نفسی امور اور ذہنی صلاحیتوں کے حوالے سے دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق کا محور یہ نکتہ ہے کہ انسان کی عزتِ نفس کا گراف کسی صورت گرنا نہیں چاہیے۔ اگر انسان اپنی نظر میں گرا تو پھر کوئی بھی اُسے اٹھا نہیں سکتا۔ کوئی کوئی ہوتا ہے جو اپنی ہی نظر میں گرنے کے بعد بھی اٹھ بیٹھے اور کچھ کر دکھائے۔ عام مشاہدے کی بات یہ ہے کہ عزتِ نفس ہاتھ سے گئی تو سمجھ لیجیے ایک دنیا یوں گئی کہ اب ہاتھ نہیں آنے کی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انکسار اچھا وصف ہے۔ انسان کو نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ کوئی غلطی سرزد ہو تو معذرت خواہی میں دیر نہیں کرنی چاہیے مگر ہر معاملے میں نرمی، انکسار اور عِجز کا مظاہرہ کرتے رہنے سے معاملات صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ نفسی امور اور شخصی ارتقاء کے حوالے سے دادِ تحقیق دینے والوں کا کہنا ہے کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے انسان کو ہر معاملے میں دب کر نہیں رہنا چاہیے بلکہ جہاں لازم ہو وہاں قدرے پُراعتماد انداز سے، خُم ٹھونک کر سامنے آنا لازم ہے تاکہ کسی کو یہ احتمال نہ رہے کہ آپ صرف اور صرف عِجز کے بندے ہیں۔
عمرانی و نفسی علوم سے متعلق جدید تحقیق بتاتی ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے انسان میں ایک خاص حد تک arrogance کا ہونا لازم ہے یعنی دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ میں اکڑفوں بھی ہے اور یہ کہ آپ اُسے بروئے کار لانے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ بالکل نرم طبیعت کے میٹھے انسان کو لوگ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اور اگر آپ میں صرف اور صرف تلخی ہو تو لوگ اگل دیں گے۔ گویا طبیعت میں تلخی و شیرینی کا حقیقی توازن درکار ہے۔
مختلف طبقات، شعبوں اور عمر کے مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والوں پر کی جانے والی تحقیق کو بنیاد بناکر کہا جارہا ہے کہ غیر ضروری نرمی دکھانے سے انسان کی قوتِ ارادی پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو لوگ بیشتر معاملات میں اپنے آپ کو غلط سمجھتے ہوئے فوری طور پر معذرت چاہتے ہیں وہ دوسروں کے لیے الجھنوں اور مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ جو اپنی غلطی تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگاتے وہ دوسروں سے بھی ایسی ہی طرزِ فکر و عمل کی توقع رکھتے ہیں۔ گھر ہو یا دفتر یا پھر حلقۂ یاراں، اپنی غلطی تسلیم کرنے میں دیر نہ لگانے والے دوسروں سے بھی فوری پسپائی کی امید باندھ بیٹھتے ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ دنیا تو بہت ٹیڑھی واقع ہوئی ہے۔ وہ تو دن کی روشنی میں بھی سُورج کو سیاہ کہنے پر بضد رہتی ہے! کسی پر اُس کی کوتاہی یا غلطی واضح کرنا اور پھر اُسے غلطی کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ہے۔ ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ کچھ اور ہے اور دنیا جس انداز سے واقع ہوئی ہے وہ کچھ اور معاملہ ہے۔ یہ تو بُعد المشرقین والمغربین والا کیس ہے۔
شخصی ارتقاء کی راہ سُجھانے والے خاصے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں۔ دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر لکھی جانے والی کتابوں میں اتنا کچھ ہوتا ہے کہ انسان ڈھنگ سے پڑھے، جذب کرے اور جو کچھ جذب کرے اُس پر عمل پیرا ہو تو زندگی کا رُخ ہی تبدیل ہوجائے۔ کامیابی کی راہ پر سفر روانی سے جاری رکھنے کے لیے سختی اور نرمی دونوں ہی لازم ہیں اور اِن میں مثالی توازن بھی ایک بنیادی شرط ہے۔ جن میں اوصافِ حمیدہ کی کمی ہوتی ہے وہ بیشتر معاملات میں دوسروں سے الجھنے کو کامیابی کی طرف لے جانے والے راستے کا سفر گردانتے ہیں۔ اکڑ اُن میں زیادہ ہوتی ہے جن میں صلاحیت اور سکت دونوں ہی کی قِلّت پائی جاتی ہے۔ میر انیسؔ نے خوب کہا ہے ؎
بداصل تکبّر کے سخن کہتے ہیں اکثر
جو صاحبِ جوہر ہیں جُھکتے رہتے ہیں اکثر
ملتا اُسی کو ہے جو یا تو دیتا ہے یا پھر نرمی اختیار کرتا ہے۔ جس میں تواضع ہوتی ہے وہ دوسروں کے جذبات کا زیادہ سے زیادہ احساس کرتے ہوئے ہر اُس کام سے گریز کرتا ہے جس سے کسی کی دل آزاری کا احتمال ہو۔ یہی احساس انسان کو بیشتر معاملات میں نرمی اختیار کرنے اور غلطی پر نہ ہوتے ہوئے بھی معذرت چاہنے کی راہ دکھاتا ہے۔
زندگی کا کاروبار نرمی، اخلاص، تواضع، انکسار، عِجزاور احساس سے چلتا ہے۔ انسان تو وہی ہے جو اپنے درد کے ساتھ ساتھ اوروں کا درد بھی یاد رکھے، بلکہ کبھی کبھی اپنے دکھ بھول کر اوروں کی پریشانی پر متوجہ ہو اور اُس کے تدارک کی سبیل کرے۔ امتیازی حیثیت کے انسان وہی ہیں جن میں اوروں کے لیے خلوص اور ہمدردی دیکھ کر لوگ کہہ اٹھیں ع
سارے جہاں کا درد ''اِنہی کے‘‘ جگر میں ہے!
اِس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دوسروں کے لیے جینے والوں کو بسا اوقات شدید الجھنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر خیر، اِن الجھنوں سے گھبراکر کوئی دوسروں کے لیے جینا چھوڑ تو نہیں دیتا۔ اور چھوڑنا چاہیے بھی نہیں۔ ہاں، معاملات کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتے رہنا لازم ہے۔
بہتر زندگی کے لیے بھرپور عزتِ نفس اور غیر معمولی قوتِ ارادی درکار ہوا کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ نفسی اور عمرانی امور کے ماہرین اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ اپنے وجود کو کسی صورت نظر انداز نہ کیا جائے، بالائے طاق نہ رکھا جائے۔ اور یوں دوسروں سے خود کو ممتاز اور بلند رکھنے کے لیے قابل قبول حد تک ''رعونت‘‘ اپنانے کی بھی تاکید کی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ اِس پیغام کو غلط لیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے ایک خاص حد تک اکڑ لازم ہے۔ ٹھیک ہے مگر انسان میں حقیقی اور کارگر اکڑ اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ چند ایک بڑی خوبیوں، صلاحیتوں اور سکت سے متصف ہو۔ کھوکھلی انا اور جھوٹی اکڑ صرف نقصان دیتی ہے۔ علم اور خوبیوں کے بغیر بحث انسان کو بے وقار کرکے دم لیتی ہے۔ اور جن میں علم ہوتا ہے وہ بحث میںالجھتے کب ہیں! ع
خالی برتن ہی کھنکتا ہے بہت، یاد رہے
علم رکھتے ہو تو پھر بحث میں الجھا نہ کرو!
زندگی میں دلچسپی برقرار رکھنے اور مورال کا گراف بلند تر رکھنے کی خاطر جہاں اور بہت کچھ لازم ہے وہاں اپنے وجود کو عمومی سطح سے تھوڑا بہت بلند رکھنے کی بھی بہت اہمیت ہے مگر اِس عمل میں غیر ضروری اکڑ اور بددماغی کی زیادہ گنجائش نہیں۔ کامیاب زندگی کے لیے مردم بیزاری ہر حال میں لازم نہیں۔
معاشرے کی عمومی نفسی ساخت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ ہر اُس انسان کو بڑا سمجھ لیا جاتا ہے جو قدرے اکڑ کر، بے دماغی کے ساتھ بات کرے۔ بات بات پر دوسروں کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنانے والے ذہین سمجھے جانے لگے ہیں۔ جُھک کر بات کرنے کو کمزوری، پژمردگی اور گِرے ہوئے مورال کی نشانی سمجھ لیا گیا ہے۔ نرمی کی راہ پر گامزن رہنے والوں کو بے وقعت گرداننے کی روش عام ہے۔ اِس روش کو ترک کیے بغیر بہتری کا راستہ نہیں مل سکے گا۔ جو در حقیقت صاحبانِ جوہر ہیں اُن کا جُھک کر ملنا فطری امر ہے۔ یہی کامیابی کا اصل روڈ میپ ہے۔ ع
جُھکنے والوں نے رفعتیں پائیں