تحریر : کامران شاہد تاریخ اشاعت     13-11-2017

نفسِ مطمٔنہ

''اے نفسِ مطمٔنہ اپنے رب کی طرف لوٹ جا‘اس حال میں کہ تُو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی‘‘۔ (سورۃ الفجر27۔28)
تیرے داماں پر لگے راہزنی کے داغ بھی اگر تیرے نفس کو اگر مطمئن رکھتے ہیں تو اے نا سمجھ تُو حاکم تو بن گیا مگر کیا اپنے رب کو راضی کر سکا؟
نفس کا اطمینان بھی عجب سرور ہے‘ کہ جس کو مل جائے‘ دنیا اور آسماں دونوں ہی اس کو حاصل ہوتے ہیں‘ خود کو زمیں کا خدا سمجھ کر اِترا کر پھرنے والے اکثر حاکم یہاں قلب کے عارضے میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کے اعمال حق سے ایسے ہی دور ہیں‘ جیسے بنجر زمین زندگی سے! لوگ کہتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب بہت ہی کم سوتے ہیں‘ فرائض کی لگن ان کی آنکھوں کو جگائے رکھتی ہے‘ سڑکوں پلوں کا ایک جال ہے جس کی تعمیرو ترقی کیلئے دن رات وزیراعلیٰ جتے ہوئے ہیں۔
ان کے دوست احباب کہتے ہیں کہ خادم اعلیٰ کا نفس اور ضمیر دونوں ہی مطمئن ہیں کہ انہوںنے پنجاب کی تقدیر بدل دی۔
داماں کے دھبے مگر لباس کی پاکی سے بھی دھل نہیں سکتے کہ ماضی اور حال کے غاصبوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ سینکڑوں سال قبل بھی ظلم کے ہاتھی نے نہتوں کے خون سے ظلم کی ایک داستان لکھی تھی‘ اور ادھر بھی خون ناحق ایسے چھلک رہاہے کہ اعلیٰ منصب کے تن پر تنا لباس سر سے پائوں تک تار تار ہے!
سچ کا قحط ہے‘ باطل کا مداح ہی زمانۂ ابن الوقتی میں شاہکار ہے۔ حاکم کی تعریف کر کے ''تمغۂ امتیاز‘‘ وصول کرنے والی انسانوں کی اس قوم میں اذان دینا بھی تو ایک جہاد ہے کہ اس زمیں کا حاکم عرش کے خدا کی ثنا سننے پر بھی بمشکل راضی ہے! اس اخبار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے جرأت مندانہ صحافت کی عزت برقرار رکھی اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ناک کے نیچے بہنے والے اس خون کی رپورٹ شائع کردی‘ جس کو چھپانے کیلئے پنجاب کی پوری وزارتِ قانون دلائل کے تیر برسا رہی ہے۔
انصاف کا بس یہی امتحاں ہے کہ اس نے یہ پرکھنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی رپورٹ چھپانے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کے ہزار جتن زیادہ اہم ہیں یا خادم اعلیٰ کے ماتحت پنجاب پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہونے والے وہ جنازے جو انسانوں کی سب سے بڑی اور آخری عدالت میں منصف اور حاکم پر شہادتِ برحق ہوں گے؟ سانحہ ماڈل ٹائون کی جس رپورٹ کو دبانے کیلئے آجکل لاہور ہائیکورٹ میں جستجو کی جا رہی ہے‘ اس کے کچھ اقتباسات عوام کیلئے پیش خدمت ہیں:۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی طرف سے حکومت پنجاب کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا: وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے بیان حلفی میں کہا کہ 17جون کو نو بجے سرکاری مصروفیات شروع ہوئیں‘ وہ گورنرہائوس میں چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری میں گئے اور ساڑھے نو بجے ٹی وی پر سانحہ ماڈل ٹائون دیکھا جس کے بعد انہوںنے اپنے سیکرٹری سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور حکم دیا کہ پولیس کسی بھی کارروائی سے گریز کرے‘ یہی پیغام رانا ثناء اللہ کو بھی دیا گیا جس پر دونوں شخصیات نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ پولیس پیچھے ہٹ رہی ہے اور صورتحال نارمل ہے۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان میں وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے پولیس کو کارروائی نہ کرنے کے پیغام کا ذکر تک نہیں کیا جبکہ سیکرٹری نے بھی اپنے بیان میں ایساکوئی تذکرہ نہیں کیا‘ پولیس افسران نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے پیچھے ہٹنے کا کوئی حکم نہیں ملا۔ ٹربیونل نے سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد وزیراعلیٰ کی پہلی پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ دیکھی‘ مگر اس پریس کانفرنس میںبھی وزیراعلیٰ نے پولیس کو ہٹانے کا ذکر تک نہیں کیا کہ انہوں نے ایسا کوئی حکم دیا تھا۔ ٹربیونل کے مطابق یہ عجیب بات ہے کہ پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلیٰ اپنے ایسے اہم حکم کا ذکر بھول گئے جو انہوں نے اسی روز صبح کو دیا تھا‘ لہٰذا یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ نے اپنے بیان حلفی کے برعکس پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا ہی نہیں جبکہ وزیراعلیٰ نے اپنے بیان حلفی میں قطع تعلق Disengagement کا لفظ خود کو بچانے کیلئے سوچے سمجھے طریقے سے استعمال کیا۔
کمشن نے مزید کہا کہ خون کی اس ہولی میں پولیس پوری طرح ملوث ہے‘ معاملہ پنجاب کی تمام حکومتی اتھارٹیز کی بے حسی ظاہر کرتا ہے کہ وہ بے گناہ نہیں‘ پولیس نے وہی کچھ کیا جس کا حکومت نے اسے حکم دیا تھا‘ حکومت پنجاب کی منظوری سے ہی آپریشن کیا جس میں بے گناہ لوگ قتل ہوئے۔ادارہ منہاج القرآن سے پولیس پر صرف پتھرائو کیا گیا لیکن پولیس نے عام شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔
پولیس آفیسرز نے جس جارحانہ رویے کا ارتکاب کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ پولیس کو ظاہری یا خفیہ طور پر دیا جانے والاحکم ماننا پڑا‘ چاہے اس کے نتیجے میں غیر مسلح مگر قیمتی پاکستانی شہریوں کی جانیں ہی کیوں نہ ضائع ہو گئیں۔ پنجاب حکومت کی بے گناہی مکمل طور پر مشکوک ہو گئی ہے۔
رانا ثناء اللہ کی زیر صدارت اجلاس کے فیصلے پاکستانی تاریخ کے بدترین قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔ حکومت پنجاب کا 17جون کا ایکشن غیر قانونی جبکہ ادارہ منہاج القرآن کے باہر بیرئیر قانونی تھے۔سانحہ ماڈل ٹائون کی یہ رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کی دل خراش تصویر بناتی ہوئی نظر آتی ہے کہ ان کا مینڈیٹ عوام کی جان و مال کی حفاظت تھا۔
یہ وہی واقعہ ہے جس کی FIR تک کٹوانے کیلئے مدعی کو اس وقت کے آرمی چیف کو استدعا کرنی پڑی اور بعدازاں آرمی چیف کی مداخلت سے ہی اس مقدمے کی جائزFIR کٹی۔ یہ تو قرآن کے خالق عظیم کو ہی معلوم ہے کہ مقتول کی وکالت کرنے والا ایک باوردی جرنیل وہ نفس مطمٔنہ ہے جس سے اللہ راضی ہو جائے یا پھر وہ جمہوری وزیراعلیٰ خدا کی رضا کے قابل ہے جو اپنے شہر کے بے گناہ لوگوں کو اپنی پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھتا رہا اور مطمئن رہا!
نیب کی عدالت میں نواز شریف ایک ملزم کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان پہ فرد جرم عائد ہو چکی۔ ان کے بچوں پر کرپشن کے چارجز لگ چکے۔
سپریم کورٹ انہیں جھوٹا بددیانت‘ دھوکے باز کہہ چکی مگر میاں صاحب کے چاہنے والوں نے ان سب کے باوجود انہیں خاصا مطمئن دیکھا اور ایک پیشی پر تو نواز شریف سوتے ہوئے بھی پائے گئے۔
اس کے نفس پر لگے راہزنی کے الزام اگر اس کی روح کو جھنجھوڑتے نہیں‘ اس کی آنکھوں کو نیند کی مدہوشی سے آزاد نہیں کرتے، اس کے نفس کو مطمئن رکھتے ہیں تو پھر نہ تجھ سے کوئی شکوہ ہے نہ تجھ سے کوئی گلاکہ تُو تو سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ مخلوق کا حاکم بننا اور بات مگر خالق کو اپنے نفس سے راضی کرنا دوسری بات ہے۔نیرو بھی ایک حکمران تھا۔ اس کا ملک جلتا رہا ‘لٹتا رہا‘ وہ سوتا رہا‘ بانسری بجاتا رہا۔ہاں روم کا نیرو بھی ایک حکمران ہی تھا مگر وہ یقینا بے شرم اور بے حس تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved