تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-03-2013

خدا کرے

بے آب وگیاہ پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان ادبی اعتبار سے بڑی زرخیز ہے۔ سبّی میلہ ایک بڑی پرانی روایت ہے اور مشاعرہ اس کا ایک ضروری حصہ رہا ہے ۔ پچھلے چند سالوں سے مشاعرہ اس میلے کا سب سے زیادہ نظرانداز کیا جانے والا حصہ تھا۔ سبّی کا موجودہ ڈپٹی کمشنر عزیز احمد جمالی خوش ذوق آدمی ہے اور شاعری سے صرف دلچسپی ہی نہیں رکھتا بلکہ بہت سے شعرا کے اشعار موقع کی مناسبت سے سنا بھی سکتا ہے۔ یہ اسی کی دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ مشاعرہ کئی سال بعد سبی میلے کا دوبارہ حصہ بن سکا۔ سبی کے مشاعرے میں کراچی سے سلیم نواز اور ملتان سے راقم سبّی پہنچا۔ کوئٹہ سے بیرم غوری، سید نوید ہاشمی اور چند نوجوان شعرا نے ہمت کی‘ سبی سے ریاض ندیم نیازی کے علاوہ بھی کئی شاعرتھے۔ کوئٹہ سے ماڑی گیس کمپنی بلوچستان کا جنرل منیجر بریگیڈیئر(ر) سلیم گلگتی بھی کوئٹہ سے آیا تھا اور صرف سامع نہیں بلکہ شاعر کے طورپر آیا تھا ۔ سلیم گلگتی سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ ملتان میں سلیم گلگتی 1979ء میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ آیا اور کپتان بن کر رخصت ہوا۔ ہماری اس سے تب ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ان ملاقاتوں کی وجہ بھی یہ تھی کہ سلیم ہمارے بہت عزیز دوست آفتاب گلگتی کا چھوٹا بھائی تھا لہٰذا وہ ہمارا دوست کم اور چھوٹا بھائی زیادہ تھا۔ تقریباً ستائیس سال کے بعد ملاقات ہوئی تو میں نے کافی دیر بعد پہچانا ۔ سمارٹ اور دبلا پتلا نوجوان کپتان اب ادھیڑ عمر گنجے میں تبدیل ہوچکا تھا مگر اس کی طبیعت کی شوخی، زندہ دلی اور قصہ گوئی کی عادت ویسی ہی تھی۔ کوئٹہ سے بریگیڈیئر سلیم کے ساتھ بلوچستان کے نادرا کے ڈائریکٹر جنرل کرنل انیس کیانی بھی تھے۔ کوئٹہ سے سبی آتے ہوئے بریگیڈیئر سلیم اور سید نوید ہاشمی ایک مصرعے پر غزل لکھتے ہوئے آئے تھے اور ان کی اس شاعرانہ حرکت پر کرنل انیس بہت تنگ وپریشان تھے۔ واپسی پر میں بریگیڈیئر سلیم کے ساتھ تھا۔ گاڑی میں نوید ہاشمی اور کرنل انیس بھی تھے۔ واپسی کا سفر شروع ہونے سے پہلے کرنل انیس جو آتے ہوئے دو شاعروں میں پھنسا ہوا تھا‘ تین شاعر دیکھ کر پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کے ساتھ اس شرط پر جائوں گا کہ راستے میں کوئی شاعری کی بات نہیں ہوگی یا کم ازکم غزل نہیں لکھی جائے گی۔ ہم سب نے اس سلسلے میں حلفیہ بیان دیا۔ واپسی کا سفر شاعری سے یکسر محفوظ تھا مگر بریگیڈیئر سلیم کی ملتان کے بارے میں نہایت دلچسپ گفتگو کے طفیل یادگار بن گیا۔ واپسی پر سفر کے دوران ہونے والی گفتگو نے یہ بھی بھلا دیا کہ ہم سبی سے واپس کوئٹہ جارہے ہیں۔ راستہ خطرناک ہے اور گاڑی میں محض ایک کلاشنکوف بردار محافظ ہے۔ بریگیڈیئر سلیم نے پرانے دوستوں کا تذکرہ کیا تو ہم دونوں پچیس تیس سال پیچھے چلے گئے۔ بلوچستان صرف بلوچی زبان وادب ہی نہیں بلکہ اردو ادب کے حوالے سے بھی بڑا زرخیز خطہ ہے۔ عطا شاد کوئٹہ سے تعلق رکھتا تھا اور یہاں اردو شاعری کا چراغ روشن کیے ہوئے تھا۔ ملا محمد حسن براہوی اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعرتھا۔ ان کے علاوہ یوسف عزیز مگسی ، محمد حسین عنقا، آزات جمالدینی، میرگل خان نصیر ، جسٹس (ر) خدابخش مری، میرمٹھاخان مری، سید ظہور ہاشمی، نادر قنبرانی، عبدالرحمان کرد، غلام نبی راہی، پروفیسر مجتبیٰ حسین، پروفیسر کرار حسین، پروفیسر خلیل صدیقی (مجھے ایمرسن کالج ملتان میں انہیں دیکھنے اور ملنے کا شرف حاصل ہے)امداد نظامی ، نورمحمد پرواز، طاہر محمد خان، پروفیسر شرافت عباس اور سعید گوہر کے علاوہ بھی کئی نام ہیں جوآج ہم میں نہیں مگر بلوچی اور قومی ادب کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آج بلوچستان میں عبداللہ جان جمالدینی ، عین سلام، حکیم بلوچ، سرور جاوید، ایوب بلوچ، ڈاکٹر شاہ محمد مری، عابد شاہ عابد، آغا محمد ناصر، ڈاکٹرانعام الحق کوثر، آغا گل ،فردوس انور قاضی ، بیرم غوری، ڈاکٹر عبدالرحمان براہوی اور سید نوید حیدرہاشمی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ادب کی خدمت کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اور سرزمین بلوچستان کی قدیم ادبی روایات کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ قدیم بلوچی ادب اپنے ہم عصر عالمی ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے اور اس سلسلے میں مست توکلی ، جام ورک،شہ مرید، تاج محمد تاجل، ملا فاضل، سیمک، حانی، رابعہ خضداری اور مائی تاج بانو جیسی شخصیات کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ بلوچی ادب بڑا پروگریسو ادب ہے اور اس میں دیگر علاقائی ادب کے برعکس خواتین کا حصہ بڑا نمایاں ہے۔ آج منیر احمد بادینی جیسے ادب دوست بلکہ فنافی الادب لوگ بلوچستان میں زبان و ادب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وگرنہ ان حالات میں جب زندہ رہنا ایک امرِمشکل بنتا جارہا ہو بھلا ادب کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ بلوچستان میں سرکاری افسران میں ادب کی داغ بیل کا سہرا تو بہرحال اوریا مقبول جان عباسی کے سر نہیں باندھا جاسکتا کہ ان سے پہلے بھی یہ وائرس موجود تھا مگر اس وائرس کو اوریا مقبول جان نے کافی سخت جان بنادیا تھا۔ سبی میلے میں مشاعرے کو محفل موسیقی سے علیحدہ کرکے ایک باقاعدہ ایونٹ بنانے کا سہرا بہرحال اوریا مقبول جان کے سر جاتا ہے کہ 1994ء تا 1996ء جب وہ ڈپٹی کمشنر سبی تھا اس نے یہ کام کرکے مشاعرے کو ایک باوقار ایونٹ بنادیا۔ سبی میلے کا مشاعرہ کبھی پاکستان کا ایک بہت بڑا اور بھرپور مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔ اس مشاعرے میں احمد فراز، افتخار عارف، سید ضمیر جعفری ، انور مسعود ، امجد اسلام امجد، سلیم کوثر، محشر بدایونی اور بے شمار صف اول کے شعرا نے اہل سبی کو اپنے کلام سے نوازا۔ پاکستان کے تقریباً ہرنامور اور مقبول شاعر نے اس مشاعرے میں شرکت کی۔ تب یہ مشاعرے کا نہیں بلکہ شاعر کا اعزاز ہوتا تھا کہ اس نے سبی کا مشاعرہ پڑھا ہے۔ چاردن جاری رہنے والے سبی میلے میں مشاعرہ تیسرے دن تھا۔ سبی جاتے ہوئے یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ مشاعرہ اتنا بھرپور ہوگا اور رات گئے تک جاری رہ سکے گا مگر سامعین رات ڈیڑھ بجے بھی اور سننے کی فرمائش کررہے تھے۔ جرگہ ہال میں ہونے والے اس مشاعرے نے ہماری بجھتی امیدوں کا چراغ پھر سے روشن کردیا۔ سبی بلوچستان کا ایک قدیم شہر ہے اور تاریخی حوالوں سے یہ تیرہویں صدی عیسوی سے آباد ہے۔ سبی کو 1903ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ تب اس کی آبادی ساڑھے چارہزار تھی۔ وکٹوریہ میموریل ہال بھی 1903ء میں تعمیر کیا گیا۔ یہ ملکہ برطانیہ وکٹوریہ کی یاد میں بنایا گیا اور بعدازاں اسے عجائب گھر بنادیا گیا۔ کچھ عرصے پہلے یہاں ہائی کورٹ کا بنچ بنا تو عجائب گھر کی چیزیں سمیٹ کر ایک طرف رکھ دی گئیں۔ اب اسے دوبارہ عجائب گھر کی شکل دی جارہی ہے۔ میں جب اس کے اندر گیا تو یہ بالکل خالی تھا۔ عدالت یہاں سے منتقل ہوچکی ہے مگر عجائب گھر ابھی دوبارہ اپنی اصل حالت میں نہیں آیا۔ اسی ہال کے ساتھ ایک بڑا ہال بنایا گیا ہے جسے جرگہ ہال کا نام دیا گیا ہے۔ مشاعرہ اسی ہال میں تھا۔ اسی مشاعرے میں جاکر یہ عقدہ بھی کھلا کہ کوئٹہ ایئرپورٹ پر ہمیں وصول کرکے سبی بھجوانے والا منتظم اے ڈی سی ریونیو عظیم انجم نہ صرف شاعر ہے بلکہ عمدہ شاعر ہے۔ کوئٹہ واپسی پر ہم اپنے بیوروکریٹ دوست اور شاعر سرور جاوید کے گھر گئے جہاں گفتگو کا موضوع صرف ادب تھا۔ سرور جاوید آج کل بلوچستان کا سیکرٹری اطلاعات ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ سیاسی حکومت کی معطلی کے باعث شاید تھوڑی فراغت میں ہوگا لیکن ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوا اور وہ اپنی دفتری مصروفیات کے باعث سبی نہ آسکا۔ بینر پر اس کا نام موجود تھا اور ہم اس کا انتظار بھی کرتے رہے مگر جب وہ فارغ ہوا تب کوئٹہ سے سبی جانے کا راستہ شجرِ ممنوعہ بن چکا تھا۔ باتوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ اچانک احساس ہوا کہ جہاز نکلنے میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔ نہایت افراتفری میں ایئرپورٹ روانگی ہوئی۔ اس امید کے ساتھ کہ انشاء اللہ جب اگلی بار کوئٹہ آئیں گے تو حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔ خدا کرے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved