تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     11-11-2017

مودی نے اب پکڑا صحیح راستہ

ورلڈ بینک نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت تیزی سے ابھر رہا ہے۔ یہ رپورٹ مودی کے لئے ایسی ہے‘ جیسے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے اس رپورٹ کے آنے پر جشن منایا۔ وہ رپورٹ کیا تھی؟ یہ تھی کہ تجارت کو آسان بنانے کے شعبے میں بھارت تیس سیڑھیاں کود کر 100ویں پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔ وزیر اعظم جشن منا رہے ہیں اور بھارت اب بھی دنیا کے 99 ملکوں کے مقابلے تجارت کی سہولیات دینے میں پھسڈی ہے۔ بھوٹان جیسا ملک بھارت سے پچیس پائیدان اونچا ہے۔ مودی سینہ ٹھونک ٹھونک کر چاہے اپنی اقتصادی پالیسیوں کے بارے میں اپنے منہ میاں مٹھو بنتے رہیں اور اپنے مخالفین بھوندو بابائوں کو لفظی پٹخنی مارتے رہیں‘ لیکن اصلیت کا نہیں پتا کہ کیا ہے۔ گجرات کے تاجروں اور پاٹیدار کسانوں نے ان کا دم پھلا دیا ہے۔ آج وہ جتنے جھکے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور معافی مانگنے والی پوزیشن اختیار کی ہوئی ہے‘ وہ تعجب خیز ہے۔ مودی کو ان کے ساتھی اور ان کو آگے بڑھانے والے بزرگ لیڈر انہیں ایک ضدی‘ مغرور اور چھوٹی نظر والا آدمی مانتے ہیں لیکن آج مودی نے ان کو جھٹلا دیا ہے۔ وہ جھکنے کو تیار ہیں۔ اپنی غلطیوں کو ماننے کو تیار ہیں۔ وہ انہیں سدھارنے کو تیار ہیں۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو مودی کی شان اندرا گاندھی اور وی پی سنگھ سے بھی اچھی بن سکتی ہے۔ اندرا جی نے ایمرجنسی کے سبب تکالیف اٹھائیں لیکن انہوں نے کبھی اپنی اس غلطی کو قبول نہیں کیا‘ اور وی پی سنگھ نے ریزرویشن تھونپنے کو آخر تک صحیح بتایا جبکہ مودی نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی پھٹی چادر میں لگ بھگ روز تھیگلے لگائے اور اتنا ہی نہیں‘ کل سرعام قبول کیا کہ جی ایس ٹی کی دسویں میٹنگ میں تاجروں کو زیادہ سے زیادہ راحت دی جائے گی۔ اس میٹنگ میں کانگریس کے وزرائے اعلیٰ بھی ہیں۔ مودی پوچھتے ہیں کہ سب کی صلاح سے فیصلے ہوتے ہیں تو اکیلے مودی پر چھپر کیوں رکھ رہے ہیں؟ اکیلی بھاجپا کو بدنام کیوں کر رہے ہیں؟ مودی کی یہ دلیل بالکل درست ہے لیکن صرف کچھ حد تک‘ کیونکہ آخری ذمہ داری تو ارون جیٹلی اور مودی کی ہی ہے‘ جنہوں نے آگا پیچھا سوچے بنا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی تھی۔ مخالفین اسے کنوئیں میں کودنے سے کیوں روکیں گے؟ اب نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کتنے ہی تکلیف دہ اقدام ثابت ہو رہے ہیں‘ انہیں واپس نہیں لیا جا سکتا‘ لیکن مودی نے جو راستہ پکڑا ہے‘ وہ صحیح ہے اور جمہوریت کے مطابق ہے۔
ٹرمپ کی پھسل پٹی پر نہ پھسلیں! 
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 12 دن کے دورہء ایشیا پر آ چکے ہیں۔ وہ جاپان‘ چین‘ جنوبی کوریا‘ ویت نام اور فلپائن کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ جاپان‘ بھارت‘ آسٹریلیا اور امریکہ کی ایک بیٹھک بھی کریں گے۔ اس دورے اور اس چوکھمبا بیٹھک کا ہدف کیا ہے؟ اس کا ہدف چین کو گھیرنا ہے اور شمالی کوریا پر لگام لگانا ہے۔ پینٹاگون نے تو یہ صلاح دی ہے کہ شمالی کوریا کا نوجوان حکمران کم جونگ اُن بے حد بے لگام ہے۔ وہ چین کے دبائو میں آ کر اپنے ایٹمی ہٹھیاروں کو ترک کرنے والا نہیں ہے۔ اس پر تو زمینی حملہ ضروری ہے۔ ٹرمپ کئی بار اسے سخت دھمکیاں دے چکے ہیں لیکن کم نہلے پر دہلا مارتا ہے۔ وہ ٹرمپ کو پاگل تک بول چکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے پاس ایسے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ سمندری علاقوں میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کو وہ موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ مجھے حیرانی اس بات کی ہے کہ اس چھوٹے سے ملک سے روز سیاسی کشتی لڑ کر امریکہ اپنی عزت کیوں خراب کر رہا ہے؟ کیا امریکہ کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں‘ جو کم جونگ کو سمجھا سکیں؟
اگر ٹرمپ اس مغالطے میں ہیں کہ کم پر چینی دبائو ڈلوا کر اسے بس میں کر لیں گے تو وہ پچھتائیں گے۔ ٹرمپ چوکھمبا بیٹھک بھی اس لیے کر رہے ہیں کہ ایشیا میں ایک چین مخالف اتحاد کھڑا ہو جائے۔ اگر نریندر مودی ٹرمپ کی اس پھسل پٹی پر پھسل گئے تو بھارت امریکہ کا مہرہ بنے بنا نہیں رہ پائے گا۔ ٹرمپ کم عقل انسان ہے۔ وہ کب کیا کر بیٹھے‘ کچھ پتا نہیں۔ بہتر ہو گا کہ بھارت چین مخالف مشن میں شامل ہونے کی بجائے پورے ایشیا کو جوڑنے کے لیے اپنا بنایا مشن ہی چلائے۔ چینی کوریڈور کے مقابلے میں وہ بھارتی کوریڈور کی بات کرے‘ جو ویت نام سے ترکی تک پھیلا ہو۔ امریکہ اور جاپان اس میں پیسہ لگائیں اور بھارتی انجینئر اور مزدور لوگ اسے اگلے پانچ برس میں بنا کر کھڑا کر دیں۔ امریکہ اگر چاہے تو پورے جنوبی ایشیا کے ممالک کو زمینی راستے سے جوڑ سکتا ہے۔ جتنا پیسہ امریکہ نے گزشتہ پندرہ برس میں افغانستان میں برباد کیا‘ اتنا وہ اگر ان کاموں میں لگاتا تو جنوبی ایشیا کی صورت آج کچھ اور ہوتی۔
اپنی دیوی پر کون ہاتھ ڈالے گا؟
برمودہ سے نکلا 'پیراڈائیز‘ اب پاناما پیپرز سے بھی زیادہ دھوم مچا رہا ہے۔ ان پیپروں سے پتا چلتا ہے کہ بھارت کے کئی وزرائے اعلیٰ‘ پارلیمنٹ ممبرز‘ ڈاکٹروں‘ فلمی ستاروں‘ نوکر شاہوں اور تاجروں نے اپنا کالا دھن وہاں چھپا رکھا تھا۔ ان کی صحبت وہاں معمولی لوگوں سے نہیں تھی۔ برطانیہ کی مہارانی الزبتھ‘ روسی صدر پیوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے رشتہ داروں‘ کینیڈا وغیرہ جیسے کئی ملکوں کے بڑے نامی گرامی لوگوں کی صحبت سے ہماری یہ شخصیات واقف ہیں۔ ان کے نام جونہی 'انڈین ایکسپریس‘ نے ظاہر کیے‘ ہماری سرکار نے زبردست مستعدی دکھائی۔ کچھ ہی گھنٹوں میں 'پیراڈائیز پیپرز‘ کی جانچ کا اعلان کر دیا۔ 714 نام اس میں بھارتیوں کے ہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ جن لوگوں یا کمپنیوں کے نام ظاہر ہوئے ہیں‘ انہیں بالکل ہی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے کئی سبب ہیں۔ پہلا‘ بدنام ہو گا تو کیا نام نہیں ہو گا؟ اس بھانڈا پھوڑی کے سبب کئی لا علم شیل کمپنیوں اور آدمیوں کے نام ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں چمک رہے ہیں۔ دوسرا‘ ان کھاتوں کے بھانڈا پھوڑی کرنے والے صحافیوں نے خود ہی کہا کہ ہر کھاتہ دار کو ہم مجرم نہیں مانتے ہیں‘ یعنی کچھ کھاتے دار قانون کی خلاف ورزی نہیں بھی کرتے ہوں گے۔ تیسرا‘ ان کھاتوں کی جانچ کرنے والے کون ہیں؟ جو جرم کرنے والے ہیں‘ وہی جانچ کرنے والے ہیں۔ ان کھاتوں میں جو کالا یا سفید دھن چھپا کر رکھا جاتا ہے‘ وہ کس کے کام آتا ہے؟ اسی دھن سے لیڈروں کی دکانیں چلتی ہیں‘ چنائو لڑے جاتے ہیں‘ رشوتیں کھلائی جاتی ہیں‘ خفیہ جرم کروائے جاتے ہیں۔ یہ دھن ہماری سیاست کی دیوی ہے۔ بھلا‘ یہ لیڈر اپنی دیوی پر ہاتھ کیسے ڈالیں گے؟ کانگریسی لیڈر کہہ رہے ہیں کہ بھاجپا کے جن لیڈروں اور ان کے رشتے داروں کے نام 'پیراڈائیز پیپرز‘ میں آ رہے ہیں‘ وہ مستعفی ہوں۔ کیا خوب؟ لیکن جن کانگریسیوں کے نام اس میں ہیں۔ وہ کیا کریں؟ کیا وہ زہر کھا لیں‘ خود کشی کر لیں۔ کوئی کچھ نہیں کرنے والا اور نہ ہی کچھ ہونے والا ہے۔ سب چور موسیرے بھائی ہیں۔ مودی جی کی سرکار کو ساڑھے تین برس ہو گئے۔ وہ بدعنوانی کے خلاف بنی تھی۔ کیا اس نے ایک بھی بدعنوان کو ابھی تک لٹکایا؟ تو اب وہ ڈیڑھ برس میں کون سا برگد اکھاڑ لے گی؟ سال بھر اُٹھک بیٹھک لگائی اور اس نے پاناما پیپرز میں صرف 792 کروڑ کا کالا دھن اندازاً پکڑا‘ جبکہ چنائو مشن کے دوران دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ کم از کم چار لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن بیرونی ملکوں میں جمع ہے۔ کالا دھن تو جہاں کا تہاں ہے۔ سفید دھن اور سفید زندگی والے لوگ فضول مارے گئے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved