کچھ اندازہ نہیں کہ ایسا کب سے ہو رہا ہے مگر ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انگریزوں کے دور ہی میں یہ سب کچھ شروع ہوچکا ہوگا۔ جب ہم کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو پھر کسی سپر پاور میں بھی اتنا دم کہاں کہ ہمیں روکے یا ٹوکے۔ آج بھی ہم اپنی مرضی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور غلامی کے دور میں ایسا ہی کر رہے تھے۔ سرکاری اسکولز ہی کا معاملہ لیجیے۔ ہمارے ہاں سرکاری اسکول جس انداز سے چلائے جارہے ہیں وہ ایسا انوکھا ہے کہ دنیا دیکھے تو انگشت بہ دنداں رہ جائے، پہروں ہوش و حواس سے محروم رہے۔
دنیا بھر میں اسکول اور بالخصوص سرکاری اسکول اب تک ''روایتی‘‘ طریقوں سے چلائے جارہے ہیں اور روایتی تعلیم ہی دے رہے ہیں۔ دنیا چونکہ ''بصیرت‘‘ سے محروم ہے اس لیے اب تک سمجھ نہیں پائی کہ multi-tasking کا تصور ہمارے سرکاری اسکولز سے نکلا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین آج جس ''ملٹی ٹاسکنگ کا غلغلہ بلند کیے ہوئے ہیں اُس پر ہمارے سرکاری اسکولز ایک زمانے سے کاربند ہیں اور انداز ایسا ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔
بات اگر سندھ کے سرکاری اسکولز کی ہو تو معاملہ مُڑ کر دیکھنے پر پتھر کا ہو جانے جیسا معلوم ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ بہت سے سرکاری اسکولز میں طلباء و طالبات تو دکھائی نہیں دیتے اس لیے یاروں نے طے کر رکھا ہے کہ عمارت کو بے مصرف چھوڑنے سے بہتر ہے کہ اُس سے کچھ کام لیا جائے۔ چلیے، بھینسیں ہی باندھ دیتے ہیں تاکہ علاقے کے لوگ اسکول کی عمارت سے تعلیم کشید نہ کرسکیں تو نہ سہی، دودھ ہی سے مستفید ہوں! غالبؔ نے بھی تو کہا ہے ؎
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے
کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ ایک دیہی علاقے کے سرکاری اسکول کے حوالے سے خبر آئی کہ اُس کی ویرانی سے پریشان ہوکر کچھ لوگوں نے ''از راہِ ترحّم‘‘ وہاں رقص و سرود کی محفل سجائی۔ اس کی وڈیو بھی چینلز پر دکھائی گئی۔ معاملہ یہ تھا کہ شادی کی تقریبات کے ایک حصے کے طور پر اسکول کے ایک ہال نما کمرے میں رقص کا اہتمام کیا گیا۔ شغل میلے کے طور پر ہیجڑے نچائے گئے۔ ویڈیو سامنے آئی تو ہر طرف سے اس معاملے پر طنز و تشنیع کے تیر برسائے جانے لگے۔ ہمیں حیرت ہے کہ جو کچھ ہوا اُس پر حیرت کیوں ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری اسکولز کا جو حال ہے اُس کے پیش نظر یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک عمارت کو لوگوں کی دل بستگی کا سامان کرنے کے لیے بروئے کار لایا گیا۔ اور یہ ایک نیا آئیڈیا بھی تھا کہ سرکاری اسکول کی عمارت کو فراغت کے لمحات میں شادی کی تقریبات کے لیے کرائے پر دیا جاسکتا ہے۔ گویا سرکاری اسکول کی عمارت ڈھنگ سے تعلیم دے نہ دے، سرکاری خزانے میں کچھ نہ کچھ اضافے کا ذریعہ تو بن ہی سکتی ہے!
سندھ کے دیہی علاقوں میں بہت سے سرکاری اسکول وڈیروں اور بزرگوں کی اوطاق کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس پر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ کیا یہ اچھی بات ہے کہ اسکول کی خالی پڑی ہوئی عمارت کو مختلف نشوں کے عادی افراد اپنی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کریں؟ اگر نشئی نہیں آئیں گے تو خالی عمارت میں جن بھوت بسیرا کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں ''خانۂ خالی را دیو می گیرد‘‘ والی کہاوت کا بھرم بھی تو رکھنا ہوتا ہے!
اور ہم یہ بھی بھولتے ہیں کہ ہوٹل یا تھڑے پر بیٹھ کر باتیں کرنا شرفاء کے اطوار کا حصہ نہیں۔ ارے بھئی، ہوٹل پر بیٹھ کر بتیانے سے کہیں بہتر ہے کہ اُس جگہ گپ شپ لگائی جائے جہاں نئی نسل کو علم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، اگر اسکول کو اوطاق کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو بچوں کو بھی ڈھنگ سے بولنے کی تحریک ملے گی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ فی زمانہ ڈھنگ سے بولنا کس قدر اہم ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ بہتر انداز سے گفتگو کے فن کی محتاجی سے پرے نہیں۔ اگر بچوں کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ہے تو انہیں ڈھنگ سے بولنا سکھانا پڑے گا اور اس کے لیے اسکول کو اوطاق کے درجے میں استعمال کرنے سے بہتر طریقہ کیا ہوسکتا ہے! پس ثابت ہوا کہ وڈیروں کا ہر کام لازمی طور پر نقصان دہ نہیں ہوتا، کبھی کبھی تخریب میں تعمیر کی کوئی صورت بھی مضمر ہوتی ہے!
ہمارے ہاں سرکاری اسکولز کے اور بھی استعمالات ہیں۔ معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے پیش نظر سرکاری اسکولز کی عمارات کا مصرف ہی بڑھتا نہیں جارہا بلکہ اِس میں تنوع بھی نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ کہیں کوئی تاجر موقع غنیمت جان کر سرکاری اسکول کے کسی کمرے کو اپنے مال کے لیے گودام کے طور پر بھی بروئے کار لاتا ہے۔ کوئی کسی کمرے کو اپنی بھینسوں کا چارا رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ گویا اِس بات کا اشارا ہے کہ حکومت چاہے تو سرکاری اسکولز کی عمارت کو متبادل مصرف کے لیے، جزوی طور پر ہی سہی، کرائے پر دے کر آمدن کا ایک اچھا ذریعہ کھڑا کرسکتی ہے۔
بات سرکاری وسائل کے استعمال کی ہو تو معاملہ یہ ہے جناب کہ ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
یعنی جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہمارے پڑوسی بھی ہیں۔ سرکاری اسکولز کے بارے میں جو ہماری سوچ ہے کچھ کچھ ویسی ہی سوچ پڑوس میں بھی پائی جاتی ہے۔ بھارتی ریاست اُتر پردیش کے شہر گورکھ پور میں ایک سرکاری پرائمری اسکول کی پرنسپل نے سرکاری اختیارات کو ذرا سا زیادہ کیا استعمال کرلیا، ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ محترمہ کی وڈیو بھی بنالی گئی اور وہ وائرل بھی ہوگئی۔ ایک تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ اب ہر معاملہ وائرل ہو جاتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ پرنسپل نے ڈیوٹی کے دوران اسکول کے ایک کلاس روم میں فیشل کرالیا! یہ ہے رائی کا وہ دانہ جس سے پربت کھڑا گیا ہے۔ facial کہاں سے نکلا ہے؟ face سے، نا۔ اب اگر کسی کے پاس face ہے تو facial کرانے پر اتنا شور شرابہ کیوں؟ تنقید کرنے والے شاید بھول گئے کہ اُستانی کا کام بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ اب جناب، لوگ چاہتے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کی تو آرائش ہو مگر اُستانی کی آرائش نہ ہو! یہ تو ناانصافی والی بات ہوئی۔ ایک ذرا سا فیشل ہی تو کرایا ہے ع
ڈاکا تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے!
اسکول کے اوقات میں فیشل کرانے سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ پرنسپل صاحبہ ڈیوٹی پر آئی تھیں۔ یہ بھی کیا کم ہے! ہمارے ہاں تو گھوسٹ اساتذہ بھی ہیں جو سرکاری کاغذات میں رہتے ہیں، وہاں سے نکل کر کبھی اسکول کی عمارت میں قدم نہیں رکھتے! کون جانے کہ یہ پرنسپل صاحبہ بچیوں کو فیشل وغیرہ کے فن میں طاق ہونے کا موقع دے رہی ہوں۔ یعنی اگر وہ ڈھنگ سے تعلیم نہ بھی پاسکیں تو تربیت کے ذریعے ڈھنگ سے کچھ کمانے ہی کے قابل ہوجائیں!
اس خبر سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سرکاری اسکولز کو مختلف مقاصد کے لیے بروئے کار لانے کے حد تک تو سرحد کے دونوں طرف یکساں سوچ کام کر رہی ہے یعنی دونوں ہی ایک پیج پر ہیں! جب سرکاری اسکول اپنا بنیادی کام نہیں کریں گے تو لوگ اُنہیں بے مصرف تھوڑا ہی رہنے دیں گے، کچھ نہ کچھ تو کریں گے تاکہ سرکاری وسائل ضائع نہ ہوں! اور یہ ''فلسفہ‘‘ اب سرکاری اسکولز تک کہاں محدود ہے؟ زندگی کا ہر معاملہ یہی کہانی سنا رہا ہے۔