بیجنگ کی قدیم ترین (اور وسیع ترین) مسجد میں نماز جمعہ کے دو فرضوں سے فراغت کے بعد اب لنچ کا مرحلہ تھا۔ لاہور کے چینی قونصل خانے نے ہمارے میزبانوں کو حلال کھانوں کے اہتمام کی خصوصی تاکید کر دی تھی (اور اس کا پورا خیال رکھا گیا) البتہ ان کے بے مزہ اور بے ذائقہ ہونے کے لیے ہم ذہنی طور پر تیار تھے۔ ہمارا خیال تھا‘ یہ تو ہم پاکستانی ہیں جنہوں نے چینی کھانوں کو بھی اپنے ذائقے دے دیئے ہیں‘ چین میں تو مرچ مسالے کے بغیر اُبلے ہوئے کھانے ہوں گے۔ اپنے ہاں ڈاکٹر کی ہدایت پر ''پرہیزی غذا‘‘ کھانی پڑ جائے تو مریض کے لیے یہ ایک آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ ''طاہرہ‘‘ اور اس کی ٹیم نے شہر میں ایسے ریسٹورنٹس کا انتخاب کر لیا تھا‘ جو صرف حلال ڈشوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ایسا ہی ایک ریسٹورنٹ اس مسجد سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ ہمارے لیے خوشگوار حیرت کی بات تھی کہ یہاں چکن‘ بیف اور مٹن کی درجن بھر ڈشیں تھیں یہاں تک کہ میز چھوٹی پڑ جاتی۔ ہر ایک کا اپنا ذائقہ تھا۔ تین چار قسم کی سلاد اس کے علاوہ تھی۔ یہ تو سردی کے دن تھے‘ گرمیوں میں بھی چین والے کھانے میں نیم گرم سا پانی پیتے ہیں‘ اپنے ہاں کی طرح نہیں کہ گرما گرم تندوری روٹی‘ ایسا ہی گرم سالن اور ٹھنڈا پانی۔ شنگھائی کے پرانے شہر میں ''مطعم الاسلامی‘‘ تھا جہاں استقبالیے پر موجود خاتون سے لے کر ''سرو‘‘ کرنے والی لڑکیوں تک سبھی سکارف پہنے ہوئے تھیں۔ آخری دن ایئرپورٹ کے راستے میں ''طاہرہ‘‘ ہمیں جس ریسٹورنٹ میں لے گئی‘ یہ کاشغر کے مسلمان کا تھا۔ وہی علامہ والا ''تا بہ خاکِ کاشغر‘‘... وسط چین کے شہر ''چنگ چو‘‘ کی سیاس انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر Sikun Chan اور سکول آف انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کی ڈین مادام Jinjin Chu یونیورسٹی کے مفصل دورے کے بعد لنچ کے لیے یونیورسٹی کیفے ٹیریا کی بجائے شہر میں ایک حلال ریسٹورنٹ میں لے گئے۔ بیجنگ سے شنگھائی تک گیارہ بارہ سو کلومیٹر کا سفر ساڑھے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ والی فاسٹ ٹرین میں تھا۔ چار‘ سوا چار گھنٹے کے سفر میں مسافروں کو لنچ بھی سرو کیا جاتا ہے۔ ''طاہرہ‘‘ نے یہاں بھی ''مسافرانِ حرم‘‘ کے لیے حلال کھانے کا بندوبست کر لیا تھا۔ یاد آیا‘ بیجنگ میں ایک ڈِنر ''خان صاحب‘‘ کے ہوٹل میں بھی تھا۔ پشاور کے نوجوانوں نے آٹھ‘ دس سال پہلے یہ ہوٹل بنایا تھا۔ یہاں سارا سٹاف بھی اپنے خیبر پختونخوا سے ہے اور کھانے میں بھی وہی چپل کباب‘ باربی کیو اور مٹن پلائو وغیرہ۔ حلال گوشت کی ایک‘ دو دکانیں تقریباً ہر بازار اور ہر ''مال‘‘ میں مل جائیں گی۔ ہوٹل کی لابی میں‘ جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے‘ پاکستانی سفارت خانے کے ایک اہلکار محمد جاوید سے ملاقات ہوئی۔ اس سال کی عیدالاضحی یہاں اس کی پہلی عید تھی۔ وہ بتا رہا تھا کہ ایک چینی مسلمان عید پر قربانی کے لیے ''سہولت کار‘‘ کے فرائض انجام دیتا ہے۔ جانوروں کی فراہمی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سفارت خانے کے افسروں اور اہلکاروں میں اکثر نے قربانی کی سعادت حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ کہ چینیوں میں بھی‘ جن کے لیے حلال حرام کا ''شرعاً‘‘ کوئی مسئلہ نہیں‘ حلال گوشت اور حلال کھانے پاپولر ہو رہے ہیں۔
کھانے میں ایک دلچسپ تجربہ بیجنگ کی 6th رنگ روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں ہوا۔ بتایا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف بھی اپنے گزشتہ دورے میں یہاں آئے تھے۔ ڈائننگ ٹیبل میں ہر مہمان کے لیے الگ ''اوون‘‘ نصب تھا اور سامنے کچی اشیا۔ پاٹ میں ابلتے پانی میں اپنی پسند کی چیز ابالتے جائیں اور پلیٹ میں ڈال کر نوشِ جان فرماتے جائیں۔ لذتِ کام و دہن کے لیے نمک‘ مرچ‘ مسالہ بھی موجود تھا۔ میز پر جو بھی ڈش آتی‘ عمر شامی اس کی تصویر بنا لیتا کہ گھر جا کر اس کا تجربہ کرے گا۔ لاہور میں پیکو روڈ پر پنجاب ہائوسنگ سوسائٹی میں ہمارے شامی صاحب کا سارا گھر انہی دنوں Renovate ہوا ہے۔ اب کچن میں تندور بھی ہے۔ چنانچہ گرما گرم نان اور تندوری پراٹھے باہر سے نہیں منگوانے پڑتے۔ کچن کے جملہ فرائض باورچی کے ذمے ہیں لیکن ہماری بھابھی محترمہ نگرانی کئے بغیر نہیں رہتیں۔ عمر نے اس اتوار کو اس دورے کے ہم سفروں کو برنچ پر بلایا ہے۔ اب دیکھیں‘ چینی ڈشوں میں سے کس کس کا اور کیسا کیسا تجربہ ہو گا؟
بیجنگ میں اس شام کی آخری سرکاری مصروفیت Xinhua News Agency کا وزٹ تھا۔ 32 منزلہ اس کی بلڈنگ شہر کی بلند ترین عمارتوں میں ایک ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی ترجمان کے طور پر اس کا آغاز ہوا۔ اس کے میوزیم میں تصاویر کمیونسٹ پارٹی کی انقلابی جدوجہد کے مختلف مراحل کی عکاس ہیں۔ تاریخی لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے خچر پر سوار مائو کی تصاویر کے علاوہ مائو کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی (یا ایڈٹ کی ہوئی) خبریں بھی اس میوزیم کا اہم ترین حصہ ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور ذہین و مستعد اخبار نویسوں کے ساتھ اب یہ ایجنسی دنیا کی آٹھ بڑی زبانوں میں سروس بہم پہنچا رہی ہے۔ اکثر و بیشتر دارالحکومتوں میں اس کا سٹاف موجود ہے۔
اس شام کی ایک اہم خبر عمر شامی کے گم شدہ اٹیچی کیس کی بازیابی تھی۔ پی آئی اے کی طرف سے کال آئی تو عمر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ پی آئی اے والوں نے تو کہا تھا کہ سوموار سے پہلے یہ ممکن نہ ہو گا لیکن کمال ہو گیا تھا کہ صبح کا گم شدہ سامان شام کو بازیاب ہو گیا تھا۔ لگتا ہے‘ اس روز قومی ایئرلائن کے لیے اہم ترین مشن گم شدہ متاعِ شامی کی بازیابی تھی جس میں وہ کامیاب رہی۔ لیکن کچھ نقصان تو ہو چکا تھا کہ عمر نے سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑے‘ سویٹر اور مفلر وغیرہ خرید لیے تھے۔ ڈنر کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تو دیر تک اسی پر بات ہوتی رہی۔ عمر نے ہنستے ہوئے دلچسپ بات بتائی‘ گھر کی بات لیکن دوستوں سے کیا پردہ؟ بیگم کو فون پر گمشدگی کی خبر دی تو ان کا بے ساختہ ردعمل تھا‘ اب اچھے خاصے پیسے نئے کپڑوں اور دوسری ضروری چیزوں کی خریداری پر اٹھ جائیں گے۔ کفایت شعار بیویاں فضول خرچ شوہروں پر قدرت کی طرف سے ایک ''چیک‘‘ ہوتی ہیں۔ ہمیں ایک لطیفہ یاد آیا‘ پریشان حال شوہر نے گھر پہنچ کر بیوی کو بتایا کہ دفتر کی چھت گر گئی تھی سبھی ساتھی نیچے آ کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میں سگریٹ پینے کے لیے باہر تھا‘ اس لیے بچ گیا۔ بیوی شکرانے کے نفل کی تیاری کرنے لگی‘ ادھر ٹی وی سکرین پر ''ٹکر‘‘ چلنے لگا‘ حکومت نے جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کے لیے پچاس‘ پچاس لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کر دیا تھا۔ بیوی غصے میں میاں سے کہنے لگی‘ کہہ کہہ کے تھگ گئی ہوں کہ سگریٹ چھوڑ دو لیکن تم کسی کی سنتے ہی کب ہو؟
چین کا سفر جاری ہے۔ کوشش کروں گا مزید ایک دو کالموں میں سمٹ جائے۔
آج آخر میں عرفان صدیقی صاحب کی تازہ غزل جو واٹس ایپ پر موصول ہوئی۔
گردشِ شام و سحر کے درمیاں چلتی رہی
اک کہانی داستاں در داستاں چلتی رہی
راستی کے راستوں کی خانہ ویرانی محال
کارواں ٹھہرے تو گردِ کارواں چلتی رہی
سرد بازاری کے مارے شہرِ بے برکت میں بھی
میرے چھوٹے سے محلے کی دُکاں چلتی رہی
ایک سناٹا نوائے شوق میں ڈھلتا رہا
اک حکایت در حدیثِ دیگراں چلتی رہی
آگ برساتی رُتوں میں بھی کنول کھلتے رہے
دشت میں بھی اک ہوائے مہرباں چلتی رہی
فیصلے سب بارگاہِ ناز میں ہوتے رہے
عدل گاہ میں ایک مشقِ رائیگاں چلتی رہی
جانے کس کے ہاتھ میں تھا کاروبارِ میکدہ
اور تہمت برسرِ پیرِ مغاں چلتی رہی