تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-11-2017

کچھ اس طرح سے لٹے ہم

یہ سات آٹھ سال پرانی بات ہے جب لاہور کی سڑکیں اور چوراہے ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے رنگین اور انتہائی خوش نما فلیکس بورڈز سے اَٹے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ جس طرف بھی نظر اٹھتی‘ سوسائٹی کے خوش کن بورڈز ہر گزرنے والے کو اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔ آتے جاتے ہوئے لوگ ابھی ان فلیکس بورڈز کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے تھے کہ دو دن بعد میڈیا بیرون ملک مقیم ہزاروں پاکستانی گھرانوں تو کہیں ہمارے جیسے بے گھر افراد کو اپنی جانب کھینچنے لگا اور یہ سلسلہ چند ایک ہفتے نہیں بلکہ دو ماہ تک متواتر ٹی وی سکرینوں کی زینت بنتا رہا۔ان کو دیکھ دیکھ کر گھر والوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں بھی یہاں دس مرلے کے دو پلاٹ لے لینے چاہئیں۔ موقع ملا تو ان میں سے ایک کو بیچ کر دوسرے پر گھر تعمیر کر لیں گے۔ سبھی اس خیال سے خوش ہو گئے۔ ہمیں تسلی اس بات کی بھی تھی کہ یہ کوئی فراڈ کمپنی یا سوسائٹی تو ہو نہیں سکتی کیونکہ اس کی ضمانت کیلئے اس کی شہرت ہی کافی ہے اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس سے متعلق اداروں کو اس سوسائٹی اور اس کے کرتا دھرتا لوگوں کے بارے کوئی علم ہی نہ ہو۔لیکن آج دسواں سال شروع ہو چکا ہے‘ نہ تو کوئی پلاٹ ہے اور نہ ہی جمع کرائی گئی رقم واپس ملنے کی امید دکھائی دے رہی ہے۔ 
کوئی دو ماہ ہوئے پیغام ملا کہ لاہور پریس کلب کے باہر اس رہائشی سکیم کے ہاتھوں لٹے پٹے اوور سیز پاکستانیوں کی فیملیاں اکٹھے ہو کر حکام بالا کی توجہ مبذول کرانے کیلئے احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہیں‘ آپ بھی اس میں شرکت کریں؛ چونکہ آپ کا تعلق میڈیا سے ہے ا س لئے آپ کے ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر آواز بلند کرنے سے میڈیا کے دیگر لوگ متوجہ ہو کر بہتر کوریج کریں گے۔۔۔مقررہ وقت پر جب شملہ ہل لاہور پریس کلب پہنچا تو با عزت اور شریف گھرانوں کی خواتین و حضرات اپنے بچے بچیوں سمیت ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے بڑے بڑے نام والے لٹیروں کا ماتم کر رہے تھے۔ ان میں بہت سی ایسی فیملیاں تھیں جن کے شوہر بھائی اور والدین بیرون ملک مقیم تھے اور انہوں نے بھی دھوکے اور فراڈ کے اس میدان میں اس لئے بے خوف چھلانگیں لگا ئی تھیںکہ اس کی با قاعدہ منظوری اس وقت اہم شخصیت نے دی ہوئی تھی اور اس سے متعلقہ کسی بھی رہا ئشی سکیم میں فراڈ یا دھوکے کا امکان بہت کم تھا۔
لاہور پریس کلب کے باہر ایک دنیا تھی جو گزرتے ہوئے ہم سب کو دیکھ رہی تھی‘ کچھ لوگ رک رک کر پوچھتے تھے کہ یہ شخص کون ہے جس کا نام پلے کارڈز پر اس عبارت کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ '' اسے واپس لائو‘‘ جب انہیں بتا یا جاتا کہ یہ ایک اہم شخصیت کا عزیز ہے تو لوگ انگلیاں منہ میں دباتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔۔۔ چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں اور ان کے والدین کوئی ایک گھنٹہ تک سخت گرمی میں پریس کلب کے باہر پلے کارڈ اٹھائے کھڑے رہے یہ سمجھتے ہوئے کہ ''شائد اتر جائے کسی کے دل میں ہماری منا جات‘‘۔ لیکن آج اس بات کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کسی ایک کے کان پر بھی جوں تک نہیں رینگ رہی۔ابھی تک ہم وہیں کھڑے ہیں اور ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمیں لگتا ہے ہم اپنے ہی ملک میں اجنبی ہیں۔ کیونکہ جب کوئی اپنا ہی ہمیں لوٹے گا اور کوئی انصاف دلانے کو بھی تیار نہیں ہو گا تو پھر ہمارے جذبات کو کوئی کیسے مجروح ہونے سے بچا سکتا ہے۔
وہ نہ جانے کون سی گھڑی تھی جب اپنے گھر کا خیال آتے ہی سب نے فیصلہ کیا کہ پہلے مرحلے میں ہی دو پلاٹوں کی درخواستیں جمع کرا دی جائیں۔۔۔۔ہائوسنگ سوسائٹی کا فارم مکمل کرنے کے بعد اپنی مزید تسلی کیلئے درخواست دینے سے پہلے اس ادارے کے ایک اہم افسر کے ذریعے مزید اطمینان کرتے ہی اگلی صبح اپنے بینک جا پہنچا اور دس مرلہ کے پلاٹ کیلئے درخواست فارم حاصل کرنے کے بعد متعلقہ رقوم کے پے آرڈر بنوا کر سوسائٹی آفس پہنچا اور پے آرڈر سمیت درخواست فارمز ان کے حوالے کرنے کے بعد باقاعدہ رسید حاصل لرلی اور پلاٹ کے حصول کیلئے انتظار کرنے والوں کی قطار میں جا لگا۔ 
ہر تین ماہ بعد ایک لاکھ دس ہزار روپے اقساط کی صورت میں سوسائٹی کے اکائونٹ میں بطور پے آرڈر جمع کرانے شروع کر دیئے اور ایک دن وہ بھی آیا جب ان کی جانب سے واجب الادا تمام رقم ان کے کھاتے میں جمع کر ادی گئی جس کے چند ماہ بعد الاٹمنٹ لیٹر بھی مل گیا جس میں خوش خبری دیتے ہوئے بتا یا گیا کہ چونکہ آپ درخواست دینے والے ابتدائی افراد کی فہرست میں آتے ہیں اس لئے آپ کو بغیر قرعہ اندازی کے دس مرلہ کا پلاٹ الا ٹ کر دیا گیا ہے جس کا نمبر آپ کو جلد ہی دیا جائے گا۔
یہ خوش خبری سنتے ہی اس دن کا انتظار کر نا شروع کر دیا کہ اب جلد ہی ایک پلاٹ بیچ کردوسرے پلاٹ پر گھر بنانے کے بعد کرائے کی زحمت اور ہر دو چار سال بعد نیا گھر ڈھونڈنے کی زحمت سے بچ جائیں گے کیونکہ کرائے پر روز روز گھر بدلنے سے جہاں اخراجات کا ضیاع ہوتا ہے وہاں قیمتی وقت برباد ہوتا ہے اور ذہنی تنائو بھی بڑھتا ہے۔ ہم کچھ اور ہی سوچ رہے تھے کہ ایک شام دھماکہ خیز خبر ملی کہ یہ تو فراڈ سکیم نکلی ہے جس کے کرتا دھرتا لوگ پاکستان اور اس سے باہر وطن عزیز کو اربوں ڈالر کا زر مبادلہ دینے والوں کی سب جمع پونجی لوٹ کر بھاگ چکے ہیں ۔۔۔وہ رات نہ جانے کس طرح آنکھوں میں کاٹی اور اگلی صبح جب اس جگہ پہنچے جہاں اس رہائشی سکیم کا بہت بڑا خوش کن بورڈ لگایا گیا تھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں تو کسی شے کا نام و نشان ہی نہیں تھا اور جب اس کے دفتر پہنچے تو بتایا گیا یہ یہاں سے شفٹ ہو چکا ہے۔۔۔آپ سب لوگ فلاں جگہ جائیں اور جب وہاں پہنچے تو بتا یا گیا کہ شور مت کریں اور گھر بیٹھ کر انتظار کریں لیکن وہ انتظار ہے کہ اس قدر طویل ہوچلا ہے کہ دن مہینے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں لیکن انتظار ہے کہ ابھی تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔ کبھی نیب لاہور کے دفتر دھکے کھاتے ہیں تو کبھی اس دن اور گھڑی کو کوسنا شروع ہو جاتے ہیں جب اس رہائشی سکیم کی منظوری دینے والے کے نام پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو ئے۔ طاقتوروں کے ہاتھوں میرے جیسے ہزاروں لوگ اپنی عمر بھرکی جمع پونجی گنوائے بیٹھے رو رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل کوئی رات دس بجے میرا چھوٹا بیٹاگھر آنے کیلئے ڈیفنس فیز ایٹ کے قریب گزر رہا تھا کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے روک کر اسے لوٹنا شروع کر دیا‘ نادان بچے نے مزاحمت کی کوشش کی تو اس کے سر پر پتھروں اور مائوزر کے دستے اس طرح مارے گئے کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ چند منٹ بعد وہاں پہنچنے والی ڈولفن فورس نے اسے ڈیفنس کے نجی ہسپتال پہنچایا جہاں ملک کے دو بہترین ڈاکٹروں طارق صلاح الدین اور کمال صدیقی نے اس کے دماغ اور آنکھوں کے علیحدہ علیحدہ آپریشن کئے۔۔۔لیکن بد قسمتی سے وہ عمر بھر کیلئے دائیں آنکھ کی بینائی سے محروم ہو چکا ہے۔۔ ہسپتال میں علاج کے بھاری اخراجات کا قرض اور ہائوسنگ سوسائٹی کے فراڈ کا دکھ عمر کے اس حصے میں نڈھال کر گیا ہے۔ سوچتا ہوں کس کس سے ماتم کروں؟...!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved