تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     12-11-2017

عورت کے وقار کی بحالی

چند دن قبل سوشل میڈیا پر ڈیرہ اسماعیل خان میں بااثر افراد کی غنڈہ گردی کی بھینٹ چڑھنے والی مظلوم لڑکی کی داستان ہماری نام نہاد غیرت کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ بااثر غنڈوں نے کس قدر بہمیت کا مظاہرہ کیا، مجھ میں اس کی تفصیل لکھنے کی ہمت نہیں۔ یہ انسانیت سوز داستان سوشل میڈیا ہی نہیں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی تفصیل کے ساتھ سامنے آ چکی ہے۔ جی ہاں‘ وہی سانحہ جس میں بھائی کے کیے کی سزا بہن کو یوں دی گئی کہ انسانیت بھی کانپ کر رہ گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ نام نہاد غیرت مند اپنے گھر کی خبر لیتا اور اپنی بہن کی اصلاح کرتا۔ اگر غصے پر قابو پانا ممکن نہ تھا تو وہ اس لڑکے کو تنبیہ کرتا جس کے اس کی بہن سے رابطے تھے۔ یہ کہاں کی غیرت اور انسانیت ہے کہ جرم تو اپنی بہن اور لڑکے نے کیا لیکن انتقام لڑکے کی بہن سے لیا گیا۔ صد حیف کہ اطلاع ملنے کے باوجود نہ تو خیبر پختونخوا کی حکومت حرکت میں آئی اور نہ ہی پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے نوٹس لیا۔
عورت کا استحصال کوئی نئی بات نہیں بلکہ صدیوں سے عورت کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں عورت کی پیدائش کے بعد نام نہاد غیرت مند باپ ''غیرت‘‘ کھا کر اس کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ اسی طرح عورت ایک مملوکہ اثاثے کی حیثیت سے زندگی گزارا کرتی تھی۔ باپ کی موت کے بعد سوتیلی مائیں سوتیلے بیٹوں کے نکاح میںآ جاتی تھیں۔ عورت کا وراثت میں کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔
اسلام نے عورت کو بہت زیادہ مقام عطا کیا اور ہر طرح کے استحصال کو ختم کرنے کے لیے بڑے خوبصورت انداز میں‘ بہت ہی مثبت لائحۂ عمل تجویز کیا۔ عورت کو درگور کرنے والی قبیح رسم کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیا گیا۔ اور سورہ نساء کی 
آیت نمبر 22 میں اس امر کا اعلان کر دیا گیا کہ ''مت نکاح کرو ان عورتوں سے جن سے نکاح کر چکے ہوں تمہارے باپ‘ مگر جو البتہ پہلے ہو چکا (دور جاہلیت میں)۔ بے شک یہ بے حیائی اور ناپسندیدہ (عمل) ہے اور برا چلن ہے‘‘۔ عورت کا وراثت میں حصہ مقرر کیا گیا اور میت کی ماں، بیٹی اور بیوی کو اس کی وراثت میں سے حصہ دلایا گیا۔ عورت کو بطور بیوی اَحسن طریقے سے رکھنے کی تلقین کی گئی اور سماجی سطح پر ہونے والے کسی بھی ظلم و ستم سے اس کو بچانے کے لیے بیش قیمت اصول و قوانین مقرر کئے گئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 19 میں ارشاد فرمایا ''اور زندگی بسر کرو ان کے ساتھ اچھے طریقے سے‘‘۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں ارشاد فرمایا ''اور ان (عورتوں )کے لیے ویسے ہی (حقوق ہیں) جس طرح (مردوں کے حقوق ہیں) ان پر دستور کے مطابق۔‘‘ اس آیت مبارکہ کے مطابق گھریلو سطح پر بھی مرد کو عورت کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حدیث پاک میں تو یہاں تک ارشاد ہوا ''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہو‘‘۔ نبی کریمﷺ نے خود بھی ایک عظیم شوہر کا کردار ادا کرکے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو اس بات کا سبق دیا کہ انسان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے۔ آپﷺ گھریلو معاملات اور امور خانہ داری میں اپنی ازواج مطہراتؓ کے ساتھ شریک ہوتے۔ آپﷺ نے زندگی کے طویل روز و شب میں کبھی بھی اپنی بیویوں کے ساتھ سختی والا برتاؤ نہیں کیا بلکہ گھر کی سطح پر ان کو ایک شریک زندگی اور رفیق سفر کا مقام عطا کیا۔
قرآن مجید میں عورت کو رکھنے کے لیے جہاں پر معروف طریقے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا وہیں پر نا گزیر وجوہات کی بنیاد پر علیحدگی کی نوبت آ جانے پر اس بات کا حکم دیا گیا کہ اس کو احسان کے ساتھ چھوڑ دیا جائے۔ گویا کہ علیحدگی کے وقت‘ ساتھ رکھنے کے مقابلے میں بھی زیادہ بہتر سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسلام میں مرد و زن کے حقوق کے حوالے سے جو غیر معمولی اصول پڑھنے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کی بدچلنی کا چشم دید شاہد بھی ہو تو بھی وہ غیرت میں آکر اپنی عورت کو قتل نہیں کر سکتا بلکہ اس کو عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا۔ جہاں پر وہ چار قسمیں کھائے گا کہ اس کی اپنی بیوی پر بدکرداری کی تہمت سچی ہے۔ پانچویں دفعہ قسم کھا کر وہ یہ کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو اگر وہ اپنی بیوی پر جھوٹا الزام لگا رہا ہے۔ اسلام کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ اس الزام کے بعد بھی عورت کے لیے دنیا میں بچاؤ کا راستہ رکھا گیا ہے تاکہ کوئی جنونی، متشدد اور بدنیت انسان اپنی بیوی غلط طریقے سے استحصال نہ کر سکے۔ عورت سے چار قسمیں کھانے کا مطالبہ کیا جائے گا کہ اس کا خاوند اس پر جھوٹا الزام لگا رہا ہے اور وہ پانچویں قسم یہ کھائے گی کہ اللہ کا اس پر غضب ہو اگر اس کے شوہر کا الزام سچاہے۔ ان قسموں کوکھانے کے بعد عورت ہر طرح کی قانونی گرفت سے آزاد ہو جاتی ہے اور میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دی جاتی ہے۔ اس امر کو شریعت میں ''لعان‘‘ کہا جاتا ہے۔ عورت کی معاشرے میں عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے حدِ قذف کو مقرر کیا گیا کہ اگر کوئی شخص کسی پاکدامن عورت پر تہمت لگا تا ہے اور اپنی تہمت کو ثابت کرنے کے لیے چار چشم دید گواہوں کو پیش نہیں کر پاتا تو ایسی صورت میں تہمت لگانے والوں کو اسّی (80) کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔
اسلام میں عورت کی تعلیم کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اور جملہ علوم و فنون کے دروازوں کو اس کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ دینی علم کا مقام جملہ علوم میں انتہائی بلند ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم دینی علوم و فنون میں کمال درجے کی مہارت رکھتی تھیں۔ خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قرآن و سنت اور ان سے اخذ ہونے والے مسائل پر گہری نظر رکھتی تھیں۔ چنانچہ جب بھی کبھی اصحاب رسولﷺ کسی مسئلے میں رہنمائی چاہتے تو وہ بلا جھجک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔ عورت کو اسلام میں بہت زیادہ حقوق دیئے گئے۔ لیکن بعض لبرل عناصر اور مادر پدر آزادی کے علمبردار لوگ اسلام کے تحت عورت کو ملنے والے حقوق پر طنز کرتے ہوئے دینِ اسلام کے بارے میں مختلف طرح کی باتیں کرتے ہیں جو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔
عورت کی حق تلفی کے حوالے سے عام طور پر پردے کا رونا رویا جاتا ہے کہ اسلا م نے عورت کی شخصی آزادی کا گلا گھونٹا اور اس کو پردے کا پابند بنا دیا۔ حقیقی بات یہ ہے کہ عورت کو مخلوط مجالس سے بچانے اور اس کو پردے میں رکھنے کے پس منظر میں عورت کی بے توقیری نہیں بلکہ عزت کا تحفظ پنہاں ہے۔ معاشرے میں مختلف قسم کے بدنیت اور غلط اخلاق والے لوگ بستے ہیں۔ اگر پاک دامن اور شریف عورتیں بے حجاب ہوں تو وہ ایسے لوگوں کی چیرا دستیوں سے محفوظ نہیں رہ سکتیں۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو حجاب میں رہنے کا حکم دیا اور شریعت نے بلا عذر گھر سے نکلنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اس حکم کا مقصد ان کو بدکردار اور بد نیت لوگوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ اسلام نے عورت کی عزت اور وقار کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ اگر کوئی کنوارہ شخص عورت کی آبروریزی کرتا ہے تو قرآن نے اس کو سو (100) کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے۔ اور اگر ایسا شخص شادی شدہ ہو تو حدیث پاک میں اسے سنگسار کر نے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر بدکرداری کے جرم میں تشدد ، اغوا اور دیگر جرائم کی آمیزش بھی ہو جائے تو فساد فی الارض کے باب میں ایسے شخص کو سزائے موت تک بھی دی جا سکتی ہے۔ بہت سے لوگ عورت کے تحفظ کے لیے مغربی ممالک سے مستعار قوانین کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ اہل مغرب نہ تو عورت کی عزت کا تحفظ کر سکے ہیں اور نہ ہی عورت کو وہ مقام دے سکے ہیںجو اسلام نے دیا ہے۔ اسلام میں عورت کے ہر روپ کو بہت زیادہ عزت اور وقار عطا کیا گیا۔ نبی کریمﷺ کی متعددہ احادیث میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کی ہے۔ اس کے برعکس یورپی معاشروں کے اولڈ ہاؤسز میں بوڑھی ماؤں کو بے کسی اور بے بسی کی زندگی گزارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ آج اگر ہم عورت کے وقار ،عزت اور مرتبے کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں اس سلسلے میں کسی مغربی حوالے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں اسلام کی آفاقی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے عورتوں کو ان کے حقوق دلوانے چاہئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو بصیرت سے نوازے تاکہ ہم حقائق پہچاننے کے قابل ہو سکیں۔ آمین!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved