کشتی اگر بھنور میں جا پھنسے تو ملّاح پتوار نہیں ڈال دیاکرتے بلکہ اوربھی جم کر اور بھی ڈٹ کر چپّو چلاتے ہیں… اور فیصلے تو پروردگار ہی کو صادر کرنا ہیں ۔ کسی اور کونہیں ، ہر گز کسی اور کو نہیں۔کبھی نہیں ، قطعی نہیں ! تحریکِ انصاف کے کارکنوں پر برا وقت آن پڑا ہے ۔ لاہور میں علیم خاں اور رشید بھٹی جیت گئے۔ اس سے بڑ اسانحہ راولپنڈی میں رونما ہو سکتا ہے کہ صداقت عباسی مسلّط ہوں ۔ہر ملک اور معاشرے کا ایک مزاج ہوتا ہے ، جو صدیوں میں ڈھلتا ہے اور آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا۔ آپ تلقین کر سکتے ہیں یا خود اپنی مثال سے مدد کی کوشش۔ قوموں کی بلوغت بہر حال ایک ارتقائی اور تاریخی عمل میں ہوتی ہے ۔ لیڈر لوگ کم ہی ادراک رکھتے ہیں کہ خوشامدیوں کو اپنے گردجمع ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔ وہ ایک اَن دیکھا آہنی حصار لیڈر کے گرد قائم کر دیتے ہیں ۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت باقیوں کا تو ذکر ہی کیا، کسی نہ کسی درجے میں یہ حصار کپتان کے گرد بھی قائم ہو چکا ۔ اب تک وہ ایک طوفان بن چکا ہوتا ۔ کم از کم چالیس فیصد ووٹروں کی حمایت اسے حاصل ہو جاتی ۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو اس کا سبب یہی خوشامدی ہیں ، جو پر کو عقاب اور عقاب کو کوّے کا پر بنا سکتے ہیں ۔ معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز درویش سے کپتان کے بارے میں بات کی تو انہوںنے مجھ سے یہ کہا: دو مسائل ہیں ، اوّل یہ کہ اس کا ذہن سیاسی نہیں، ثانیاً اس کے مشیر ناقص ہیں ۔ پھر میں اسے ان کے پاس لے گیا۔ یہ 1996ء کی بات ہے ۔ شہاب الدین غوری کے مزار سے پرے ، کسی گائوں میں ہر سال کھلاڑیوں کا ایک میلہ منعقد ہو تاہے ، جس میں لگ بھگ ایک لاکھ افراد شریک ہوا کرتے ہیں ۔ اُس سال کپتان خصوصی مہمان تھا۔ مزارپہ فاتحہ خوانی کو رکے تو مجھے لگا کہ میری بات وہ توجہ سے نہیں سن رہا ؛چنانچہ یہ کہا: میں گوجر خان جا رہا ہوں ، تمہارے ڈرائیور کو ٹھکانہ دکھا دوں گا ۔ میلے سے لوٹ کر آجانا۔ بعض روّیوں میں بادشاہ سلامت نہیں ، وہ عام آدمی ہے ۔ حیران تو ہوا مگر مان گیا۔ یہ ایک ایسے تعلق کی ابتدا تھی جو بڑھتا اور پھلتا پھولتا رہا؛ اگرچہ کپتان کو اب تک اندازہ نہیں کہ یہ اس کے لیے قوت کا کتنا بڑا سرچشمہ تھا اور اب بھی ہے ۔ باقی رہنے والی ایک مضبوط بنیاد میسر آگئی کہ فقیر جب کسی کو قبول کر لیں تو کبھی مسترد نہیں کرتے ۔ کم ازکم پانچ لاکھ افراد کی مستقل حمایت ، جن میں ہزاروں کی تربیت ہو چکی ،جو خلقِ خدا کے بے لوث خادم ہیں اور جن کے ہر لفظ پر اعتما دکیا جاتا ہے ؛حالانکہ وہ ایک پارٹی کی طرح منظم نہیں کہ درویش کے مسلک میں گروہ بندی گنا ہ ہے لیکن اگر وہ یکسو ہو جائیں تو فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں ۔سب لوگ برابر نہیں ہوتے ، بخدا سب لوگ برابر نہیں ہوتے! ایک جملہ کپتان کا انعام تھا ، جو بار بار دہرایا گیا\\\"وہ میچ فکس نہیں کرتا \\\"اس سے زیادہ تحسین درویشوں کا طریق نہیں ۔ وہ مدد کر سکتے ہیں مگر فریق نہیں بنتے۔ سبھی کے لیے ان کے دروازے کھلے رہتے ہیں ۔ کپتان پر تو یہ چوپٹ کھلا تھا مگر افسوس کہ اس نے کم ہی ادھر کا رخ کیا ؛حالانکہ یہ مکمل طور پر بے ریا اور غیر مشروط تائید تھی جس کے عوض اسے کبھی کچھ نہ دینا تھا۔ کتنے ہی لوگ ، خوش کردار ، مضبوط اور مستحکم جو درویش کی وجہ سے اس کی پارٹی کاحصہ بنے اور اگر وہ سمجھ سکے تو آج بھی وہی لوگ اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔سچّے، کھرے اور بے لوث! دوسرا محاذ میڈیا تھا۔ دن رات اس کا مذاق اڑایا جاتا۔ میں نے اس کی تائید میں ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور خوب سوچ سمجھ کر۔ اس کی دیانت اور خلوص پر مجھے یقین تھااور اب بھی ہے ۔ اختلاف تو اندازِ فکر کے بعض پہلوئوں اور اندازِ کار سے ہے ۔ سروے ایک تماشا ہیں۔ کوئی امریکی امداد سے چلنے والاادارہ ، کوئی نواز شریف کے گھڑے کی مچھلی ۔ یہ دعویٰ مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے کہ قاف لیگ کی مقبولیت دوگنا اور پیپلز پارٹی کی 15، 20فیصد بڑھ گئی ۔ سامنے کی حقیقت مگر یہ ہے کہ نون لیگ نے پیش قدمی کی ہے اور تحریکِ انصاف کی حمایت میں کمی آئی ہے ؛اگرچہ ایک بڑا سبب پارٹی الیکشن تھا جو بہرحال ایک جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ اس اثنا میں وہ رنز نہ بنا رہا تھا ، فقط وکٹ پر کھڑ اتھا۔ نقصان کے دوسرے اسباب بھی ہیں ۔ خوشامد کے خوگر بہترین کو روکتے اور بدترین کو آگے بڑھاتے رہے ۔ نا اہل، جو ذہین اور کارگر لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں ۔ صداقت عباسی ان میں نمایاں ترین ہے ۔ اگر وہ موثر رہا تو تباہی لائے گا۔ادھر میڈیا کا بڑا حصہ شریف خاندان کی مٹھی میں ہے اور اسباب آشکار ہیں ۔ میرے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں : کپتان کو حکومت نہ ملی تو اس شخص کو صدمہ ہوگا۔ اس شخص پر افسوس ، اللہ کی بجائے جس کی امید کسی لیڈر سے وابستہ ہو ۔ مالک کا ہر فیصلہ دل و جان سے سر آنکھوں پر ! فرمان یہ ہے \\\"جو ہلاک ہوا ، وہ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو زندہ رہا ، وہ دلیل سے زندہ رہا \\\"فرمایا: کیا عجب کہ ایک چیز جس کو تم پسند نہیں کرتے اسی میں تمہاری بھلائی ہو اور کیا عجب جو چیز تم کو پسند ہے اسی میں تمہارے لیے شر و نقصان ہو بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے۔ پیپلز پارٹی فنا کے گھاٹ ہے ۔ دوسرے نواز شریف ہیں ۔ پانچ بار پنجاب اور دو بار مرکز میں ان کو ہم بھگت چکے ۔ زرداری عہد کے سوا وہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین ایام تھے ۔ دونوں بار شرح ترقی 4.1 فیصد اور خود شریف خاندان کا کاروبار 3600 فیصد بڑھ گیا۔ اب بھی یہی ہوگا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے کہا تھا: کوہِ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتاہے ، عادت نہیں بدلا کرتی۔ نواز شریف کو اقتدا رملا تو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں خلقِ خدا بلبلا اٹھے گی۔ رشید بھٹیوں ، علیم خانوں اور صداقت عباسیوںکو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ جدوجہد مگر ترک نہیں کی جا سکتی ۔کسی حال میں عمران خان پر زرداری اور نوازشریف کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ ایثار کیش کہاں؟ لٹیرے کہاں؟ آدمی کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ آزما یا جائے۔ یہ آزمائش کب ، کہاں اور کیسی ہوگی ، اللہ ہی جانتا ہے۔ اس کے ہر فیصلے میں ہزار حکمتیں پوشیدہ ۔ پنجابی محاورے کے مطابق : کچھ نہیں بگڑا، ابھی گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا۔پارٹی کارکن اہل ہیں کہ آخری اوورز میں میچ کا پانسا پلٹ دیں ۔ 23مارچ کو لاہور کے جلسۂ عام میں اگر تین لاکھ افراد جمع ہو گئے تو نواز شریف اورمالدار طبقات کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ایک بار پھر گزارش ہے کہ فقط سچائی نہیں بلکہ صبر بھی…اور حکمت صبر کا حصہ ہے ۔ مایوسی شیطان کا راستہ ہے اور مکمل تباہی کا راستہ۔ صبر، حکمت اور شائستگی کے ساتھ کارکن اگر ڈٹے رہے تو سارے علیم خاں ، سب رشید بھٹی اور تمام صداقت عباسی بے معنی ہو جائیں گے ۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا : ہر آدمی کی قدر و قیمت اس کے ہنر کے مطابق ہوتی ہے ۔ رہی کامیابی و ناکامی تو وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اپنے بندے کے حوالے اُس نے کبھی نہیں کی۔ راست گو بھی آزمائے جاتے ہیں بلکہ زیادہ ۔ آزمائش کوئی بری چیز ہوتی تو رحمتہ اللعالمین ؐتک کبھی نہ پہنچتی ، جن پر اللہ اور اس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں ۔ کشتی اگر بھنور میں جا پھنسے تو ملّاح پتوار نہیں ڈال دیاکرتے بلکہ اوربھی جم کر اور بھی ڈٹ کر چپّو چلاتے ہیں… اور فیصلے تو پروردگار ہی کو صادر کرنا ہیں ۔ کسی اور کونہیں ، ہر گز کسی اور کو نہیں۔ کبھی نہیں ، قطعی نہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved