تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-11-2017

روداد…(1)

محترم اور مقبول دلیل ڈاٹ کام سے ایک انٹرویو‘ چند ماہ میں جس نے ژولیدہ فکری پھیلانے والوں کو منطقی اور مستحق انجام سے دو چار کر دیا۔
سوال: صحافت کے کارزار میں طویل عرصہ گزارا، آغاز کیسے ہوا اور کن مشکلات اور مسائل کا سامنا رہا؟
ہارون الرشید: 49 برس بیت چکے۔ جولائی 1968ء میں آغاز کیا۔ مشکلات جس طرح ہر ایک کو درپیش ہوتی ہیں، مجھے بھی ہوئیں۔ رحیم یار خان میں روزنامہ ''وفاق‘‘ کے دفتر میں ایک سال تربیت پائی۔ پھر مجھے صدر دفتر لاہور بلایا گیا۔ مگر یہ کہا کہ آپ کو کرایہ ملے گا نہ کوئی اور اخراجات ۔میں لاہور پہنچا۔ واپسی کا کرایہ میرے پاس نہ تھا۔ رحیم یار خان میں خبروں کی ایڈیٹنگ کرتا تھا۔ انہوں نے میرے سامنے ''پاکستان ٹائمز‘‘ رکھ دیا۔ ڈرتے ڈرتے ترجمہ کیا۔
اگلے ہی دن کام شروع کردیا، تنخواہ 2 سو روپے ماہوار۔ لاہور میں کوئی جاننے والا بھی نہیں تھا۔ کسی کے ساتھ کمرہ شیئر کرنا پڑا۔ 25 روپے ماہوار۔ تنخواہ میں گزارہ ممکن تھا، لیکن عادات خراب۔ مثلاً مصطفی صادق کہنے لگے کہ آپ ''نیو ہوٹل‘‘ سے چائے کیوں منگواتے ہیں؟ میں نے کہا اس لیے کہ میں مکس چائے نہیں پیتا۔ بولے: پھر تو ساری تنخواہ اسی میں چلی جائے گی۔ میں نے کہا: چلی جائے۔
اکثر پیدل چلنا پڑتا۔ صبح 11 سے رات گیارہ بجے تک کام کرنا ہوتا۔ وہ بھی اس طرح کہ آپ نیوز روم میں بیٹھے ہیں، حکم ہوا کہ فلاں جلسے میں چلے جائیں، واپس آئے تو بتایا جاتا کہ اب پریس کانفرنس میں چلے جائو۔ ٹینڈر نوٹس کا ترجمہ کردیں یا ریڈیو مانیٹرنگ کریں۔ اصل میں یہی خوش بختی تھی کہ اخبار کے سب چھوٹے بڑے کام سیکھ لیے۔ میرے پاس مگر کوئی متبادل بھی نہیں تھا۔ پھر یہ خواہش بھی تھی کہ طعنہ بھی نہ سننا پڑے۔ احساس کی بھٹی پہ جی سلگتا رہتا۔ 8 ماہ کے بعد مجھے روزنامہ کوہستان میں ملازمت مل گئی۔ انٹرویو دیا تو بتایا گیا: کام تو آپ اچھا کرلیتے ہیں، لیکن دیر سے آئے۔ پہلے آتے تو آپ کو رپورٹنگ میں رکھ لیتے اور تنخواہ بھی زیادہ ملتی۔ اس وقت ہمارے پاس نیوز روم میں جگہ ہے، تنخواہ کم ملے گی۔ چیف رپورٹر نے ٹیسٹ لیا۔ کہنے لگے: یہ خوب ایڈیٹنگ کرتا ہے۔ رپورٹنگ بھی کرتا ہے۔ مجبوراً اسی تنخواہ پر کام شروع کردیا،جو چھوٹے اخبار میں ملتی تھی۔ البتہ مواقع فراواں ملے۔ کچھ دن کے بعد عالی رضوی صاحب نے کہا کہ اردو اس کی اچھی ہے۔ ہمیں ادارتی صفحے پر ایسے آدمی کی ضرورت ہے۔
رضوی صاحب کے ساتھ کام شروع کیا، تو بہت کچھ سیکھا۔ اچانک ایک دن کہا: ادارتی نوٹ لکھو۔ شروع میں گھبراہٹ ہوئی، ایک شخص جس کی عمر 20 سال ہے، اسے ادارتی نوٹ لکھنے کا حکم دیا گیا‘ کسی نہ کسی طرح لکھ ڈالا۔ انہوں نے کچھ تصحیح کی اور کہا ٹھیک ہے۔ کچھ دن بعد کہا کہ کالم لکھو۔ یہ کالم بڑا عجیب سا تھا ''آج کی باتیں‘‘۔ جیسے نوائے وقت کا ''سرِراہے‘‘، تین حصوں پر مشتمل۔ کالم لکھا، عالی صاحب نے کچھ اصلاح کی، چند دن بعد اصلاح کرنا چھوڑدی اور کہا کہ تم ٹھیک لکھ رہے ہو۔ رفتہ رفتہ ادارتی صفحہ سنبھال لیا۔ بڑی محنت کی، پروف کی کوئی غلطی نہ رہے، کسی لفظ پر اعتراض نہ ہو۔ عالی صاحب نے ایک شفیق استاذ کی طرح ہاتھ تھاما۔ گھر سے کھانا منگوایا کرتے، دوپہر میں ہمیں بھی شریک کرتے۔ مجھے اور خلیل ملک مرحوم کو۔ وہ بے چارہ بہت تاخیر سے آیا تھا۔ لائق آدمی تھا مگر پروف ریڈر کی نوکری ہی مل سکی؛ اگرچہ کام سب ایڈیٹر کا۔ 
ایک چھوٹا سا کمرہ مجھے دے دیا گیا۔ مسائل پیدا ہوتے تو راہنمائی بھی کرتے، مثلاً: ایک دن سعید اظہر صاحب نے کالم لکھا۔ میں نے کچھ تبدلی کی تو انہوں نے کہا کہ تم نہیں کرسکتے۔ میں پریشان کہ اب کیا کروں۔ میں نے کہا ایڈیٹنگ تو ہوگی۔میں سعید اظہر صاحب سے عمر میں کئی سال چھوٹا، تجربے میں کہیں کم تھا۔ عالی رضوی صاحب تک بات پہنچی تو انہوں نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو، مگر بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی کہا کہ زیادہ سخت ایڈیٹنگ نہ کرو، کوئی مسئلہ ہو تو مجھ سے پوچھ لیا کرو۔ رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہوگیا۔ ضرورت پڑی تو مجھے نیوزروم میں سعید اظہر صاحب کے پاس بھیج دیا گیا‘جو سٹی ایڈیشن کے انچارج تھے۔ وہ پریشان کہ یہ تو میری بات نہیں سنے گا۔ لیکن رفتہ رفتہ سارا کام میرے سپرد کردیا۔ شام ڈھلتی تو گھومنے پھرنے چلے جاتے۔ تاخیر سے لوٹ کر آتے۔ آج بھی ایسے ہی مردِ آزاد ہیں۔ نوجوانوں کا سا‘ لاابالی پن۔کچھ عرصے بعد ''کوہستان‘‘ کے حالات خراب ہوئے اور اخبار بند ہوگیا۔
سوال: آپ نے ''مساوات‘‘ میں بھی کچھ عرصہ کام کیا، حالانکہ یہ پیپلز پارٹی کا اخبار تھا۔ 
ہارون الرشید: روزنامہ ''کوہستان‘‘ چھوڑنے کے بعد میں ایک دو اخبارات سے وابستہ رہا۔ ایک تو وہی ''وفاق‘‘ اور دوسرا روزنامہ ''جمہور‘‘،جس کے کچھ وسائل چوہدری ظہور الٰہی مرحوم نے مہیا کیے تھے۔ ''مساوات‘‘ سے اچھی آفر ملی۔ خدشات تو تھے کہ پیپلز پارٹی کا اخبار ہے، لیکن ہمیں نیوزروم میں کام کرنا تھا۔خبر کا ترجمہ‘ تلخیص اور تصحیح۔ عباس اطہر صاحب نے کہا آپ کام کریں، ان شاء اللہ کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ ان سے نیازمندی تھی۔ اُسی دن کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے۔ کہیں کچھ لڑائی جھگڑا تھا، شاہ صاحب نے کہا کہ ذرا وہاں جاؤ اور پتا کرو کہ معاملہ کیا ہے۔ میں نے بڑا سخت فقرہ کہا کہ میں یہاں نوکری کے لیے آیا ہوں، مخبری کرنے نہیں۔ ایک سناٹا سا طاری ہوا۔اس کے باوجود عباس اطہر نے مجھے گوارا کیا۔ 
کچھ مسائل بھی رہے‘ مثلاً ایک بار بھٹو صاحب کے خلاف کچھ چھپنے پر معطل بھی ہوا، لیکن بحیثیت مجموعی ماحول خوشگوار تھا۔ سیاسی پارٹیوں میں پیپلزپارٹی کے لوگ‘ سب دوسروں سے زیادہ روادار ہیں۔ میں ان کے خلاف بات بھی کرتا ۔ ایک آدھ شخص دبی اور کوئی اونچی آواز میں اعتراض بھی کردیتا۔ لیکن عباس اطہر صاحب کہتے، یہ دوسروں سے زیادہ کام کرتا ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔پھر انہوں نے مجھے ''ہفت روزہ نصرت‘‘ کا ڈپٹی ایڈیٹر بنادیا۔ ہم نے میگزین کو بدل ڈالا۔ سیاسی تو ہم کرنہ سکتے تھے، نہ ہی وہ چاہتے تھے۔ جس حد تک گنجائش تھی، ہم نے اس میں تبدیلیاں کیں۔ 1977ء میں جب تحریک چلی تو میں نے سوچا کہ میں پیپلز پارٹی کے خلاف ہوں، اب یہاں نہیں رہنا۔ 
خوف اور خواہش کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی‘ اب یہاں نہیں رہنا
میں نے احتجاج کیا اور استعفیٰ دے دیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ پورے واجبات ملے۔ یہاں تک کہ نوٹس پیریڈ کے پیسے بھی نہیں کاٹے۔
استعفے کے چند جملے یاد آتے ہیں ''بے شمار قبریں زمین پر اُبھر آئی ہیں۔ اس سفاکی کا کوئی جواز نہیں۔‘‘
اس دوران کچھ کام کا چرچا ہوا اور کچھ استعفے کاجو عبدالقادر حسن کے ہفت روزہ ''افریشیا‘‘ میں چھپ گیاتھا۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کی طرف سے پیشکش ہوئی۔ مشکل یہ رہی کہ وہ بہت زیادہ توقعات رکھنے والے آدمی ہیں۔ جس کسی سے واسطہ ہو‘ لیموں کی طرح نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ اسی ہنگام ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے یاد کیا جو اب ملک بھر میں ضرورت مند طلباء اور طالبات کے پدرِ شفیق ہیں۔ میں نے تین ماہ ڈٹ کر ان کے ساتھ کام کیا۔ (باقی صفحہ13پر)
جب انہوں نے منیر احمد منیر کو فارغ کیا‘اور اس وقت کیا جب وہ اپنی والدہ کی وفات پرسیالکوٹ میں تھے، تب میں نے کہا کہ اس ماحول میں‘ مَیں ملازمت جاری نہیں رکھ سکتا۔ ایسی بے رحمی کی میں تاب نہیں لا سکتا۔استعفیٰ دیا اور اُٹھ کر چلا آیا۔ پھر شامی صاحب نے رابطہ کیا، انہیں احساس ہوا کہ یہ شخص کسی تجربے کے بغیر ہفت روزہ ''زندگی‘‘ میں کام کے مشکل تقاضے پورے کرسکتا ہے۔ کم وبیش وہی تنخواہ مجھے آفر کی جو اعجاز حسن قریشی صاحب دے رہے تھے۔
اب صورتِ حال قدرے بہتر ہوگئی۔ استعفیٰ تو ہر چند ماہ بعد دے دیا کرتا کہ افتادِ طبع سے مجبور تھا۔ کچھ عرصہ اسی طرح کام چلتا رہا۔ 1980ء کے آخر یا 1981ء کے اوائل میں مختار حسن مرحوم نے ''ایجنسی افغان پریس‘‘ نام سے ایک ادارہ بنایا، چند ماہ وہاں بھی کام کیا، لیکن دل نہیں لگا۔ کوفت ہوتی کہ کوئی سسٹم نہیں ہے۔ میں پیشہ ورانہ تقاضوں کی پابندی کا آرزومند تھا۔ مہ وسال یونہی گزرتے رہے۔ کبھی ایک کبھی دوسرا ادارہ۔ یہ 1988ء تھا جب روزنامہ جنگ راولپنڈی سے وابستہ ہوا۔ نذیر ناجی صاحب نے ایک دن میرا بہت ہی مذاق اُڑایا کہ اچھا بھلا لکھ لیتے ہو اور نیوز روم میں نوکری کرتے ہو۔
مارشل لا نافذتھا۔ جیسے ہی جنرل محمد ضیاء الحق کی گرفت ڈھیلی پڑی‘ صحافت کے لیے حالات سازگار ہونے لگے، پابندیاں نرم ہونے لگیں، میں نے وہیں جنگ میں رہتے ہوئے جرائد کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اسی دوران میں ڈاکٹر اسرار احمد کے بھائی اقتدار احمد مرحوم کے ہفت روزہ ''ندا‘‘ میں ڈپٹی ایڈیٹر کی آفر ہوئی۔ کچھ عرصہ کام کیا اور وہاں سے پھر ''زندگی‘‘ میں چلا آیا، جس کے مدیر اب مجیب الرحمن شامی تھے۔(جاری)
محترم اور مقبول دلیل ڈاٹ کام سے ایک انٹرویو‘ چند ماہ میں جس نے ژولیدہ فکری پھیلانے والوں کو منطقی اور مستحق انجام سے دو چار کر دیا۔
ناتمام

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved