تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-11-2017

گوئبلز اور سشما سوراج

آسٹریلوی وزیر خارجہ جولی بشپ نے اپنے دو روزہ دورہ بھارت کے دوران جہاں بھارت کی اعلیٰ قیا دت سے ملاقاتیں کیں وہیں نئی دہلی میں ہونے والے ایک سیمینار میں مقررین کی جانب سے جب چین کی جانب سے سمندری رستوںپر بنائے گئے ''مصنوعی پتھریلے ساحلوں‘‘ کو روکنے کی باتیں کی جا رہی تھیں تو بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے‘ جولی بشپ نے طاقت کے استعمال کی بجائے اقوام متحدہ سے رجوع کرنے پر زور دیا ۔ اس حوالے سے مسز جولی بشپ نے اپنے خطاب کے دوران انگریزی زبان کے لفظFALTER پر زور دیتے ہوئے ہال میں موجو د سامعین سے کہا کہ آسٹریلوی حکومت اس موضوع پر آپ سے اس شرط پر متفق ہو گی کہ ہمارے کسی اقدام سے چین کی اکا نومی کو FALTER نہ کیا جا سکے‘‘۔ لیکن بھارتی میڈیا کی جرأت اور اخلاقی گراوٹ دیکھئے کہ جیسے ہی جولی بشپ اپنا دورئہ بھارت مکمل کرنے کے بعد اگلے مرحلے کیلئے بیس جولائی کو سری لنکا پہنچی تو بھارت میں اس کا ہائی کمیشن اور آسٹریلیا کی وزارت خارجہ اس وقت سر پیٹ کر رہ گئی جب بھارت کی آکاش وانیوں نے'' جولی بشپ‘‘ کے اٹھارہ اور انیس جولائی کے دو روزہ دورہ بھارت کے حوالے سے ان سے منسوب کرتے ہوئے یہ تاثر پھیلانا شروع کر دیا کہ آسٹریلیا نےDOKLAM پر چینی جارحیت کی سخت مذمت کی ہے ۔ اس قسم کے سفید جھوٹ سنتے ہوئے آسٹریلوی حکومت پائوں تک کانپ اٹھی، جولی بشپ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ بھارتی اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سفارتی اور اخلاقی تمام حدود کو پار کر سکتے ہیں ؟۔ 
اپنے دو روزہ دو رہ بھارت کے دوران جولی بشپ نے وزیر اعظم نریندر مودی، خزانہ اور دفاع کے وزیر ارون جیٹلی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی۔ بھارتی حکومت کیلئے یہ دورہ اس لئے بھی اہم تھا کہ تین ماہ قبل ہی چودہ اپریل کو آسٹریلیا کے وزیر اعظم TURNBULL بھارت کا دورہ کرچکے تھے اور جولی بشپ کا یہ دورہ اس دورے کا فا لو اپ تھا۔ بھارتی قیا دت نے دو طرفہ بات چیت کے دوران حال ہی میں بھوٹان، بھارت اور چین سے متصل DOKLAM کے سرحدی رستے پر بھارت کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں اور اس سے پیدا ہونے والی کشیدگی پر اپنے نقطہ نظر سے آ گاہ کرتے ہوئے چین کی جانب سے کی جانے والی سرحدی خلاف ورزیوں بارے آگاہ کرتے ہوئے بھارت کی امن پسندی کا ڈھنڈورا پیٹا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنی حکومت کے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے چین کی بھارت کی حدود میں فوجی دخل اندازی پر آسٹریلوی حکومت کو بھارت اوربھوٹان کیلئے عالمی سطح پر مدد اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کیلئے کہا۔جس پر جولی بشپ نے فوری طور پر کوئی رائے دینے کی بجائے اپنی حکومت سے مشورہ کرنے کے بعد اس پر پیش رفت کا وعدہ کیا۔
دو روزہ دورہ بھارت مکمل کرنے کے بعد آسٹریلوی وزیر خارجہ جولی بشپ جیسے ہی اگلے مرحلے کیلئے سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو پہنچیں تو بھارت نے اس وعدے کو اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد کا روپ دیتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ اور اپنے میڈیاکے ذریعے یہ بھر پور تاثر پھیلا دیا کہ آسٹریلوی حکومت نے DOKLAM کے تنازع پر چینی حکومت کی جانب سے فوجی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے بھوٹان اور بھارت کی ہر بین الاقوامی فورم پر مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔۔۔جیسے ہی بھارت کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے داغے جانے والے اس جھوٹ کا آسٹریلوی حکومت کو پتہ چلا تو وہ سٹپٹا کر رہ گئے اور ان کی وزارت خارجہ نے اس غیر سفارتی اور انتہائی نا معقول حرکت پر بھارتی حکومت سے سخت احتجاج کرتے ہوئے فوری طور پراس کی تردید جاری کرنے کا کہا ۔
جولی بشپ کے دورئہ بھارت کے دوران ان کے ہمراہ آئی ہوئی ٹیم اور میڈیا کی ٹیم بھی جولی بشپ کا نام استعمال کرتے ہوئے چین کے خلاف کئے جانے والے بھارتی پروپیگنڈے کو سن کو حیران رہ گئی کیونکہ سب گواہ تھے کہ جب جولی بشپ سے چین اور بھارت کی ان سرحدی جھڑپوں بارے سوال کیا جاتا تو وہ اس کا بھارت کی خواہش کے مطا بق جواب دینے کی بجائے انہیں بڑے ڈپلومیٹک طریقے سے ٹالتی رہیں۔ دو چار مرتبہ تو ایسا ہوا کہ بھارت کے سینئر صحافیوں نے کریدکرید کر ان سے اپنے مطلب کا جواب نکلوانے کی سر توڑ کوششیں کیں لیکن وہ ہر بار طرح دے گئیں۔
DOKLAM تنازع پر اپنے موقف کی تائید کیلئے آسٹریلیا کی وزیر خارجہ جولی بشپ کی تھپکی لینے میں بھارت کی مسلسل ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت آسٹریلیا میں حصول علم کیلئے آئے ہوئے چینی طالب علموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جن کی وجہ سے آسٹریلوی حکومت کو بھاری زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلوی حکومت سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اس وقت چین اس کا سب سے بڑا تجارتی حصہ دار ہے اس لئے جولی بشپ نئی دہلی میں بیٹھ کر مودی اور سشما سوراج کو خو ش کرنے کیلئے کس طرح DOKLAM کے مسئلہ پر چین کی مذمت کرسکتی تھی ؟۔لیکن کیا کیا جائے کہ گوئبلز کی دن بدن پنپنے والی آخری نسل بھارت سرکار کے اندر تک اس طرح رچ بس چکی ہے کہ اسے سچ اور جھوٹ کی تمیز ہی نہیں رہی۔ یہ جانتے ہوئے بھی اس کی ''آکاش وانیوں‘‘ پر بیرونی دنیا تو دور کی بات ہے اب ان کا اپنا بھی کوئی اعتماد نہیں کررہا۔
بھارت کے آزاد میڈیا کا دعویٰ ہے کہ جولی بشپ نے DONGLANG سیکٹر پر چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی پر اپنی اور حکومت کی تشویش سے دونوں حکومتوں کو آگاہ کرتے ہوئے یہ پیغام ضروردیا تھا کہ دونوں ممالک آپس میں مل بیٹھ کر اس کا کوئی پر امن حل نکالنے کی کوشش کریں۔ ہندوستان ٹائمز لکھتا ہے کہ اپنی پریس بریفنگ میں جولی بشپ نے کہا کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ یہ '' ڈونگلانگ‘‘ تنازع کوئی آج کا نہیں ہے جو اچانک سراٹھا کر سامنے آ گیا ہے بلکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے لیکن چاہے ڈوگلام ہو یا سائوتھ چائنا سمندری حدود کا تنازعہ‘ یہ سب اقوام متحدہ کے قوانین کے مطا بق پر امن طریقے سے حل ہونے چاہئیں( کاش یہی فارمولااقوام متحدہ کشمیر اور سیا چن کے بارے میں بھی اپنا ئے)۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی یا قصہ کہانی کی بات نہیں کہ آسٹریلوی وزیر خارجہ جولی بشپ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنے کیلئے 18جولائی کو ان کے دفتر پہنچیں تو وزیر اعظم سمیت وہاں آیا ہوا میڈیا یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آسٹریلوی وزیر خارجہ نے فارمل ڈریس پہننے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ بھارت نے حال ہی میں '' مالا بار نیول مشقوں‘‘ میں آسٹریلیا کی جانب سے اس میں شمولیت کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا؟۔ اس پر میڈیا نے آپس میں چہ میگوئیاں کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کہیں یہ آسٹریلوی حکومت کی جناب سے احتجاج تو نہیں؟۔ مالابار نیول مشقوں سے بھارت کے انکار پر آسٹریلین ناراض تو نہیں جس پر جولی نے بڑے ڈپلومیٹک طریقے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ '' کسی بھی قسم کی مشقوں میں کسی کو شامل کرنے یا نہ کرنے کا حق اس ملک کو ہوتا ہے اور بھارت جیسے جمہوری اور آزاد ملک کا یہ حق ہے کہ وہ جو منا سب سمجھے فیصلہ کرے...!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved