تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-11-2017

قرطبہ اے قرطبہ

عامر کو شاید اپنے سارے سوالات کا جواب معلوم تھا لیکن اب دل کا کیا کیا جائے؟ کمبخت اپنی مرضی کے جوابات کا منتظر رہتا ہے‘ خواہ وہ کتنے ہی نامعقول کیوں نہ ہوں۔ سو عامر مجھ سے اپنے دل کی مرضی کے جوابات کا خواہاں تھا۔ پوچھنے لگا: کیا اب سپین میں مسلمانوں کے دوبارہ عروج کا امکان ہے؟ میں نے بے دھڑک جواب دیا: ناممکن‘ اور خاص طور پر مسلمانوں کی موجودہ حالت کے تناظر میں بالکل ہی ناممکن۔ عامر پوچھنے لگا: کوئی تھوڑا بہت امکان؟ میں نے کہا: ''ناممکن‘‘ میں اسی تھوڑے بہت امکان کو رد کیا گیا ہے‘ اگر تم یہ بات مجھ سے چالیس سال پہلے پوچھتے‘ جب ہماری عمر کے سبھی نوجوان دہلی کے لال قلعے پر سبز پرچم لہرانے کی بات کرتے تھے اور عالمی استعمار کی بربادی کے دعوے کرتے تھے‘ تب اور بات تھی مگر اب میں آدھی سے زیادہ دنیا گھوم چکا ہوں۔ عالم کفر کی ہر معاملے میں ترقی اور اپنی بحیثیت امت تنزلی کا جائزہ لے چکا ہوں‘ اور ابھی میرے خیال میں کم از کم میری زندگی میں کسی محیرالعقول بہتری اور تبدیلی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہاں میرا مالک اگر غیب سے کچھ کر دے تو اس پر بحیثیتِ مسلمان میرا ایمان کامل ہے کہ وہ سب جہانوں کا رب ہے اور مالک بھی۔ لیکن ہم اپنے اسی رب اور مالک کے احکامات سے روگردانی کے باعث اس قعرِ مذلت میں گرے ہیں۔ لیکن اس کی کبریائی کے اقرار میں یہ بات شامل ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہے‘ لہٰذا اس کی جانب سے کسی بھی بات کا امکان ہمہ وقت موجود ہے اور اس سے انکار کفر ہے۔
مالاگا سے غرناطہ‘ جو اب گریناڈا ہے‘ کی جانب سفر جاری تھا۔ میاں طیب کہنے لگا: انہوں نے ہمارے یعنی مسلمانوں کے جاتے ہی شہروں کے نام بدل دیئے ہیں۔ مالقہ کو مالاگا کر دیا۔ قرطبہ کو کارڈووا یا کارڈووا‘ غرناطہ کو گریناڈا‘ اشبیلیہ کو سیویّا اور اسی طرح دیگر شہروں کے نام بدل دیئے ہیں۔ میں نے کہا: میاں جی! یہ ہماری ان شہروں کے عربی ناموں سے دلی وابستگی اور جذباتی لگائو کا اظہار ہے۔ یہ شہر ہمارے آنے سے پہلے یعنی مسلمان فاتح موسیٰ بن نصیر کے 712 عیسوی میں اس سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے بھی موجود تھے اور یقینا مالاگا‘ مالقہ نہیں ہو گا۔ غرناطہ بھی گریناڈا ہی ہو گا‘ اور اسی طرح قرطبہ بھی تب کارڈووا ہو گا۔ فاتحین اپنی زبان کے مطابق آسانی کے لیے شہروں کے نام بدل دیتے ہیں‘ پھر وقت بدلنے پر پرانے نام واپس آ جاتے ہیں‘ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ قرطبہ اور غرناطہ نے مسلمانوں سے ہزاروں سال پہلے رومنوں کا اقتدار دیکھا ہے۔ دونوں شہروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ زمانہ قبل از مسیح سے موجود اور آباد ہیں۔ یہی حال اشبیلیہ یعنی سیویّا کا ہے‘ جیسے انگریزی میں سیویلی لکھتے ہیں۔ سو برادرم! یہ فاتح کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے شہروں کے نام اپنی مرضی سے رکھے یا پھر واپس انہیں پرانا نام دے دے۔ 
میاں طیب مسلمانوں کے زوال پر بڑا دکھی تھا۔ دکھی کون نہیں؟ میں بھی ہوں اور کسی سے کم نہیں مگر اس دکھ‘ ملال اور افسوس میں سچائی کی موت نہیں ہونی چاہیے۔ عشرے ہوئے چیزوں کے بارے غیر جذباتی انداز میں سوچنے کے باعث اس عاجز نے بہت کچھ سیکھا اور خدا کا شکر ہے کہ اس میں زیادہ تاخیر نہیں ہوئی۔ زیادہ تاخیر کیا ہے؟ جب انسان مٹی کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے۔ سو یہ بھی اس رب ذوالجلال کا کرم ہے جو بنی نوع انسان کو بار بار سوچنے کی تلقین کرتا ہے۔ گاڑی میں بات شروع ہو گئی سپین میں مسلمانوں کے زوال اور رخصتی کی۔ عامر مجھ سے پوچھنے لگا کہ میرے خیال میں اس کی کیا وجوہات تھیں؟۔ میں نے کہا: وجوہات تو ایک سے زیادہ ہیں لیکن بنیادی وجہ مسلمانوں کی نااتفاقی اور سات سو سال سے زیادہ عرصہ تک ایک عیسائی ریاست بلکہ ریاستوں کے عین قلب میں مسلمانوں کی موجودگی کے باعث ان عیسائی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف باہمی اتحاد‘ یعنی ایک طرف نفاق اور دوسری طرف اتفاق۔ ایک طرف نااتفاقی اور دوسری طرف اتفاق۔
دوسری وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ہر مشکل موقع پر شمالی افریقہ سے کبھی بربروں کا لشکر مدد کے لیے آن موجود ہوتا تھا اور کبھی دوسرے قریبی افریقی ممالک خصوصاً مراکش سے جنگجوئوں کی مدد۔ ایک طرف سپین کے مسلمانوں میں اس حد تک نااتفاقی کہ ہر صوبہ ایک ریاست کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ان ریاستوں کو انگریز اور مغربی مورخ TAIFA STATES لکھتے ہیں۔ ایک بار انگریزی ڈکشنری میں اس لفظ ''طائفہ سٹیٹس‘‘ کا مطلب تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ غالباً اسی طائفہ سٹیٹس سے اردو کا لفظ طوائف الملوکی اخذ ہوا ہے‘ کیونکہ دونوں کا مطلب بالکل ایک جیسا ہے۔ ممکن ہے مغربی مورخین نے یہ لفظ عربی سے لیا ہو لیکن بات واضح ہو جاتی ہے۔ 1031ء میں قرطبہ کی خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلم سپین یعنی اندلس کا چاند گہنانا شروع ہو گیا۔ مرکزیت ختم ہو گئی۔ طوائف الملوکی کا آغاز ہوا اور پھر سب کچھ 1492ء میں ختم ہو گیا۔
مسلمانان اندلس نے ابو عامر المنصور کے زمانے میں جس قدر عروج دیکھا وہ نہ پہلے کبھی دیکھا اور نہ پھر اس کے بعد۔ ابو عامر المنصور اندلس کا خلیفہ نہیں وزیر تھا۔ لیکن اس قدر طاقتور اور غالب کہ بہت کم لوگوں کو اس زمانے کے خلفاء کا نام آتا ہو گا۔ یہ المنصور کا عہد کہلاتا ہے۔ ابو عامر المنصور نے اندلس پر بطور وزیر اعظم چوبیس سال حکومت کی۔ اس کے دور میں مسلمان سلطنت میں موجودہ سپین کا قریب 60/65 فیصد حصہ اور سارا پرتگال شامل تھا۔ اس کے دور میں مسلمان پہلی مرتبہ بارسلونا پر قابض ہوئے۔ مسلمانوں نے بارسلونا پر 985 عیسوی میں قبضہ کیا اور یہ قبضہ کئی عشرے رہا۔
ابو عامر المنصور 1002 میں ایک مہم سے واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اس کا انتقال ہو گیا۔ یہ اس کی پچاس سے زیادہ مہمات میں آخری تھی جس میں اس نے بذات خود اپنی فوج کی قیادت کی اور فاتح ٹھہرا۔ اس کی وفات سپین میں مسلمانوں کے زوال کا آغاز تھا اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھرنے کی ابتدا بھی۔ ابو عامر المنصور کی جگہ اس کے بڑے بیٹے عبدالمالک المظفر نے سنبھالی مگر 1008ء میں وہ بھی انتقال کر گیا۔ اسے غالباً قتل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کے چھوٹے بھائی نے وزارت سنبھالی۔ وہ تب لیون کے عیسائی حاکم الفانسو پنجم کے خلاف جنگ میں مصروف تھا جب قرطبہ میں خلیفہ ہشام ثانی کا تختہ الٹ دیا گیا‘ اور محمد دوم المہدی کو خلیفہ بنا دیا گیا۔ نئے خلیفہ نے المنصور کے چھوٹے بیٹے کو جان کی امان دی مگر قرطبہ واپسی پر اسے قتل کر دیا۔ غلاموں نے مہدی کے خلاف بغاوت کر دی اور اسے 1009ء میں قتل کر دیا۔ اب ہشام ثانی نے قرطبہ میں بطور خلیفہ ایک بار پھر عنان حکومت سنبھالی۔ عیاش طبع ہشام دوم نے عبدالرحمان الداخل سے لے کر عبدالرحمان سوم تک مسلمانوں کی شاندار روایات کو گہن لگا دیا۔ میک اپ کرکے مردانہ حرم میں قیام کرنے والے ہشام ثانی کے خلاف بربروں نے پہلی بغاوت 1012ء میں کی اور دوسری بار 1016ء میں انہوں نے قرطبہ پر قبضہ کر لیا۔ ہشام بھاگ کر ایشیا چلا گیا۔ 1031ء تک قرطبہ اقتدار کی جنگ کی آماجگاہ بنا رہا تاوقتیکہ 1031ء میں ہشام سوم کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی سپین میں مسلم وحدت‘ مرکزی حکومت اور خلافت کا خاتمہ ہو گیا اور طوائف الملوکی کا آغاز ہو گیا‘ پھر Spanish Reconquista کا آغاز ہوا۔ 1236ء میں یعنی قرطبہ کی مرکزی خلافت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی ''طائفہ ریاست‘‘ کا مکمل خاتمہ ہو گی۔ا اسے کاسٹیلیا کے عیسائی حاکم فرڈنینڈ سوم نے فتح کیا۔ اس طرح قرطبہ پر مسلمانوں کا اقتدار اموی خلافت کے خاتمے کے 205 سال بعد مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ یہ عیسائیوں کی پہلی قابل ذکر فتح تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved