیدا کرنے کے لیے کیا کیا یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اب وہ نواز شریف سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ اتنے غصے میں ہیں کہ اسحٰق ڈار اور خواجہ آصف کی مسلسل کوششوں کے باوجود وہ ان کا فون سنتے ہیں نہ کسی سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔ زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کی قیمت پر نواز شریف کی مدد کی لیکن اب نواز شریف کی قیمت پر اپنی پارٹی کو از سر نو زندہ کرنے کا موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ اس غصے میں وہ اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ بروقت انتخابات کے معاملے پر بھی نہیں کھڑے ہونا چاہتے۔ ان کی سوچ ہے کہ آئندہ الیکشن کی ضرورت نواز شریف کو سب سے زیادہ ہے اس لیے انہیں اس کی قیمت بھی سب سے زیادہ ادا کرنا ہو گی۔ وہ قیمت ہے مردم شماری میں سندھ کو اس کے حصے سے زیادہ وسائل دینا اور سندھ میں امن و امان کے مسائل کو مکمل طور پر صوبائی حکومت کے سپرد کر دینا۔ اگر زرداری کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تو ممکن ہے وہ آئندہ الیکشن سے پہلے بننے والی نگران حکومت کو طول دینے کے خواہشمندوں کے ساتھ جا کھڑے ہوں۔
عمران خان عجلت میں ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں اور نواز شریف ایک پیچیدہ صورتحال کا شکار ہیں۔ ان کے سامنے پیش کیے جانے والے تجزیے کے مطابق نواز شریف کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اداروں کے ساتھ تصادم اتنا بڑھا دیں کہ موجودہ سیاسی نظام کا چلنا ممکن نہ رہے۔ جب وہ ایسے حالات پیدا کر دیں گے تو پھر اداروں کے سامنے مداخلت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا اور اگر انہوں نے مداخلت کر دی تو نواز شریف کے خلاف چلنے والے احتساب کے مقدمات بے معنی ہو جائیں گے، ان کی سازش کی تھیوری سیاست کا سب سے بڑا سچ بن جائے گی اور انتخابات بہت دور چلے جائیں گے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کے لیے بہترین راستہ یہ ہو گا کہ جلد از جلد الیکشن کروائے جائیں‘ چاہے وہ پرانی مردم شماری کے مطابق ہی کیوں نہ ہوں۔ عمران خان اس تجزیے پر حقیقت کی طرح یقین کرتے ہوئے نہ صرف جلسوں پر جلسے کیے جا رہے ہیں بلکہ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نااہل کروانے کے لیے ایک بار پھر سپریم کورٹ بھی جا پہنچے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے انہیں آج جو سبقت حاصل ہے وہ اسی صورت میں برقرار رہے گی جب الیکشن اپنی مقررہ مدت سے کچھ پہلے ہوں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو ملکی نظام پر اتنا دباؤ ضرور رکھا جائے کہ نواز شریف کو کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہ مل سکے۔
یہی خدشے، غصے اور عجلت پر مبنی فیصلے تھے جنہوں نے پاکستان کو انیس سو نوے کی دہائی میں برباد کیا تھا۔ ایک بار پھر یہی تین عناصر فیصلوں میں کارفرما ہوتے نظر آرہے ہیں۔