تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     13-11-2017

احتجاج کا کلچر

بہت محنت کے ساتھ ہم نے قومی مزاج کو احتجاج پسند بنا دیا ہے۔ سیاست، مذہب، معاشرہ، سب کی باگیں احتجاج پسندوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک سماج کو برباد کرنے کا اس سے آسان نسخہ اب تک دریافت نہیں ہو سکا۔
2014 ء میں عمران خان اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد فتح کرنے نکلے تو ایک بات بہ تکرار عرض کی گئی: آپ چلے جائیں گے مگر آپ کے نقوشِ پا باقی رہیں گے۔ جو چند سو افراد جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ دارالحکومت پر چڑھ دوڑے گا کہ اپنی بات منوانے کا یہی طریقہ ہے۔ یہ معلوم ہے کہ عمران خان صاحب سے لے کر آج کے اہلِ مذہب تک، کسی کا کوئی دھرنا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا؛ تاہم اس کے نتیجے میں سماج شدید شکست و ریخت کا شکار ہوا۔ اس کا کسی کو پوری طرح اندازہ نہیں کہ سماج کا مطالعہ کسی کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
ایک نتیجہ ظاہر و باہر ہے۔ آج مذہب بھی ہیجان کا نام ہے اور سیاست بھی۔ مذہب تزکیہء نفس کے لیے آیا تھا، ہم نے اسے نعرہ بنا دیا۔ سیاست، ریاستی امور کی تہذیب کا نام تھا۔ ہم نے بد تہذیبی کو سیاست سمجھ لیا۔ اگر کوئی اہلِ مذہب اور اہلِ سیاست کی صرف وہ تقاریر جمع کر دے جو گزشتہ ایک ہفتے میں فرمائی گئیں‘ اور پھر ایک عامی سے سوال کرے: کیا ان میں سے کوئی ایک تقریر ایسی ہے جسے مذہبی اخلاقیات یا سیاسی آداب کے طالب علم کو بطور مثال سنایا جا سکے؟ میں پورے اطمینان سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کا جواب اثبات میں نہیں ہو سکتا۔ میں قائد اعظم اور ابوالکلام آزاد کی بے شمار ایسی تقاریر سنا سکتا ہوں جنہیں آج بھی سیاسیات کے نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے لاکھوں شہری چھ دن سے ایک دھرنے کی گرفت میں ہیں۔ جڑواں شہروں کے سنگم پر ایک گروہ کا قبضہ ہے۔ چند دن پہلے اسی جماعت کا ایک دوسرا دھڑا دھرنا دے چکا۔ زندگی مفلوج ہے اور ظاہر ہے کہ عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں ملازمت کرنے والے ایک لاکھ سے زیادہ افراد راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ وہ روزانہ اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں۔ اسلام آباد جانے والا سب سے بڑا راستہ، مری روڈ بند ہے۔ میٹرو بند پڑی ہے۔ یہی نہیں، فیض آباد دوسرے شہروں کو جانے والی بسوں ویگنوں کا اڈا بھی ہے۔ دوسرے شہروں کے مسافر جس اذیت میں مبتلا ہیں، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ یہ سب ایک ایسا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا کوئی اخلاقی و دینی جواز ہے اور نہ آئینی و قانونی۔
احتجاج کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں۔ اگرچہ میرے نزدیک ایک جمہوری معاشرے میں، جہاں عدلیہ آزاد ہو، میڈیا آزاد ہو‘ آزادیٔ اظہارِ رائے کو بطور قدر مانا گیا ہو، وہاں احتجاج کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ احتجاج اس لیے ہوتا ہے کہ بات کی شنوائی نہ ہو۔ جہاں یہ مسئلہ نہ ہو وہاں احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا؛ تاہم اس کے باوجود میں احتجاج کو لوگوں کا جمہوری حق تسلیم کرتا ہوں لیکن اس کے کچھ آداب بھی ہونے چاہئیں۔ پاکستان کا آئین نقل و حرکت کو ایک شہری کے بنیادی حقوق میں شامل کرتا ہے۔ وہ احتجاج کس طرح آئینی ہو سکتا ہے‘ جو ایک شہری کو اس بنیادی حق سے محروم کر دے؟
احتجاج کے لیے جلسہ کیا جا سکتا۔ کم و بیش ہر شہر میں اس کے لیے مقامات مخصوص ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان ایک عرصے سے مسلسل جلسے کر رہے ہیں۔ ان جلسوں پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ کوئی اور چاہے تو وہ بھی جلسہ کر سکتا ہے۔ دھرنے کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہ دراصل زندگی کو مفلوج کر نے کا نام ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ کسی حکومتی نظم کو معطل کر دیا جائے۔ یہ کامیاب بھی وہاں ہوتا ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جائیں کہ عملاً امورِ ریاست سرانجام دینا محال ہو جائے۔ محض چند سو افراد جمع کرنے سے عوام کو چند دن اذیت پہنچائی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ تین سال میں دھرنے والوں نے اس کے سوا کوئی نیکی نہیں کمائی۔
دھرنے اور جلسے جلوس میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جلسہ یا جلوس بالعموم چند گھنٹوں کی سرگرمی ہے۔ دھرنا تو کئی دن کی درد سری ہے۔ اسلام آباد راولپنڈی کے لوگ 126 دن مسلسل یہ عذاب بھگت چکے۔ پھر یہ کہ جلسے جلوسوں کا بھی کوئی موسم ہوتا ہے‘ جیسے انتخابات۔ جس ملک میں آئے دن جلسے جلوس ہوتے ہوں‘ وہاں زندگی معمول کے مطابق نہیں چل سکتی۔ ٹریفک دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کسی وجہ سے چند منٹ کے لیے ٹریفک رک جائے تو اسے دوبارہ بحال ہونے میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ اس میں وقت اور انسانی جان جیسی قیمتی چیزوں ضائع ہو جاتی ہیں۔
احتجاج کا یہ کلچر ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟ یہ سوال اس وقت سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔ مطالبے اور احتجاج کی نفسیات ایک قوم کی قوتِ عمل کو سلب کر لیتی اور اسے نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ مذہب انسان کو سماجی سطح پر مہذب بناتا ہے۔ جمہوریت اسے سیاسی سطح پر مہذب بناتی ہے۔ مذہب کی تعلیمات میں کہیں احتجاج کا گزر نہیں۔ مذہب میں صبر اور حکمت ہے۔ احتجاج سیاسی لغت کا لفظ ہے‘ جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ جن لوگوں نے اپنے سیاسی تصورات کو مذہبی لبادہ پہنایا، انہوں نے احتجاج کو زبردستی مذہبی لغت کا حصہ بنایا۔ ہمارے مذہبی اکابر اس لفظ سے ناآ شنا تھے۔
یہی معاملہ جمہوریت کا بھی ہے۔ وہ اختلاف رائے کو آداب کے سانچے میں ڈھالتی ہے۔ وہ دوسروں کی رائے کے احترام کا درس دیتی ہے۔ بد کلامی اور بد تہذیبی کا تو جمہوریت سے دور کا واسطہ نہیں۔ آج مذہب اور سیاست دونوں 'پاپولزم‘ کی گرفت میں ہیں۔ دونوں جذبات کے استحصال سے متعلق ہو گئے ہیں۔ مذہبی جذبات کا استحصال ہے یا پھر سیاسی جذبات کا۔ اس کے نتیجے میں سماج کی چولیں ہل گئی ہیں۔ فکری پراگندگی کا دائرہ انتشارِ عمل تک پھیل چکا۔ المیہ یہ ہے کہ سب اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
اس باب میں بڑا چیلنج نواز شریف صاحب کو درپیش ہو گا۔ ان کے لیے اب مزاحمتی سیاست کے سوا دوسرے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ دوسری سمت کا لب و لہجہ بتا رہا ہے کہ وہاں ان کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ ان کو اگر سیاسی طور پر زندہ رہنا ہے تو ان کے پاس واحد راستہ مزاحمت کا راستہ ہے۔ ان کے لیے یہ امتحان ہے کہ وہ اپنا مقدمہ شائستگی اور دلیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں یا دھرنا سیاست کرتے ہیں۔ عوام کو متحرک کرنا ان کا حق ہے۔ یہ حق انہیں قانون کے دائرے اور عوام کے مفاد میں استعمال کرنا ہو گا۔
انتخابات کا موسم دستک دے رہا ہے۔ اب سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ انتخابات میں جلسے جلوس بڑھ جاتے ہیں اور انہیں روا رکھا جاتا ہے۔ چند ماہ کے لیے اسے گوارا کیا جانا چاہیے۔ میرا اعتراض احتجاج کے کلچر پر ہے، جلسے جلوسوں پر نہیں۔ اگر ایک قوم کی نفسیات ہی احتجاجی بن جائے اور سارا سال جلسے جلوس اور دھرنے جاری رہیں تو پھر نظامِ اقدار برباد ہوتا ہے اور زندگی بھی مفلوج ہو جاتی ہے۔
احتجاجی کلچر کو کون ختم کر سکتا ہے؟ حکومت یہ کام نہیں کر سکتی۔ وہ تو چند سو افراد کو ہاتھ لگانے سے ڈرتی ہے کہ کیا معلوم ساری حکومت ہی مرتد قرار دے دی جائے؟ یہ کام وہی کر سکتے ہیں جس کے پاس حقیقی اقتدار اور قوت ہے۔ احتجاج پسند جن کے کہے سنے میں ہیں۔ جن کے اشارے پر وہ اٹھتے اور بیٹھتے ہیں یا جن کے کہنے پر عدالتی فیصلوں کو مان لیتے ہیں۔ میری طرح کا عام شہری اُنہی سے درخواست کر سکتا ہے کہ اس احتجاجی کلچر کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
جس طرح عسکری المعروف جہادی کلچر نے اس سماج کو برباد کیا ہے، اسی طرح احتجاجی کلچر بھی ہمارے لیے تباہ کن ہے۔ اس کا راستہ اگر بند نہ ہوا تو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ مزید چرکے کھانے کی سکت نہیں رکھتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved