تحریک انصاف اور ا س کے چیئر مین عمران خان کی جانب سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے موجو دہ اسمبلیوں کو ختم کرتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کس طرح غلط اور ناجائز کہا جا رہا ہے جب سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کھلے عام پیغام دے رہے ہیں کہ اب کوئی فارمولا چلے گا نہ ہی کسی کو انتخابات میں پہلے کی طرح دھاندلی کرنے دیں گے۔ سابق صدر کا کہنا ہے کہ یہ کوئی راز نہیں رہا کہ میاں محمد نواز شریف ہمیشہ سے دھاندلی کرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ چوری کرتے رہے ہیں۔۔۔ آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2013 کے انتخابات میں ہمارے ہاتھ پائوں باندھ دیئے گئے جس کی وجہ سے ہم خاموش رہے لیکن اب ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ میاں نواز شریف الیکشن چراکر ہر دفعہ دو تہائی اکثریت حاصل کرتے رہے کیونکہ یقین دہانیاں کراتے وقت ان کا ''اپنے دوستوں اور سرپرستوں‘‘ سے پہلا مطا لبہ یہی ہوتا تھا کہ مجھے جب تک دو تہائی اکثریت نہیں دیں گے میں آپ کے ایجنڈے کو پورا نہیں کر سکوں گا۔
سابق صدر آصف علی زرداری کا یہ چونکا دینے والا بیان دس نومبر کے ہر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ہیڈ لائنز اور بریکنگ نیوز کی زینت بنا ۔۔۔سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین کے کہے گئے یہ الفاظ قابل غور ہیں کہ'' نواز شریف چونکہ انتخابات میں دھاندلی کرتے ہیں اس لئے ہماری نظر میں وہ جمہوریت دشمن ہیں اور جو جمہوریت کا دشمن ہے پی پی کی نظروں میں وہ ملک دشمنی کا مرتکب ہے اور ملک دشمن کے ساتھ ہم کوئی رعایت نہیں کر سکتے ا س لئے شریف فیملی کا اپنے دوستوں کے ذریعے بار بار رابطوں اور بھیجے جانے والے پیغامات کے باوجود پی پی پی کسی صورت بھی ملک دشمنوں سے مذاکرات تو درکنار بات بھی نہیں کرے گی۔
2013 کے انتخابات جن کے نتیجے میں آج کی مسلم لیگ نواز حکومت بر سرا قتدار ہے بقول اس وقت کے صدر مملکت کے جعلی تھے؟ تیار کئے گئے تمام نتائج انجینئرڈاوربوگس تھے؟اگرریٹرننگ افسران اور بیرونی ضامنوں کی خواہشات کے مطا بق ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کو کس طرح جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ پھر پی پی پی کس طرح کہہ رہی ہے کہ عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کا مطا لبہ غلط ہے؟جب مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان سمیت میاں نواز شریف کے سب اتحادی الزام لگاچکے ہیں کہ یہ انتخابات دھاندلی کی پیدا وار تھے تو پھر اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی ناجائز حکومت سے کیوں چمٹے رہنا چاہتے ہیں ؟۔پھر عمران خان کے قبل از وقت انتخابات کے مطا لبے کو ملک میں انتشار اور جمہوریت دشمنی کا نام کیوں دیا جا رہا ہے؟
''کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔۔۔ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ جناب زرداری سے اب کیا کہیں کہ حضور والا یہی تو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری بار بار کہتے رہے یہی تو ان کا اسلام آباد کی ڈی گرائونڈمیں دیا جانے والا وہ دھرنا تھا جس کے بپھرے ہوئے سیلاب سے بچانے کیلئے اسی جمہوریت مخالف جماعت کو پوری پی پی پی اور اس کے اتحادیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا۔۔۔۔ بقول آصف علی زرداری دھاندلی سے ہر بار دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والے جمہوریت دشمن کو اپنے پنجوں کے نیچے لے کر افواج پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو تقاریر اور فرمودات پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوانوں اور ٹی وی کی سکرینوں پر ان کی طرف سے کی گئیں اگر ان کی باز گشت آصف علی زرداری اور بلا ول بھٹو کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلا کر اس میں شریک لیڈران کو سنائی جائیں تو ہو سکتا ہے کہ بہت سے اپنے ضمیرکی آواز کے بوجھ تلے دب کر اپنے حواس کھو بیٹھیں۔
زمانہ قیامت کی چال چلتے ہوئے کچھ ایسے ایسے یو ٹرن دکھا تا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔ عمران خان نے تو قومی اسمبلی کے صرف چار حلقے کھولنے کی بات کرتے ہوئے پاکستان کے ایک ایک ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کہیں سے بھی شنوائی نہ ہوئی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس ملک میں کوئی دیو اور بہت بڑا جن پھر گیا ہے جس نے ہر ذمہ دار کے بولنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر لی ہیں۔ لالک چوک لاہور سے دھاندلی کے خلاف شروع کیا گیا احتجاج کا یہ سلسلہ ایک برس تک چلتا رہا۔۔۔ عمران خان نے ریٹرننگ افسران کی بات سننے کے با وجود یہی کہا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کو لانے کیلئے قومی اسمبلی کے صرف چار حلقوں کو کھول دیا جائے جن میں خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، جہانگیر ترین اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے حلقے شامل تھے۔۔جن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ کس طرح بچالئے گئے۔
امریکہ اور برطانیہ کی موجو دگی میں جو معاہدہ کیا گیا اس میں یہی تھا کہ مرکزی حکومت کیلئے پہلی باری آصف علی زرداری کی ہو گی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پنجاب میں نوازشریف اور سندھ میں زرداری حکومت کریں گے اور جب یہ اپنے پانچ سال مکمل کر لیں گے تو ہم پہلے کی طرح نئے انتخابات کرا دیں گے جس میں دوسری باری کیلئے مرکز میں نواز شریف اور باقی اپنے اپنے صوبوں کیلئے وہی پرانی شرائط لاگو رہیں گی۔۔۔۔اب آپ سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو زاور گڑھی خدا بخش میں کی جانے والی تقاریر کے ٹیکسٹ کو ایک بات پھر سن لیجیے ''ہم نے نواز سے کہا تھا کہ چار سال تک ہم کوئی سیا ست نہیں کریں گے ہلکا پھلکا سیاسی ٹوپی ڈرامہ کرتے رہیں گے لیکن آپ کیلئے کسی قسم کی مشکلات پیدا نہیں کریں گے بلکہ اگر کسی بھی وقت آپ کی حکومت کیلئے کسی بھی جانب سے پریشانی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا مل کر مقابلہ کرنے کیلئے آپ کا بھر پور ساتھ دیں گے‘‘۔۔۔ میڈیا کے ہر گروپ اور چینل کی فائلیں آج بھی گواہی دیں گی کہ طویل عرصے بعد لندن امریکہ ا ور دبئی میں قیام کے بعد جب سابق صدر زرداری ذوالفقار علی بھٹو کی برسی میں شرکت کیلئے لاڑکانہ پہنچے تو انہوں نے گڑھی خدا بخش کی قبروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نوازشریف کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا '' ہم اپنی امانت واپس لینے کیلئے آئے ہیں‘‘ اور ہماری یہ امانت آپ کو واپس دینی ہو گی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ نے یہ حکومت انتخابات جیت کر نہیں بلکہ اپنے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی مدد سے حاصل کر رکھی ہے جس پر ہم چار برس تک خاموش رہے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔۔۔اور یہی الزام سابق صدر نے مئی 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی کامیابی کے تیسرے دن بحیثیت صدر پاکستان اور نگران حکومتوں کے سب سے بڑے نگران ہونے کی حیثیت سے بلاول ہائوس لاہور میں سینئر صحافیوں کے ایک نمائندہ وفد سے گفتگو کے دوران لگائے تھے۔
کیا آپ اسے عمران خان کی ایک اور کامیابی تسلیم کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہیں کہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا اسلام آباد دھرنا جمہوریت کے خلاف کوئی سازش نہیں بلکہ جمہوریت دشمنوں کے خلاف جہاد تھا۔۔۔کیا ایک برس تک پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان میں آپ کی ترقی پسند اور لبرل کہلانے والی پی پی پی کے لیڈران نے جمہوریت کے خلاف جو بیان بازی کی‘ اس کی میڈیا پر آ کر معذرت کرنا پسند کریں گے؟۔اب یہ بات تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے کہ جو ڈیشل کمیشن کی رپورٹ جمہوریت کی فتح نہیں بلکہ جمہوریت کی بد ترین شکست تھی؟!!