تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     10-11-2017

وزیرِ داخلہ کے نام ایک پیغام

پاکستان کا موجودہ حکومتی نظام ہزار خرابیوں کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ سست روی، رکاوٹوں اور غیر فعالیت کے کانٹے اس کے دامن گیر ہیں۔ اس میں اہم عہدے رکھنے والے افراد بلا سوچے سمجھے ان چیزوں کو معطل یا ختم کرنے یا اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ جو نام نہاد قومی مفاد کے لیے ان کو نقصان دہ دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال چند سال پہلے یو ٹیوب کی بندش تھی۔ تاہم یہ اُس بیماری کی ان گنت علامتوں میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی شہرت ایک ایسے ملک کی ہو چکی ہے جو ہمہ وقت رد عمل دینے اور ماضی کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے کا رجحان رکھتا ہے، اور جس پر ابھی تک قدامت پسند بیوروکریسی راج کرتی ہے۔ 
''ناپسندیدہ چیزوں‘‘ پر حسبِ عادت ردعمل ، جو کہ بند کر دینا، معطل کر دینا یا مکمل طور پر ختم کر دینا جیسے انتظامی اقدامات پر مبنی ہوتا ہے ، نچلی سطح پر مرتب ہونے والے مضمرات سے لاتعلق رہتا ہے ۔ اس جامد ذہنیت کی عکاسی تین اہم ایشوز سے ہوتی ہے۔ 2016ء میں سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے انسداد ِ دہشت گردی کے تزویراتی اقدام کے طور پر تمام ''غیر تصدیق شدہ‘‘ شناختی کارڈز اور بینک اکائونٹس بلاک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لاکھوں پاکستانیوں کے لیے یہ فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا کیونکہ بہت سے شہری اپنے شناختی کارڈز اور اپنے بینک اکائونٹس تک رسائی سے محرو م ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ سے تمام ''مشتبہ‘‘ افراد مختلف قسم کے سکیورٹی اپریٹس کے رحم و کرم پر آ گئے ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اس حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے سوچ بچار کو کوئی موقع نہیں دیا گیا تھا۔ 
دوسرا ایشو بین الاقوامی اور ملکی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو اپنی سرگرمیوں کے لیے این او سی حاصل کرنے کا پابند بنانا تھا ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے ماتحت عملے کو بدعنوانی کرنے کا موقع مل گیا۔ اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں، جیسا کہ لاہور اور پشاور کے کئی ایک افسران این جی اوز کو این او سی جاری کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے رہے ہیں حالانکہ وہ این جی اوز لڑکیوں کو مہارتیں سکھانے کے پروگرامز چلا رہی تھیں۔ نچلے درجے کے بعض افسران انٹرنیشنل تنظیموں (INGOs) اور ملکی این جی اوز کو بلیک میل کرکے اُنہیں اپنی مٹھی گرم کرنے پر مجبور کر چکے ہیں۔ درحقیقت این او سی کی ضرورت ایک طرح کی ''بھتہ گیری‘‘ ہے ۔ وہ جو ان افسران کو خوش کر دیتے ، اُنہیں این او سی جاری کر دیے جاتے جبکہ دوسرے اپنے پروگرامز چلانے کی اجازت کے لیے در بدر خوار ہوتے رہتے۔
این او سی جاری کرنے سے انکار نے مغربی عطیات فراہم کرنے والے اداروں کے پاکستان کے بارے میں تصور پر منفی اثرات مرتب کیے ۔ اُن میں سے اکثر اپنی اپنی حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ سرکاری سطح پر ترقیاتی امداد کی فراہمی کو پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کو این او سی جاری کرنے سے مشروط کر دیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت نے کچھ INGOs، جیسا کہ USAID یا جرمنی کی GIZ کو این او سی جاری کر دیے، اور ایسا غالباً مجبوراً کیا گیا ، لیکن دیگر INGOs کو یہ رعایت نہ دی گئی۔ وہ این او سی حاصل کرنے کے لیے منتیں کرتی رہیں لیکن بے سود۔ ان کی ایک نہ سنی گئی۔ تاہم کچھ نے بد دیانت افسران کی مٹھی گرم کرکے این او سی حاصل کر لیے ۔ این او سی حاصل کرنے کی ضرورت نے ترقیاتی شعبے کو بہت کمزورکر دیا ہے کیونکہ اس کے لیے کام کرنے والوں کو نہ صرف شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اس کے ذریعے افسران بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں بھی آ جاتے ہیں۔ 
وزیرِ داخلہ احسن اقبال اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس معاملے کو سمجھیںکہ اگرچہ سکیورٹی کے لیے ایسی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن یہ احساس بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ریاستی ادارے ہر شخص یا تنظیم کو مشکوک نظروں سے نہیں دیکھ سکتے ۔ ایک اور ایشو جو اسٹیبلشمنٹ کی فوری توجہ چاہتا ہے‘ وہ پاکستانی شہریوں کی بیویوں یا شوہروں کے لیے ''پاکستان اوریجن کارڈ‘‘ (پی او سی) کا اجرا ہے ۔ چونکہ رواں سال کے شروع میں ایسے تمام کارڈز منسوخ کر دیے گئے، اس لیے ایسے کارڈز کے حامل افراد اب کوئی شناخت نہیں رکھتے۔ افسران نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پرانے پی او سیز کی جگہ نئے کارڈز جاری کر دیں گے لیکن وزیر صاحب کے ذاتی وعدے کے باوجود یہ معاملہ ہنوز التوا کا شکار ہے۔ 23 اکتوبر کو وزیرِ داخلہ نے ٹویٹ پیغام میں کہا تھا۔۔۔ ''میں نے پاکستانی شہریوں کے رفیقِ حیات کے پی او سیز کو بحال کرنے کی منظوری دے دی ہے‘‘۔
عوام کو اس فراہمی کے باوجود پاکستانی شہریوں کے رفیق حیات اب بھی معاملات کی درستی میں حائل پیچیدگیوں، بیوروکریسی کی سستی اور نااہلیت کے باعث پریشانی کا شکار ہیں۔ ابھی تک نادرا کا سسٹم ان ''لا وارث‘‘ غیر ملکیوں کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ آن لائن اپنی رجسٹریشن کروا سکیں۔ بد قسمتی سے گورننس میں ہر درجے پر حکمتِ عملی طے کرنے اور درست وقت پر منصوبہ بندی کی نااہلی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فیصلے میں تقریباً بے شمار پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں، چنانچہ عوام کے لیے شکایات اور مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔
یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ پاکستان میں ابھی تک مسائل کا صحیح حل تلاش کرنے کی اہلیت موجود نہیں۔ دنیا مصنوعی ذہانت پیدا کرنے اور اسے گورنمنٹ اور امن و سلامتی کے لیے استعمال کرنے تک جا پہنچی ہے اور پاکستانی بیوروکریسی ایسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کے نتیجے میں وہ ملکی اور خارجی مسائل کو حل کرنے کے قابل نہیں رہی۔ ہم ایک ایسی بیوروکریسی کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں جس کے افسران اپنے وزرا اور سینئرز کی رائے کے بارے میں سب سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ ان کے احکامات کو منصفانہ انداز سے نمٹانے کی بجائے وہ سر تسلیم خم کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ اسلام آباد میں اہم سڑکوں کی بندش، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، اس کی ایک مثال ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اور غور و فکر کیے اہم انتظامی فیصلے کس طرح کیے جاتے ہیں۔
یہ صورتحال ان لوگوں کے لیے ہنگامی ہونی چاہیے جو پاکستان کو ماڈرن ٹائیگر بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے مفاد سوچنے والی ایک جیسی سیاسی اشرافیہ پر مبنی ہے‘ جن میں سیاست دان، بیوروکریٹس، ان کے کاروباری شریک اور اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں۔ یہ سب پاکستان کو 210 ملین مایوس افراد کا ملک بنا رہے ہیں جو دراصل کسی بچانے والے کی امید رکھتے ہیں۔ مگر بچانے کا وقت گزر چکا ہے۔ اب صرف سول ملٹری ایلیٹ کے تعاون سے ہی مسائل کے اس پہاڑ کا کچھ حل نکل سکتا ہے۔
پاکستان کا موجودہ حکومتی نظام ہزار خرابیوں کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ سست روی، رکاوٹوں اور غیر فعالیت کے کانٹے اس کے دامن گیر ہیں۔ اس میں اہم عہدے رکھنے والے افراد بلا سوچے سمجھے ان چیزوں کو معطل یا ختم کرنے یا اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ جو نام نہاد قومی مفاد کے لیے ان کو نقصان دہ دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم یہ اُس بیماری کی ان گنت علامتوں میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی شہرت ایک ایسے ملک کی ہو چکی ہے جو ہمہ وقت رد عمل دینے اور ماضی کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے کا رجحان رکھتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved