تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     11-11-2017

ولا غالب الا اللہ

قرطبہ میں اموی خلافت کا خاتمہ 1031 ء میں ہوا۔ اس کے بعد قرطبہ میں مسلمانوں کی حکومت مزید 205 سال رہی ضرور مگر اتنی بکھری ہوئی اور کمزور کہ ان دو سو پانچ سالوں کے دوران نہ حکمرانوں کا ہی کوئی زیادہ تذکرہ ملتا ہے اور نہ ہی اس شہر کا کوئی اور قابل ذکر معاملہ۔ قرطبہ میں مسلمانوں کا مکمل اقتدار 1236 ء میں ختم ہوا اور اسی دوران 1230 ء غرناطہ پر بنو نصر حکمران بنے۔ بنونصر کا پہلا حکمران محمد اول یا محمد ابن نصر تھا۔ الحمرا غرناطہ میں دریا کے کنارے السبیقہ کی پہاڑی پر بنایا گیا۔ غرناطہ کا شہر تھوڑا نشیب میں ہے اور دفاعی اعتبار سے کمزور۔ اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے حکمرانوں نے اپنی رہائش کے لیے اس پہاڑی کا انتخاب کیا۔ الحمرا کے بنیادی طور پر تین حصے ہیں۔ جنت العریف‘ محل اور القصبہ۔ جنت العریف باغ اور فواروں پر مشتمل ہے جہاں ایک دو عمارتیں بھی ہیں۔ القصبہ دفاعی برج ہے جسے برج الغفر کہا جاتا ہے، اور فوجیوں کی بیرکوں پر مشتمل ہے، جو محل اور شہر کی حفاظت پر مامور تھے۔ اس کی اصل خوبصورتی اور وجۂ شہرت نصری محل ہے۔ یہی محل ہمارے ہاں الحمرا کہلاتا ہے حالانکہ الحمرا السبقیہ کی پہاڑی پر بنے اس سارے کمپلیکس کے گرد بنی سرخ رنگ کی فصیل کے باعث الحمرا ،یعنی سرخ کہلاتا ہے، جو دور سے نظر آتی ہے۔ ہم نے بھی اسے دور سے دیکھ لیا۔
دو جنوری 1492ء کو غرناطہ فتح ہوا اور اس محل میں اپنی شان و شوکت اور عیسائی فتح کی یادگار کے طور پر کارلوس پنجم نے بھی ایک محل بنوایا۔ نازک اور نفیس نصری محل کے پہلو میں ایک قلعہ نما بلند و بالا چوکور دیوہیکل عمارت جو اندر سے گول برآمدے پر مشتمل ہے۔ اتنی نفاست سے بنے ہوئے نصری محل کے ساتھ یہ بدہیئت عمارت اس سارے منظرنامے پر ایک بوجھ ہے۔ باریک اور نفیس ستونوں پر کھڑی ایک پرشکوہ عمارت کے ساتھ ہی جب تقابلی جائزے کے طور پر اس بے ہنگم عمارت کو دیکھیں تو ذوق جمال پر باقاعدہ گراں گزرتا ہے۔ یہ عمارت کارلوس پنجم نے اپنی رہائش گاہ کے طور پر تعمیر کروائی مگر رہائش رکھنا تو ایک طرف اس نے اسے مکمل بھی نہ کروایا اور یہ عمارت شاید ایک سو سال کے لگ بھگ عرصہ تک بغیر چھت کے رہی اور بعد میں اس پر چھت ڈلوائی گئی۔
889 ء میں بننے والے دفاعی حصار کو محل میں بدلنے کا کام بہت بعد میں شروع ہوا۔ الحمرا کی تعمیر 1337ء میں بطور محل ،یوسف اول نے کروائی۔ 1492 ء میں غرناطہ کی فتح کے بعدفر ڈیننڈا اور ازابیلا نے اس محل کو شاہی دربار اور عدالت بنا لیا۔ اسی محل میں فرڈیننڈ نے کرسٹوفر کولمبس کو اس کی بحری مہم کے لیے شاہی اجازت نامہ جاری کیا۔ میں قریب دس بارہ سال کے بعد دوبارہ غرناطہ آ رہا تھا۔ پہلے کی نسبت سڑکوں میں بڑی بہتری آ گئی تھی اور شہر میں داخلے کے لیے ایک دو جگہ پر موٹروے سے رابطہ دیا گیا تھا۔ بلکہ شہر کے گرد ایک سے زیادہ موٹروے گزر بھی رہی تھیں۔ جس طرح قرطبہ میں دیگر ساری تاریخی عمارتوں اور سیاحتی مقامات کو مسجد قرطبہ نے مغلوب کر دیا ہے اسی طرح الحمرا نے غرناطہ کی دیگر ساری تاریخی عمارتوں اور مقامات پر غلبہ پا لیا ہے۔ کسی سیاح کے لیے غرناطہ کا مطلب الحمرا ہے اور الحمرا کا مطلب پورے کا پورا غرناطہ ہے۔
الحمراء میں داخلہ بھی ایک دقت طلب معاملہ ہے۔ یوں نہیں کہ آپ غرناطہ آئے‘ ٹکٹ لی اور الحمراء میں داخل ہو گئے۔ الحمرا میں داخلے کے لیے سیاحوں کی ایک مخصوص تعداد متعین ہے۔ جو کسی صورت میں 8400 سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اگر اس متعین تعداد کی ٹکٹیں چار روز قبل بذریعہ انٹرنیٹ فروخت ہو گئیں تو آپ اگلے چار روز الحمراء میں داخل نہیں ہو سکتے۔ گیٹ پر ٹکٹ ملنا بھی بند ہو جاتی ہے۔ جب ہم نے الحمراء جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور ہمارے دوستوں نے نیٹ پر جا کر ٹکٹ بک کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ اگلے چار دن تک کوئی ٹکٹ نہیں ہاں البتہ آج شام پانچ بجے کے لیے محل میں داخلے کے لیے ٹکٹ مل سکتے ہیں۔ ہم نے فوری ہامی بھر لی اور گاڑی پر غرناطہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ہم ساڑھے چار بجے الحمرا کے دروازے پر تھے۔ وہاں ٹکٹ چیکر نے ہمارے ٹکٹ چیک کئے اور کہا کہ ہم نصری محل کے دروازے پر پانچ بجے تک پہنچ جائیں کہ دروازہ ہمارے لیے پانچ بجے کھولا جائے گا۔ ہم جنت العریف کے پاس سے گزرتے، سرووں کے سرسبز گلی میں سے گزرتے ،فصیل سے شہر پر نظر دوڑاتے آہستہ آہستہ نصری محل کی طرف چلتے گئے۔ راستے میں کارلوس پنجم کے محل پر نظر ڈالی اور جا کر قطار میں لگ گئے۔ ٹکٹوں کو متعین تعداد کے مطابق جاری کرنا اور پھر اس کے لیے نصری محل میں داخلے کے لیے وقت کا پابند کرنا دراصل صرف اس لیے ہے کہ بیک وقت ایک خاص تعداد سے زیادہ سیاح اس محل میں داخل نہ ہو سکیں اور نہ ہی اس محل میں بھیڑ ہو اور نہ ہی کوئی غدر مچے۔ ایک مناسب تعداد ہی ایک وقت میں اس محل میں موجود رہے۔
محل کا سب سے خوبصورت حصہ ''کورٹ آف لائنز‘‘ یعنی شیروں والا صحن ہے۔ اس مستطیل صحن کے عین درمیان ،ایک پلیٹ میں فوارہ ہے ،جو بارہ عدد شیروں کی کمر پر رکھی ہوئی ہے۔ ان بارہ شیروں کے منہ سے بھی پانی گرتا ہے صحن کے عین وسط میں کھڑے ان شیروں کی وجہ سے یہ شیروں والا صحن کہلاتا ہے۔ اسی صحن کے ایک طرف وہ کمرہ ہے جس میں ابو سراج کے قبیلے کے سرداروں کو الحمرا میں بلا کر قتل کرنا منسوب ہے۔ الحمرا کا تقریباً سارا حسن محل کے اسی حصے سے وابستہ ہے مگر ایک اور چیز جو آپ کو حیران کرتی ہے سارے محل میں ''ولا غالب الا اللہ‘‘ کی لکھائی ہے۔ رنگین ٹائلوں میں‘ پتھروں میں‘ سنگ مرمر میں کھدائی کر کے۔ چونے کے پتھر میں کھدا ہوا اور ابھرا ہوا۔ غرض ہر طرح سے اور ان گنت تعداد میں۔ لاکھوں کی تعداد یا شاید اس سے زیادہ۔ مگر گنتی ممکن نہیں۔ چھت پر‘ محرابوں پر‘ ستونوں پر‘ دیواروں پر اور دریچوں میں۔ سوائے فرش کے ہر جگہ۔
اسی محل سے متصل عمارت میں ابوعبداللہ کو اس کی ماں عائشہ نے فرار کروایا تھا اور اس نے ایک سال کے لیے اپنے باپ کو بھی غرناطہ سے بیدخل کر دیا تھا۔ ساتھ والی عمارت کی پہلی منزل پر وہ کمرہ بھی ہے جس میں بیٹھ کر واشنگٹن ارونگ نے Tales of Alhambra لکھیں۔ ان کہانیوں کے شائع ہونے کے بعد دنیا کو کھنڈر بنتے ہوئے اس محل کا احساس ہوا اور پھر یوں الحمرا ایک بار پھر لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بننے میں کامیاب ہوا۔ واشنگٹن ارونگ کا کمرہ ابھی بھی موجود ہے اور بند ہے۔ گزشتہ بار بھی میں نے الحمرا کی بے شمار تصاویر لیں اور اس بار بھی۔ لیکن دنیا کا کوئی کیمرہ نہیں جو اس خوبصورتی کو حقیقت میں منعکس کر سکے جو انسانی آنکھ دیکھ اور محسوس کر سکتی ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی آنکھ ہے جو محل کی ہر جگہ پر لکھے ہوئے ''ولا غالب الا اللہ‘‘ کو گن سکے۔
سورج ڈھلے ہم محل سے نکلے تو اسی راستے سے نکلے جہاں سے دو جنوری 1942ء کو ابوعبداللہ رخصت ہوا۔ جبل السبیقہ کے آخری سرے پر کھڑے ہو کر اس نے روتے ہوئے جب الحمرا پر آخری نظر دوڑائی تو اس کی ماں عائشہ نے اسے کہا کہ ''جس چیز کی تُو مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکا۔ اب اس پر عورتوں کی طرح کھڑے ہو کر رونا تجھے جچتا نہیں‘‘ گہری ہوتی شام میں جبل السبیقہ سے رخصت ہوتے ہوئے میرا دل بھی رونے کو چاہا مگر میں نے محل سے نظریں چرا کر گاڑی میں موجود دوستوں سے باتیں شروع کر دیں۔ ویسے بھی ابوعبداللہ کی ماں نے یہ طعنہ اپنے بیٹے کو نہیں، ہر اس شخص کو مارا تھا جس کا کردار ابوعبداللہ جیسا ہو۔
کیا وقت تھا جب بنونصر کے حکمرانوں نے ''ولا غالب الا اللہ‘‘ کو اپنا نعرہ بنایا اور اسے یاد رکھنے کے لیے محل کے کونے کونے میں لکھوا کر‘ کھدوا اور نیلی ٹائلوں میں نقش کروا کر آنے والی نسلوں کے لیے لائحہ عمل بنانے کی کوشش کی مگر یہی نعرہ ہمیں آخری نصری حاکم ابوعبداللہ کی بے عملی‘ بزدلی‘ بے حمیتی اور اللہ پر بھروسہ نہ کرنے پر طعنہ زن نظر آتا ہے۔ یہ ایک نعرہ ہماری بلندی اور پستی کی ساری کہانی بیان کرتا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved