چین کے پچھلی دہائی میں دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت کے طور پر ابھار کو بعض تجزیہ نگار عالمی طاقتوں کی ایک نئی رقابت کے طور پر پیش کر رہے ہیں‘ جس کے تحت چین دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی سامراج کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف 'مزاحمت‘ کر رہا ہے۔ تاہم حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف ووٹ بھی دیئے لیکن چین نے بہت سے عالمی تنازعات ، جہاں امریکی مداخلت چینی کاروباری مفادات کے آڑے نہیں آتی،پرتحمل کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ بحیرہ جنوبی چین اور دوسرے معاملات پر شی چن پنگ کی امریکہ مخالف نعرے بازی محض ڈھونگ ہے۔ ڈونلڈٹرمپ نے 8 نومبر کے چین کے دورے میں چینی صدر شی چن پنگ کی تعریفوں کے پل باندھے اورایک موقع پر تو اسے ''سب سے خاص آدمی‘‘ قرار دیا۔ پوڈیم سے اُترنے پراپنے چینی میزبان کے لیے ٹرمپ کے پاس ایک اور تحفہ تھا۔ دونوں نے پریس سے سوالات نہیں لیے۔ چین کا دورہ کرنے والے امریکی صدور عام طور پر اس دوران کچھ تنقید کا سامنا کرلیتے ہیں لیکن ٹرمپ نے ایسا نہیں کیا۔
یہ صورتحال شمالی کوریا اور تجارت کے حوالے سے چین کے مؤقف پراس کی سابقہ تنقید سے یکسرمختلف ہے۔ یہ ٹرمپ کی سب سے بڑی قلابازیوں میں سے ایک ہے۔ حتیٰ کہ اپنے انتخاب سے پہلے ٹرمپ نے لاف زنی کی تھی کہ امریکہ کو چین کاراستہ روکناچاہیے جسے وہ ایشیا پیسیفک میں امریکی بالادستی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اوباما دور کی ''ایشیا کی طرف جھکائو‘‘ کی پالیسی کی بنیاد بھی یہی تھی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے چین کو امریکہ کے معاشی مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور چینی مصنوعات پر 45فیصد ٹیرف لاگو کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
نومبر 2017ء کے دورہ بیجنگ میں ٹرمپ کوئی اورشخص محسوس ہو رہا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ شمالی کوریا کو ڈی نیوکلیئرائزکرنے کے لیے چین پر 'سخت کام‘ کرنے کازور ہی دے سکا۔ شی نے کہا کہ فریقین اقوام متحدہ کی قراردادپرمکمل عمل درآمد اور ''جزیرہ نما کوریا میں پائیدار امن‘‘ کے لیے کام کریں گے۔ چین کی ٹریڈ سرپلس کے حوالے سے ٹرمپ نے سب کو حیران کر دیا۔ اس نے کہا کہ وہ ''چین کو فائدہ اٹھانے کا الزام نہیں دیتا۔ اپنے ملک کے شہریوں کے مفاد کے لیے دوسرے ملک سے فائدہ اٹھانے والے ملک کو کون مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے۔میں چین کو لائق تحسین سمجھتا ہوں۔‘‘
شی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا اورامریکی بینکنگ، انشورنس اور مالیاتی شعبے کے لیے رکاوٹیں مزیدکم کرنے اور گاڑیوں کے لیے ٹیرف بتدریج کم کرنے پراتفاق کیا۔ دونوں 'بڑی طاقتوں‘ نے 250اَرب ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ تاہم چین اور امریکہ کے تعلقات تضادات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک طرف ان کے مشترکہ سیاسی، معاشی اور سکیورٹی مفادات ہیں۔ دوسری طرف بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی معاملات اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کی فوجی اور سفارتی حمایت پر دنیا کی دو سب سے بڑی معاشی طاقتوں میں تنازعہ اپنی جگہ موجودہے۔ لیکن منڈی اور معیشت پرسخت کنٹرول اورمغربی کارپوریٹ سرمائے پر حدبندیاں ‘وہ بنیادی مسائل ہیں جس سے مغرب چینی حکومت سے نالاں ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بیرونی سرمایہ کاری اور سرمائے کی حکمت عملیوں کے مسائل پران کے مفادات کا ٹکرائو ہوتا ہے۔ اگرچہ چین کے پاس امریکی بانڈز خریدنے کے علاوہ کوئی دوسراآپشن نہیں ہے، لیکن اس نے ایس اینڈ پی کی جانب سے امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ گرانے کے ردعمل میں مقداری آسانی کی امریکی مالیاتی پالیسی کی مذمت کی ہے اور امریکہ کومشورہ دیا ہے کہ وہ قرضوں کے اجتماع سے پرہیزکرے کیونکہ ان قرضوں سے مالیاتی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ تاہم 2010ء کے بعد چینی معیشت کی سست روی اورشرح نمو میں گراوٹ کی وجہ سے چین نے خود قرضوں کا سہارا لیا جو اب جی ڈی پی کے 255 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو اس وقت دنیا میں بلند ترین شرح میں سے ایک ہے۔
چین میں امریکہ نے مینوفیکچرنگ شعبوں کے وسیع حصوں میں سرمایہ کاری کی ہے جس میں فوکسکون بھی شامل ہے جو ایپل کے آئی فون کے حصے اور دوسری انفو ٹیک اشیا تیار کرتی ہے۔ امریکی کمپنیوں نے مختلف معاہدوں کے ذریعے 20,000 ایکویٹی جوائنٹ وینچرز، کنٹریکٹ جوائنٹ وینچرز اور مکمل بیرونی ملکیت کے حامل کاروبار قائم کیے ہیں۔ سو سے زائد امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چین میں پروجیکٹس ہیں جن میں بعض کی متعدد جگہوں پر سرمایہ کاری موجود ہے۔ 2007ء میں مجموعی امریکی سرمایہ کاری 48اَرب ڈالر تھی۔ 2006ء میں چین کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ 350اَرب ڈالر تھا جو امریکہ کا کسی ملک کے ساتھ سب سے بڑا تجارتی خسارہ تھا۔
امریکی سامراج کے زوال پذیر اثرورسوخ کی کیفیت میں ٹرمپ کے پاس شی کی تعریفیں کرنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ بھی نہیں تھا۔ افغانستان اور عراق میں شکستوں نے امریکی فوج کے حوصلہ پست کردیئے ہیں۔ امریکی بروکنگ انسٹیٹیوٹ نے صدر کے دورے سے چندمہینے پیشتر لکھا تھا، ''تجارت کے حوالے سے انتظامیہ کا رویہ کئی باربدلا۔ صدرٹرمپ اورشی نے مارالاگو میں مذاکرات کیے اور جامع اکنامک ڈائیلاگ (CED)کی تشکیل کی جو سابقہ دو امریکی صدور کی پالیسیوں سے مطابقت رکھتاتھا۔ اس عمل نے جلد نتائج دیئے جسے امریکی انتظامیہ نے چین کے حوالے سے اہم پیش رفت قرار دیا۔ لیکن جولائی میں CEDکی میٹنگ ناکام ہوئی۔ چین سے تعلقات میں امریکہ کی اپنی عظیم ترقومی طاقت کواستعمال کرنے کی صلاحیت بعض مبصرین کی رائے کے برعکس کافی عرصے سے بہت کم ہو چکی ہے۔ ٹرمپ کمزور چالیں کھیل رہا ہے، کچھ طویل معاشی زوال کی وجہ سے لیکن کچھ اس کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔‘‘
فی الحال چینی معیشت ظاہری طور پر کم مشکل میں ہے اور دوسری بڑی معیشتوں کی نسبت قابو میں ہے۔ لیکن چینی حکمران جھوٹی سرخوشی کا شکار ہیں۔ ان کی ڈانواںڈول امریکی صدر کو پھانسنے کی کوششیں حد سے زیادہ اعتماد سے بھری ہوئی ہیں۔ امریکہ کے مقابلے میں چین کی برتری فوربڈن سٹی میں شی کی مہمان نوازی سے واضح تھی۔ دی اکانومسٹ نے لکھا، ''کمیونسٹ پارٹی کے درباریوں نے شاطرانہ ادب و احترام کے قدیم فن کو کھویا نہیں ہے۔ چینیوں کے پاس بھی تحفے تھے۔ 200اَرب ڈالر کے تجارتی معاہدے‘ جن میں جیٹ انجن اور گاڑیوں کے پرزوں سے لے کر شیل گیس تک سب شامل تھا۔بہت سے منصوبے مفاہمت کی یادداشتیں تھیں جو کہ محض خواہشات کا اظہار تھیں کوئی لازمی عمل درآمد کے معاہدے نہیں تھے۔ بہت سی لازمی چیزیں چینی کرچکے ہوتے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اگر امریکی سامراجیت زوال میں ہے تو چین کا ابھار بھی کمزور اور قرضوں کی بنیاد پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چین میں بحال شدہ سرمایہ داری اپنی بنیادوں میں صحت مند اور کلاسیکی نہیں ہے۔ امریکہ اور چین کے باہمی انحصار کی وجہ سے حکمران طبقات مجبوراً آپس میں سمجھوتے کرتے ہیں اور رعایات دیتے ہیں لیکن اسی اثنا میں سرمائے کی دونوں طاقتوں کے درمیان تضادات بھی ہیں۔ چینی حکمران پہلے ہی امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ شی اب تک امریکہ کے ساتھ اس رقابت میں احتیاط سے کام لے رہا ہے‘ لیکن اپنے عالمی منصوبوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ جیسے جیسے بحران شدید ہوں گے ان تعلقات میں تضادات مزید بڑھیں گے۔ وہ براہ راست جنگ نہیں لڑ سکتے لیکن آنے والے دور میں ان کی پراکسی اور تجارتی جنگیں مزید تیز ہوں گے۔
ممکن ہے کہ یہ آپس میں عارضی اورکمزور معاہدے کریں لیکن وہ بہت جلد ٹوٹ جائیں گے۔ انہیں سب سے زیادہ فکر داخلی محاذ کی ہے۔ سرمایہ داری کے تاریخی زوال کے اس عہد میں نہ صرف امریکی معیشت کی صحت مندانہ بحالی بہت مخدوش ہے بلکہ چین کی مسخ شدہ سرمایہ داری کا ابھار بھی کمزور ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی صدارت مزدوروں کی بغاوت کو جنم دے سکتی ہے۔ چینی پرولتاریہ بھی نظام کے بڑھتے ہوئے بحران اور جبر کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی طاقتور تحریک میں ابھر سکتا ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں میں سماجی استحکام قائم ہونے والا نہیں اور ناہموار سماجی معاشی ارتقا کی وجہ سے تضادات جلد ہی پھٹیں گے۔ جلد یا بدیر انقلابی حالات جنم لیں گے۔