اسلام آباد آج کل پھر دو محاصروں میں ہے۔
ایک محاصرہ ایک مذہبی گروپ کے کارکنوں کا ہے جس کی وجہ سے روڈز بند ہیں۔ شہرمیدان جنگ کا منظر پیش کررہا ہے ۔ ہر طرف کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں۔ شہری خوار ہو رہے ہیں۔ ٹریفک کی وہ حالت ہے کہ اسلام آباد کے شہری، جوجھگڑالو نہ تھے، ایک دوسرے سے دست و گریبان نظرآتے ہیں۔
یہی صورت حال کبھی کراچی میں تھی‘ جہاں لوگ مسائل کے ہاتھوں تنگ‘ تشدد پر اتر آئے تھے۔ ویسی ہی صورتحال اب اسلام آباد میں پیدا ہورہی ہے۔ سڑکیں مذہبی گروپس نے اپنے قبضے میں لے لی ہیں ۔ کوئی وہاں سے نہیں گزر سکتا۔ جو گزرے گا تلاشی دے گا یا ڈنڈے کھائے گا۔ وزیرداخلہ احسن اقبال نے پہلے پورے شہر کو کنٹینرز سے بند کیا اور پھر فلائٹ لے کر قطر پہنچ گئے‘ جہاں انہوںنے سکیورٹی کی کانفرنس میں عربوں کو ایک لیکچر دینا تھا۔ مذاق کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
دوسرا محاصرہ زیادہ خطرناک ہے اور شہر کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ یہ ہے گندگی اور نالائقی کا محاصرہ۔ ہر طرف آپ کو گندگی کے ڈھیر نظر آئیں گے ، بدترین حالت میں گرین بیلٹس اور بے تحاشاتعفن۔ مارکیٹ اور بازار گند گی سے بھرے ہوئے ہیں۔ اگر یہ بھی اسلام آباد کو برباد کرنے کے لیے کم تھا تو سی ڈی اے کے میئر نے ایک سڑک چوڑی کرنے کے نام پر درختوں کا قتل عام شروع کردیا ہے۔ سی ڈی اے کے ایک افسر نے بیس لاکھ روپے میں پارک کے درخت بیچ دیے۔ گویا یہ شہر لاوارث اور یتیم ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسلام آباد کی یہ حالت کیسے ہوئی؟ یہ چند برسوں میں کیسے برباد ہونا شروع ہوا ؟ اس کی خوبصورتی کس نے قتل کی؟
وہ لوگ جنہوں نے پی ٹی وی کے دور سے اسلام آباد کی فیصل مسجد، شکرپڑیاں اور مارگلہ کی پہاڑیاں دیکھ کر اس کا رخ کیا ، ان سے عرض ہے کہ آپ کے گائوں اور علاقے اس شہر اقتدار سے بہتر ہیں۔ اب یہ وہ شہر نہیں رہا جو آپ کو تصویروں میں نظر آتا تھا۔ یہ شہر اب مررہا ہے۔ دھیرے دھیرے دم توڑ رہا ہے۔
ایک دوست سے ملنے ایف الیون ٹو گیا۔ پارک کے قریب سے گزرا تو محسوس ہوا کہ دنیا کے کسی غلیظ ترین علاقے میں آگیا ہوں۔ بچوں کے پارک میں گدھوں، گھوڑوں اور کتوں کا راج تھااور غالباًشہر بھر کا کوڑا کرکٹ یہیں ڈمپ کیا گیا تھا ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جب چند سیاسی خاندانوں نے بیرون ملک جائیداد بنانے اور بچے سیٹل کرنے بعد سوچ لیا ہے کہ وہ اس ملک میں نئی قیادت نہیں ابھرنے دیں گے تو پھر کیا ضرورت تھی بلدیاتی انتخابات کرانے کی؟ الیکشن کرائے دو برس گزر گئے لیکن مجال ہے، کہیں بلدیاتی اداروں کی کارگردگی نظر آئے۔ اسلام آباد میں بھی گونگی بہری ڈسٹرکٹ اسمبلی ہے۔ قومی اسمبلی یا سینیٹ تو لگتا ہے اس شہر میں موجود ہی نہیں کہ وہاں کبھی اس شہر کی بربادی کا نوحہ نہیں سنا گیا۔
دو سال کسی بھی شہر کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ہمیں سمجھایا گیا تھا کہ بلدیاتی ادارے ہی دنیا بھر میں بنیادی ترقی کے ذمہ دارہوتے ہیں۔ دانیال عزیز نے کئی برس ہمیں لیکچر پلائے اور آخر وزارت لے کر سائیڈ پر ہوگئے۔ ان کے منہ سے کبھی نہ سنا کہ بلدیاتی اداروں کو کس طرح بلڈوز کیا گیا۔ ہر شہر میں ایسے نالائق میئر لگائے گئے کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اکثر میئرز کی ایک ہی قابلیت تھی کہ وہ ٹھیکیدار تھے‘ اور شاہی خاندان کی ضروریات پوری کرنے میں مشغول۔ اسلام آباد کا میئر سی ڈی اے کے ٹھیکیدار شیخ انصر کو بنایا گیا۔ وہ شہر میں ہر وقت نواز شریف زندہ باد کے پوسٹر لگاتے نظرآتے ہیں یا پھر ہر پیشی پر مریم نواز اور نواز شریف کے پیچھے تصویر بنوانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔موصوف کی قابلیت یہ تھی انہوں نے شاہی خاندان کو ایف الیون اور مری میں گھر بنا کر دیے۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر کے میئر کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس پارکنگ کے ٹھیکے ہوا کرتے تھے۔ اس پر مجھے اپنے دوست سعید قاضی یاد آتے ہیں جو اسے ''ٹھیکیدار فرینڈلی ‘‘جمہوریت کہتے تھے۔
سنتے اورحیران ہوتے تھے کہ انسانوں کے ہوتے ہوئے شہر کیونکر اجڑ جاتے ہوں گے۔ کراچی شہر کی بربادی اور گندگی کا سنتے تھے تو بھی یقین نہیں آتا تھا۔ بھلا ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے ہوتے ہوئے شہر کیسے برباد ہوسکتا ہے؟ ایک دن عامر متین کے ساتھ ایک شادی میں شرکت کے لیے کراچی گیا تو صدمے کی سی کیفیت طاری ہوگئی، اتنی گندگی... ! دل بھرآیا کہ پہلے کراچی میں تشدد سے پندرہ ہزار انسان دس برسوں میں مار دیے گئے تو اب گندگی کے ہاتھوں ہزاروں مریں گے۔ بھاری دل کے ساتھ وہاں سے لوٹا۔ انہی سیاسی لوگوں نے کراچی کا پیسہ لوٹا۔ ایک پارٹی کے رہنماؤں نے کراچی کے پیسے سے دوبئی میں جا کر جائیدادیں بنا لیں تو دوسری پارٹی پیسہ لوٹ کر لندن اپنے گرو کو بھیجتی رہی۔ کراچی اجڑتا رہا۔ ملتان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، شہباز شریف نے ایسا میئر چن کر ملتان کو دیا ہے کہ شہرایک دفعہ پھر ہزاروں سال پرانی تہذیب کا نمونہ بن گیا ہے۔
اسلام آباد کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے حاکم اس شہر کے باسی نہیں۔ وہ صرف اس شہر پر حکمرانی کرنے آتے اور اسے پہلے سے بدتر حالت میں چھوڑ جاتے ہیں۔ انہیں پتہ ہوتا ہے وہ اس شہر میں چند برس کے لیے آئے ہیں، اس لیے وہ اس شہر کو اپنا شہر نہیں سمجھتے‘ اور یوں یہ شہر دھیرے دھیرے اپنی سب خوبصورتی کھو رہا ہے۔ یہ شہروں ندی نالوں کا شہر تھا جو اب کوڑے کرکٹ سے اٹے پڑے ہیں۔ رہائشی علاقوں میں بائی لاز کی خلاف ورزی کر کے بنائی گئی کئی منزلہ عمارتوں نے شہر کا حسن کوتباہ کردیا ہے۔ سی ڈی اے کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ یہ ہر سال اربوں روپے کے پلاٹ بیچ کر اٹھارہ ہزار ملازمین کے جھتے کو پالے۔ ڈی ایم جی افسران نے سی ڈی اے کو چرا گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ جنرل مشرف دور کے وزیرداخلہ فیصل صالح حیات نے تو '' بابوؤں‘‘ کو عیاشی کرادی تھی ۔جب اس ادارے میں بابو ڈیپوٹیشن پر آئے تو انہوں نے آئی ایٹ میں پرانے بس اڈے کو گرا کر وہاں تین سو سے زائد پلاٹ بنا کر پانچ پانچ کروڑ میں بیچے اور چلتے بنے۔
ڈی ایم جی افسران کی دیکھا دیکھی اب بابوؤں کے دوسرے گروپس نے بھی سفارش پر ڈپیوٹیشن پر سی ڈی اے آنا شروع کردیا ہے۔ شہر کی بہتری کیلئے نہیں اپنا حصہ وصول کرنے۔ سی ڈی اے کا کوئی ملازم کام کرنے کو تیار نہیں۔ افسران اور ملازمین کی اس '' مخاصمت ‘‘ میں عوام اور شہر جائے بھاڑ میں۔
اگر اسلام آباد کی بربادی میں کوئی کسر تھی تو وہ آبادی بڑھنے سے پوری ہو گئی۔ پندرہ سال میں اس شہر کی آبادی دوگنا ہو کر بیس لاکھ ہو گئی ہے۔ نئے لوگ اپنے ساتھ نئے مسائل لائے۔ چوریاں، ڈاکے اور گندگی بڑھ گئی۔ سڑکوں پر ٹریفک بڑھ رہی ہے۔ شہر وہی ہے لیکن اچانک دس لاکھ افراد کی آمد نے اس کا حشر نشر کردیا ہے۔ کسی ادارے نے توجہ نہ دی کہ ان کا کیا کرنا ہے۔ انہیں کہاں بسانا ہے۔ پہلے ہی تیس ہزار سرکاری ملازمین کے پاس گھر نہیں وہ سارا دن سرکاری گھر ڈھونڈتے ہیں، ہائوسنگ منسٹری میں ریٹ طے ہوتا ہے۔ رشوت لے کر گھر الاٹ کیے جاتے ہیں۔ جس شہر میں پہلے سے تیس ہزار سرکاری ملازمین کے پاس گھر نہ ہو وہاں دس لاکھ نئے انسان پہنچ جائیں تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس کا کیا حشر ہوگا۔
اس پر مستزاد یہ کہ نواز شریف نے ایک ٹھیکیدار کو شہر کا میئر بنا دیا ہے‘ جس نے شہر اپنے ٹھیکیدار بھائیوں کے حوالے کرکے خریدوفروخت شروع کردی۔ پہلے گندگی ایف الیون اور جی الیون تک محدود تھی وہ اب خیر سے بلیو ایریا تک پہنچ گئی ہے۔ٹھیکے دار اور ''سرکاری بابو‘‘ رہے تو بعید نہیں کہ ایک آدھ سال بعد آپ کو پارلیمنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس کے سامنے بھی کچرے کے ڈھیر نظر آئیں ۔
اسلام آباد مر رہا ہے۔ دم توڑ رہا ہے۔اس شہر کے قاتل ہماری آنکھوں کے سامنے شہر کو قتل کررہے ہیں۔ پہلے پڑھتے تھے، سنتے تھے شہر اجڑتے ہیں ، برباد ہوتے ہیں... لیکن اب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں!