پاکستانی معاشرے کو درپیش مسائل میں ایک اہم مسئلہ دہشت گردی کا ہے جس کا شکار عام عوام ہیں؛ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان حملوں کا دائرۂ کار تعلیمی اداروں اور مذہبی عبادت گاہوں تک پھیل گیا ہے۔ دہشت پسندی کا خمیر انتہا پسند سوچ سے اٹھتا ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جس میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس وقت پاکستان کی آبادی کا 35 فیصد حصہ اُن نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 15سال سے کم ہے۔ اگر ان نوجوانوں کو مناسب تعلیم و تربیت فراہم کی جائے تو وہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ بن سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہی نوجوان ہمارے لئے بوجھ بن جائیںگے۔ آج کل دہشت گردوں کا ایک بڑا نشانہ یہی نوجوان ہیں‘ جن کے ذہنوں کو غیر محسوس طریقوں سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔
اس سے پیشتر کہ ہم انتہا پسندی روکنے کے اقدامات کے بارے میں بات کریں، مناسب ہوگا کہ ان وجوہات کا کھوج بھی لگائیں جن سے اس سوچ کو فروغ ملتا ہے۔ انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی ہے۔ لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بھی اپنی آواز متعلقہ حلقوں تک نہیں پہنچا سکتے۔ رفتہ رفتہ سینوں میں دبی ہوئی یہ آواز احتجاج کی بلند لَے میں ڈھل جاتی ہے۔ معاشرے میں جنس، رنگ، نسل اور کلاس کے امتیازات معاشرے میں اخراج (Exclusion) کا باعث بنتے ہیں۔ ان امتیازات (Discriminations) کی بنیاد پر زور آور طبقے بے وسیلہ لوگوں کو غیر (Others) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یوں زور آورطبقے کے افراد معاشرے میں اہم جگہوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور بے وسیلہ لوگوں پر نوکریوں، انصاف اور اظہار کے دروازے بندکر دیئے جاتے ہیں۔
اسی طرح امتیاز کی ایک شکل تعلیمی عصبیت بھی ہے کیونکہ تعلیمی ادارے بھی معاشرتی مراتب کی بنیاد پر قائم ہو رہے ہیں۔ اشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں صرف امراء ہی اپنے بچوں کو بھیج سکتے ہیں کیونکہ ایسے مہنگے اداروں میں عام لوگ تو اپنے بچوں کو پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسی طرح ملک کا عدالتی نظام بہت مہنگا اور سست رو ہے اور ایک عام آدمی کو انصاف کی دہلیز تک رسائی میں ایک عمر بیت جاتی ہے۔ سیاست کے میدان میں بھی عام آدمی کا داخلہ مشکل ہی نہیں بلکہ بڑی حد تک ناممکن بنا دیا گیا ہے کیونکہ انتخابات میں مقابلہ کرنے اور جیتنے کے لئے بھی برادری اور مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ معاشرتی، عدالتی، سیاسی اور تعلیمی اخراج (Exclusion) کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں پر مواقع اورسہولیات کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ لوگ آسانی سے دہشت گردوں کے آلۂ کار بن سکتے ہیں۔
آئیں! اب ہم ان اہم سماجی اداروں پر نظر ڈالیں جوکہ بچوں کی شخصیت اورعقائد کی تعمیر میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم ادارہ خاندان ہے۔ یہ خاندان ہی ہے جہاں بچے کے ابتدائی تصورات تشکیل پاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس تیز اور مصروف طرزِ زندگی کی بدولت والدین کے پاس بچوں کے لئے بہت کم وقت بچتا ہے۔ بچے کی زندگی کے ابتدائی سال ٹیلی وژن سکرین کے سامنے گزر جاتے ہیں۔ جہاں ان کے وقت کا بہت بڑا حصہ کارٹونوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ کارٹونوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف بچوں کو جھوٹ اور فریب کی طرف راغب کرتی ہے بلکہ غیر محسوس اندازمیں ان کے اندر تشدد کے جذبات بھی ابھارتی رہتی ہے۔ جوں جوں بچے بڑے ہوتے ہیں ان کا سامنا ایکشن فلموں اور فری سٹائل ریسلنگ سے ہوتا ہے۔ ریسلرز کو لگنے والی چوٹوں سے‘ دیکھنے والوں کو ایک خاص طرح کی لذت ملتی ہے۔ اس طرح کے پروگرام بچوں میں تشدد کے جذبات پیدا کرتے ہیں اور انہیں دوسروں کوتکلیف دینے سے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خاندان کا بنیادی ادارہ عضوِ معطل بن کر رہ گیا ہے اوراس کی جگہ میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا نے لے لی ہے۔
خاندان اور میڈیا کے علاوہ ایک اہم معاشرتی ادارہ سکول، کالج اور یونیورسٹی ہے۔ اس معاشرتی ادارے کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہ نوجوان نسل کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے مرکزی دھارے کے سکولوں میں تعلیم کا بنیادی مقصد ایک نسل سے دوسری نسل تک علم، مہارتوں اور اقدار کی منتقلی ہے۔ اس نظام میں علم کو ایک جامد اکائی سمجھا جاتا ہے۔ سکولوں میں امتحانات قابلیت کے بجائے یادداشت کا جائزہ لیتے ہیں۔ امتحانی سوالات زیادہ تر ''کیا‘‘ (What) کے گرد گھومتے ہیں ۔ ''کیوں‘‘ (Why) اور ''کیسے‘‘(How) جیسے سوالات کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ یوں مروجہ امتحانی نظام میں تخلیقیت اورجدت کی بہت گنجائش بہت کم ہے۔ اگرطالب علم سوا لوں کے گھڑے گھڑائے جوابات نہیں دیتا تو اس کی کامیابی مشکوک ہو جاتی ہے۔ اس طرح بہت سے کلاس رومز میںتو طلبہ کے سوال پوچھنے کی باقاعدہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اختلاف رائے اور متبادل نظریا ت پر قدغن لگا دی جاتی ہے۔ یوں اکثر کمرۂ جماعت میں تخلیقی سوچ کی افزائش کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ یہی طلبہ جب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہنچتے ہیں تو وہ فرمانبرداری کے تقاضوں سے آگاہ ہوتے ہوئے سوال نہیں پوچھتے اور مہیا کئے گئے مواد کی تیاری کر کے اچھے گریڈزکے حصول میں ہی اپنی فلاح سمجھتے ہیں۔
اسی طرح ہم نصابی سرگرمیاں کسی زمانے میں تعلیمی اداروں کی جان ہوا کرتی تھیں۔ ان سرگرمیوں میں مباحثے، مشاعرے، موسیقی، ڈرامے، بیت بازی مضمون نویسی اور کھیلوںکے مقابلے شامل تھے۔ یہ سرگرمیاں حقیقی معنوں میںطلبہ کی شخصیت سازی کرتی تھیں۔ تعلیمی محققین کا خیال ہے کہ اس طرح کی سرگرمیاں طلبہ میں مثبت رجحان پیدا کرتی ہیں اور وہ اپنے جذبات کا ایک مثبت سمت میں ا ظہار کر پاتے ہیں اور یوں وہ سماجی گھٹن کا شکار بھی نہیں ہوتے لیکن بدقسمتی سے بہت سے تعلیمی ادا روں میں یہ سرگرمیاں ناپید ہو گئی ہیں۔ اس طرح کی مثبت سرگرمیوں کی غیر موجودگی میں بہرحال اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ طلبہ کسی غیر صحت مند سرگرمی کی طرف نہ راغب ہو جائیں۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لئے ایک جامع قسم کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو قابوکرنے کے لئے ایک طرف توطاقت کا قانونی استعمال کیا جائے اور دوسری طرف ایک جامع حکمتِ عملی تشکیل دی جائے اور ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے کوشش کی جائے جہاں لوگوں کو رنگ، نسل، زبان اور طبقاتی بنیاد پر تقسیم نہ کیا جائے۔ اس حکمتِ عملی کا محور تعلیم اور تعلیمی اداروں کو ہونا چاہئے۔ تعلیمی اداروں کے نصاب میں فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے جس میں بنیادی انسانی اقدار (values)، رواداری ، برداشت، حسنِ اخلاق کو بھی جگہ دینی چاہئے۔ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ہم نصابی سرگرمیوں میںمشغول کرنا بھی اہم ہے۔ یوں طلبا کی توانائیاں مثبت سرگرمیوں میں صرف ہوتی ہیں۔ اسی طرح اساتذہ کی موثر تربیت بھی وقت کا تقاضا ہے۔ ایسی تعلیمی مہارتوں کی ضرورت ہے جو طلبہ میں تنقیدی فکر پیدا کریں تاکہ وہ ملک کے ذمہ دار شہری بن سکیں۔ اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب علم کو ایک جامد چیز نہ سمجھا جائے اور طلبا کوصرف علم منتقل نہ کیا جائے بلکہ ان میں تنقیدی فکر و نظر کو اجاگر کیا جائے اور ان کی سوچ کو بھی اسی قالب میں ڈھالا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ معاشرے کے فعال فرد کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سوال بھی پوچھیں گے۔ فرسودہ رسومات کو چیلنج کریںگے اورمتبادل اور صحت مند رجحانات کے فروغ کے ذریعہ بنیںگے۔