اللہ تبارک وتعالیٰ خالق و مالکِ کائنات ہیں۔ جب انسان گہرائی سے کائنات کی تخلیق پر غوروفکر کرتاہے تو یہ بات اس کی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ نظام ہستی دہریوں کی باطل فکر کے مطابق ازخود نہیں بنا۔ بلکہ کائنات کو بنانے اور چلانے والے حکیم ودانا پروردگار ہیں۔ کائنات میں بلا ناغہ، تواتر اور تسلسل سے رونما ہونے والے تغیرات پکار پکار کر اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ رات اور دن کے ہر روز آنے اور جانے،ایک مقررہ وقت پر سورج کے نکلنے،چاند کے ہر مہینے بڑھنے اور کم ہونے ، سمندروں میں بحری جہازوں کے چلنے، فضا میں بادلوں کے پرواز کرنے اور موسموں کے تغیرات میں یقینااہل فکر ودانش کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے غوروفکر کا بہت بڑا مواد موجود ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کی بڑی اکائیوں کے ساتھ ساتھ اس کی بنائی ہوئی چھوٹی سے چھوٹی مخلوق میں اس کی نشانیاں موجود ہیں۔ سورہ نحل اس اعتبار سے قرآن مجید کی بہت ہی خوب صورت اور دلنشیں سورت ہے کہ اس میں انسانوں کو تفکر فی الخلق کی دعوت دی گئی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورت میں گائے کے گوبر اور خون کے درمیان سے نکلنے والے تازہ دودھ، پھلوں اور پھولوں کے رس کو چوس کر شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلنے والے شفا بخش شہد، فضائے بسیط میں اڑنے والے پرندوں ، سمندروں سے نکلنے والی والی خوش ذائقہ مچھلیوں ، انواع واقسام کے پھلوں اور انسانوں کے گھر میں پیدا ہونے والے بیٹے بیٹیوں اور گھروں کا ذکر کیا کہ یقینا ان تمام چیزوں میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ فطرت کے یہ حسین اور منظم شاہکار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کائنات کو بنانے اور چلانے والا حکیم ودانا خالق ومالک یقینا کائنات کے چپے چپے پرتصرف فرما رہا ہے۔
اس ہر سُو پھیلی کائنات میں جہاں صاحب بصیرت انسانوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نشانیاں چھپی ہوئی ہیں وہیں پر سیاسی اُتار چڑھاؤ اور قوموں کے عروج و زوال میںبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ کسی فرد کا حاکم بننا اور بعد ازاں اپنے ہمہ گیر اقتدار کے بعد زوال پذیر ہو جانا یقینا اس حقیقت کا احساس دلاتا ہے کہ کائنات کا حقیقی بادشاہ اللہ حاکم الحاکمین ہے۔اس زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بہت سے لوگوں کو وقتی طور پر اقتدار دیا اور وہ اس اقتدار اور اختیار کے حصول کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کو بالکل فراموش کر گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت اور پکڑ کا نشانہ بنے۔ فرعون کے پاس بہت بڑا اقتدار تھا اور وہ اس اقتدار کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر دیتا اور ان کی عورتوں کو چھوڑ دیا کرتا تھا۔ وہ اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے خبط میں مبتلا ہو چکا تھا اور اپنے آپ کو رب کہا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب بنی اسرائیل کے مظلوموں کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانے کا ارادہ کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ فرعون ایک تدبیر کے تحت ایک سال بنی اسرائیل کے بچوں کو چھوڑ دیا کرتا اور ایک سال ذبح کر دیا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت کامل کے اظہار کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اسی برس پیدا فرمایا جس برس اس نے بچوں کو ذبح کرنا تھا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی نصرت خاص سے نہ صرف یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی چال سے محفوظ فرما لیا بلکہ ان کی پرورش کا انتظام بھی فرعون کے محل ہی کے اندر کر دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرعون کی سرکشی اور بغاوت کے باوجود اسے یک لخت تباہ نہیں کیا بلکہ اس کو مختلف طرح کے عذابوں کے ذریعے تنبیہ کی۔ طوفان ،جوؤں، ٹڈیوں ، لہو کی بارش اور مینڈکوں کے عذاب کے ذریعے اس کو جھنجوڑا گیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود جب وہ اپنی اصلاح پر آمادہ نہ ہوا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بالآخر اس کو غرق آب کر دیا۔ آخری لمحات میں گہرے پانی کی لہروں میں غوطے کھاتے ہوئے اس سرکش نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان لانے کا اعلان کیا لیکن آخری لمحات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے لپکتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے ایمان کو مسترد کر دیا گیا۔ قارون کو بھی اپنے سرمائے پر بہت زیادہ ناز تھا اور وہ اس کو اللہ کی عطا کی بجائے اپنے زور بازو کا نتیجہ سمجھتا تھا۔ بستی کے سمجھدار لوگ اس کو نیکی کرنے اور فساد سے بچنے کی تلقین کرتے لیکن وہ کسی کی نصیحت کو خاطر میں نہ لاتا ۔ اس کی بستی میں رہنے والے دنیا دار لوگ اس کے سرمائے سے متاثر ہو کر اس کے سرمائے کی حصول کی تمنا کیا کرتے تھے۔لیکن اہل علم بستی کے لوگوں کی اس خواہش کو رد کرتے اور ان کو کہتے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والا ثواب قارون کے سرمائے سے بہت بہتر ہے۔ مادہ پرست لوگوں کی نگاہیں حقیقت کوپہچاننے سے قاصر رہتیں لیکن پھر وہ وقت بھی آیا جب قارون کو اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ ایسے عالم میں وہی لوگ جو کل تک قارون کے سرمائے کے طلب گار تھے اللہ کا احسان تسلیم کرنے لگے کہ ان کے پاس وہ مال موجود نہیں جو قارون کے پاس تھا وگرنہ وہ بھی زمین کے اندر دھنسا دیے گئے ہوتے۔
ابولہب مکہ کا سردار اور چوہدری تھا وہ اپنی چودھراہٹ کے گھمنڈ میں نبی مہرباں حضرت رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو جھٹلا تا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو عبرت کا نشان بنا دیا اور رہتی دنیا تک قرآن مجید کے ہر قاری کی زبان پر اس کی تباہی اور بربادی کی آیت کو بھی جاری کر دیا۔
فرعون، ہامان، قارون، شداد ، ابوجہل اور ابو لہب کا زوال اللہ تبارک وتعالیٰ کی حقیقی بادشاہت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس زمین پر جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کے نافرمان عبرت کا نشانہ بنے وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو اختیار کرنے والے بہت سے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر اقتدار اور غلبہ عطا فرمادیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام جیل خانے میں موجود تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یک لخت جیل خانے سے نکال کر وزیر خزانہ کی مسند پر پہنچا دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے جناب طالوت کو بھی آناً فاناً بادشاہت کا منصب عطا فرماد یا اور ان کے علم اور تقویٰ کی بدولت ان کو مسلمانوں کا امیر بنا دیا۔ حضرت ذوالقرنین کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر غلبہ عطا فرمایا دیا۔ اسی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل مکہ اور قریش کی مخالفت اور شقاوت کے باوجود نبی مہرباں حضرت رسول اللہ ﷺ کو بحفاظت مدینہ طیبہ منتقل فرما دیا۔ اور کافروں کے نہ چاہنے کے باوجود دین حق کو نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ ہی کے اندر دنیا میں غالب فرما دیا۔ آپ ﷺ کے رفقاء اور تلامذہ میں سے صدیق اکبر ،فاروق اعظم ، عثمان غنی اور علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کو اللہ نے زمین پر غلبہ عطا فرما کر اہل فکر ودانش کو یہ بات سمجھا دی یقینا زمین اللہ تبارک وتعالیٰ کی ملکیت ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ جس طر ح باغیوں کی سرکوبی کرنے پر قادر ہیں اسی طرح زمین پر اپنے مخلص بندوں کو غلبہ عطا فرمانے پر بھی قادر ہیں۔
پاکستان اور دیگر عصری معاشروں میں حکمرانوں کا زوال اور سیاست کی بدلتی ہوئی بساط یقینا اللہ احکم الحاکمین کی حقیقی بادشاہت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ لوگ جو قوموں کے اتار اور چڑھاؤ اور انسانوںکے عروج و زوال سے اللہ احکم الحاکمین کی حقیقی بادشاہت کو سمجھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یقینا وہ اللہ احکم الحاکمین کی تابع داری اور فرمانبردای کا راستہ اختیار کرکے دنیا اور آخرت کی سرخروئی کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں اس کے برعکس جو دنیا کے چند روزہ اقتدار کے نشے میں غرق ہو کر اللہ احکم الحاکمین کی حقیقی بادشاہت کو بھلا دیتے ہیں ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اخروی رسوائی اور ناکامی سے قبل ہی دنیا میں ان کو نشان ِعبرت بنا دیتا ہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں ہمیں اپنی بادشاہت اور لازوال اقتدار کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دنیا کے نشے میں دھت ہو کر اپنی ذات سے بے نیاز ہوجانے والوں میں شامل نہ فرمائے۔ آمین!