خدا نے جب ایک سیارے پر جاندار پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور ان میں سے ایک کو امانتِ عقل سونپنے کا‘ تو اس سے پہلے اس سیارے میں زندگی کے لیے درکار سارے لوازمات پیدا کیے۔ لوہے، ایلومینیم، تیل اور گیس کے ذخائر۔ زمین پر وافر مقدار میں مٹی اور پتھر رکھے گئے۔ یہی مٹی اور یہی پتھر اینٹ سے لے کر سیمنٹ تک ہر وہ چیز بناتے ہیں، جس سے ہماری مضبوط عمارتیں صدیوں تک قائم رہتی ہیں۔ سب سے زبردست چیز جو خدا نے انسان کو عطا کی، وہ انتہائی حد تک عقلمند دماغ تھا۔ اسی دماغ کا کرشمہ ہے کہ انسان لوہے کا راکٹ بنا کر‘ اس میں زمین کے نیچے سے نکالا جانے والا ایندھن ڈال کر چاند پر جا اترا۔ اس نے عطارد، زہرہ اور حتیٰ کہ دور دراز کے سیاروں، زحل اور اس کے چاند ٹائٹن کا جائزہ لینے کے لیے خلائی مشن روانہ کیے۔ ان میں ہر قسم کے سائنٹیفک آلات نصب تھے ۔ ٹائٹن پر جب Cassini نامی مشن اتارا گیا تو سائنسدان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں تیل کے سمندر بہہ رہے تھے۔ وہی تیل، جس کے لیے ہمارے سیارے پر جنگیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح مختلف سیاروں پر ان قیمتی دھاتوں کے ڈھیر لگے تھے۔ ان کے اوپر اور نیچے کیسے کیسے جواہرات دفن ہیں۔ انسان بیچارا ان سب کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ ہاں ان اجنبی زمینوں میں اگر کوئی چیز نہیں تھی تو وہ Balance تھا۔ وہ بیلنس، جو زندگی کی پیدائش کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ وہاں درخت نہیں تھے؛ لہٰذا آکسیجن بھی نہیں تھی۔ آپ آکسیجن سیلنڈر بھر کے لے جائیں، اُس سیارے کا مشاہدہ کریں اور واپس آ جائیں۔ وہاں موزوں درجۂ حرارت نہیں تھا۔ وہاں برف کے ٹکڑے موجود تھے، بہتا ہوا پانی نہیں تھا، جو زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ وہاں زمین کی طرح کے مضبوط مقناطیسی میدان نہیں ؛ لہٰذا سورج کی تابکاری سے کینسر کا شدید خطرہ ہے۔
ہماری زمین پر ہر چیز ایک میزان میں ہے۔ سبزی خور جانور، گوشت خور اور وہ جن کا ہم دودھ پیتے ہیں۔ جہاں سے زمین کھودیں، پانی نکل آتا ہے۔ اسی پانی پہ بستیاں بسائی جاتی ہیں۔ رب العالمین فرماتا ہے: اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا ایک خاص مقدار کے مطابق۔ پھر اسے (پانی کو) زمین میں ٹھہرا دیا۔ اور بے شک ہم اس کے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔ مریخ پر یہی تو ہوا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ وہاں وافر مقدار میں پانی دریائوں کی صورت بہتا رہا لیکن پھرکہاں گیا وہ؟ خدا اسے لے گیا اور کہانی ختم ہوئی ۔
پانی نازل ہونے سے فوراً بارش ذہن میں آتی ہے؛ حالانکہ بارش اسی پانی سے بننے والے بخارات کی وجہ سے ہوتی ہے، جو کہ زمین پر موجود ہو۔ جب زمین پر پانی ہی نہیں تھا تو بارش کہاں سے آئی؟ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ شروع میں پانی کہاں سے آیا۔ آسمانوں سے آیا۔ ہر چیز آسمانوں سے، دور دراز خلا سے آئی ہے۔ لوہے کے بارے میں پڑھ لیں: و انزلنا الحدید... اور ہم نے لوہا نازل کیا۔ یہ نہیں ہوا کہ زمین کے اندر لوہا بنایا بلکہ یہ فرمایا کہ لوہا اس پر نازل کیا۔ بنا یہ کہیں اور تھا، جب زمین بن رہی تھی، تب پہاڑ جتنے بڑے بڑے ذخائر اس زمین پر آ گرے۔ انہی ذخائر سے زمین کا پگھلا ہوا اندرونی حصہ بنا، جس نے مقناطیسی میدان پیدا کیے اور وہ سورج کے تابکار ذرات کو واپس خلا میں لوٹا دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم میں سے اکثر کینسر کا شکار ہوتے۔
یہ سب وہ نشانیاں ہیں، خدا بار بار جن پر غور کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اپنے پسندیدہ لوگوں کے بارے میں خدا یہ فرماتا ہے: و یتفکرون فی خلق السموت والارض۔ وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق پہ غور کرتے رہتے ہیں۔ خدا نے کبھی انسان کو غور کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ غور و فکر کا مقام عبادت سے بلند رکھا۔ یہ فرمایا کہ جو شخص جانتا ہے اور جو شخص نہیں جانتا، وہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔
بہت سے لوگ ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ یہ زمین و آسمان، یہ سب کہکشائیں، اپنے آپ وجود میں آئی ہیں۔ یہ سب اتفاق ہے۔ چلیے ایک لمحے کو مان لیا کہ سب کچھ اتفاق سے بن گیا۔ زمین پر زندگی کی حفاظت کے جتنے بھی نظام ہیں اور جتنی بھی ضروریاتِ زندگی ہمیں کرّۂ ارض کے اوپر اور نیچے سے ملی ہیں، وہ سب اتفاق سے یہاں موجود ہیں۔ اتفاق سے ماں باپ کے دل میں اولاد کی وہ محبت پیدا ہو جاتی ہے، جس پر پوری نوع کی بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ خوامخواہ آپ لوگ خدا پر ایمان لائے۔ اب آپ پر ہزاروں قسم کی پابندیاں ہیں۔ خدا تو یہ کہتا ہے کہ ایک ایک قدم میری مرضی کے مطابق اٹھائو۔ پانی پینا ہو تو پہلے بسم اللہ پڑھو۔ کسی سے ناجائز تعلقات نہ رکھو بلکہ سب کے سامنے نکاح کرو۔ کسی ناجائز کام سے حرام دولت نہ کمائو۔ زندگی کے ایک ایک شعبے میں مکمل ہدایات موجود ہیں بلکہ اگر کوئی مر بھی جائے تو اس کی جائیداد تقسیم کرنے کا اصول بھی وہ بتا دیتا ہے۔ خدا یہ کہتا ہے کہ زمین پر اکڑ کے نہ چلو ۔ جس بندے کے پاس گھر میں پچاس لینڈ کروزرز کھڑی ہیں اور جس کی پانچ ہزار ایکڑ زمین ہے، دو تین ہزار بھینسیں گائیں ہیں، اسے بھی حکم یہی ہے کہ اکڑ کے نہ چلو۔ تو جو ملحد ہیں‘ وہ یہ کہتے ہیں کہ بھائی، کیوں خوامخواہ اپنے اوپر اتنی پابندیاں عائد کیے بیٹھے ہو۔ چار دن کی زندگی ہے، کُھل کر اس کا لطف اٹھائو۔
ایسے موقع پر میرا بھی جی للچا اٹھتا ہے۔ اپنے ان دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ میرے صرف ایک سوال کا جواب دے دو۔ اس کے بعد میں بھی چھلانگیں لگاتا ہوا تمہارے ساتھ ساحلِ سمندر کا رخ کروں گا۔ وہ سوال یہ ہے کہ زمین پر آج تک کم و بیش پانچ ارب مخلوقات / انواع (species) نے اپنی زندگی گزاری ہے۔ بھلا ان میں سے کوئی اور ہے، جس نے کبھی مذہب پر بحث کی ہو۔ جس نے ٹریفک کے اصول بنائے ہوں۔ جس نے اپنے مردوں کو دفنایا یا جلایا ہو۔ جس نے آگ استعمال کی ہو۔ جس نے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنائے ہوں۔ جس نے مریخ پر اپنے روبوٹ اتارے ہوں۔ جس نے لباس پہنا ہو۔ جس نے خوراک کو ٹھنڈا اور گرم کر کے اس کا ذائقہ بڑھایا ہو۔ جس نے کائنات کی ابتدا اور اس کے اختتام کے بارے میں تھیسز لکھے ہوں۔ اگر پانچ ارب میں سے ایک بھی اس قابل نہیں اور صرف انسان ہی اس قابل ہے تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے۔ یہ بات نہیں کہ میں مومن ہوں۔ مجھ جیسا گناہگار تو شاید روئے ارض پہ کوئی نہیں ہوگا لیکن میں علانیہ گناہ نہیں کر سکتا اور میں اپنے ان گناہوں پر فخر توبالکل ہی نہیں کر سکتا۔ ان لوگوں کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ علمی اور عقلی طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات کا کوئی خدا نہیں۔ مسئلہ صرف ایک ہے: ہمیں گلیوں میں شراب پینے، ہم جنس پرستی اختیار کرنے اور ساحلوں پر لباس اتارنے کی اجازت دی جائے۔ بس یہ ذرا سی معصوم خواہشیں ہیں۔ یہ پوری کر دیجیے۔ اس کے بعد کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔