بدگمانیوں اور بڑبولے پن سے بنائی ہوئی اینٹیں جوڑ کر چولھا بنایا جاچکاہے اور اب اس پر سیاسی کھچڑے کا پتیلا بھی چڑھا دیا گیا ہے۔ اس پتیلے میں کس ٹائپ کا کھچڑا پک رہا ہے یہ فی الحال کوئی نہ پوچھے کیونکہ جنہوں نے اِدھر اُدھر سے اشارے پاکر یہ پتیلا چولھے پر چڑھایا ہے خود اُنہیں بھی اب تک معلوم نہیں کہ کیا، کتنا اور کس طرح پکایا جائے گا۔
عام انتخابات کی منزل اب زیادہ دور نہیں رہی تو ہر طرف تحرّک دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی میدان میں ہر طرف وارم اپ کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ الزامات اور بیانات کا سورج نصف النہار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پوٹلے کھولے جارہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کسی نہ کسی بہانے ذلیل اور رسوا کرنے کی بھرپور کوششیں جارہی ہیں۔ یہ سب نیا ہے نہ حیرت انگیز۔ جب ballot کا دن نزدیک آتا ہے تو لوگ اپنے اپنے belt کس کر bullets چلانے لگتے ہیں!
اہلِ سیاست کو اچانک یاد آگیا ہے کہ اس ملک میں دوسرے بہت سے جانداروں کے ساتھ ساتھ عوام نام کی مخلوق بھی رہتی ہے اور یہ کہ اُسی کے نام پر تو سارا سیاسی ڈراما کھیلا جاتا ہے۔ بس، ذہن کے پردے پر عوام کا نقش ابھرتے ہی یارانِ وطن تیر کمان لے کر عوام کے شکار کو نکل پڑے ہیں۔
سید مصطفٰی کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار کے درمیان کراچی پریس کلب کی مشترکہ پریس کانفرنس سے جو جنگ شروع ہوئی ہے اُس میں معرکہ آرائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ شہری سندھ کا ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کی کوششیں جاری ہیں۔ معاملہ ''تھوڑی خوشی تھوڑا غم‘‘ والا ہے۔ کبھی کوئی تلخ ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی شیرینی بکھیرنے لگتا ہے۔ عوام مخمصے کے عالم میں ہیں کہ کسے کیا سمجھیں اور کیا نہ سمجھیں۔ بھروسہ کرنے کی تیاری ہے مگر سوال یہ ہے کہ کس پر بھروسہ کیا جائے۔ مصطفٰی کمال اور فاروق ستار کے درمیان پریس کانفرنس کی سطح پر جو سرد و گرم جنگ چل رہی ہے اُس کے شعلے پنجاب تک پہنچے ہیں اور وہاں سے خواجہ سعد رفیق سمیت متعدد رہنماؤں نے ملا جلا ردعمل دیا ہے۔ سعد رفیق کا مطالبہ ہے کہ مصطفٰی کمال اور فاروق ستار نے ایک دوسرے پر جو الزامات عائد کیے ہیں انہیں سنجیدہ لے کر تحقیقات کرائی جائے۔
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق سندھ کے وزیر محنت منظور وسان بھی کمر اور لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ بولنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں اس لیے وہ لب بستہ تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے سربراہان کی ایک دوسرے کے خلاف گوہر افشانی دیکھ کر منظور وسان بھی بولنے پر آگئے ہیں۔ اور وہ بھی پوری ذہنی تیاری کے ساتھ۔
سکھر میں میڈیا سے گفتگو میں منظور وسان نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کا نکاح میں پڑھاؤں گا۔ دونوں جماعتیں حلالے کی منزل سے ضرور گزریں گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بعض نادیدہ قوتیں شہری سندھ کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کر رہی ہیں اور اِس کے لیے نئے صوبے کا شوشہ بھی چھوڑا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ منظور وسان نے یہ بھی کہا کہ جہاں لفظ ''بھائی‘‘ آجائے وہاں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہوتی ہے۔ ٹھیک کہتے ہیں آپ منظور بھائی! ؎
دنیا کے ہر انسان کو میں بھائی بنالوں
قسمت جو مجھے یوسفِ ثانی نہ بنائے!
منظور وسان کی میڈیا ٹاک کے جواب میں مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے جنرل سیکریٹری سردار عبدالرحیم نے کہا ہے کہ منظور وسان خود ساختہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کا نکاح ہوچکا ہے۔ خود ساختہ کی پھبتی بھی خوب رہی۔ یہی ایک کام تو ایسا ہے جو منظور وسان خود کرتے ہیں اور سردار صاحب اِس کا ''کریڈٹ‘‘ بھی چھین رہے ہیں!
سیاسی کِھچڑے کے پتیلے کی رونق و لذت بڑھانے کی غرض سے پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھادیا ہے۔ پی ایس پی سے سیاسی اتحاد کا معاملہ سانجھے کی ہنڈیا کے بیچ چوراہے پر پُھوٹنے جیسی کیفیت سے دوچار ہوا تو پلک جھپکتے میں ایم کیو ایم پاکستان میں اچھا خاصا تحرّک پیدا ہوگیا۔ کارکن جاگ اٹھے اور تازہ دم ہوکر میدان میں آگئے۔ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے مُردے میں اچانک جان پڑی تو پیپلز پارٹی نے موقع غنیمت جان کر ڈاکٹر عاصم حسین کو ڈاکٹر فاروق ستار سے ملنے بھیج دیا۔ پیپلز پارٹی کا ترجمان کہتا ہے کہ یہ نجی نوعیت کی ملاقات تھی اور یہ مفروضہ غلط ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے فاروق ستار کو آصف زرداری کا کوئی پیغام پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کا اس اہم مرحلے پر فاروق ستار سے ملنا کسی بھی اعتبار سے کوئی نجی معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کون نہیں جانتا کہ ڈاکٹر عاصم تنظیمی اعتبار سے آج کل آصف زرداری کے کس قدر قریب ہیں۔
فاروق ستار نے والدہ کے ساتھ جو پریس کانفرنس کی تھی اُس کے آخر میں انہوں نے صوبے کا نعرہ لگایا تھا۔ پیپلز پارٹی کو صرف اس ایک نکتے پر اعتراض ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا فاروق ستار سے ملنا بھی اصلاً اِسی ذیل میں تھا۔ پی پی پی نہیں چاہتی کہ اس مرحلے پر ایم کیو ایم الگ صوبے کا نعرہ لگائے۔ اگر کہیں سے کوئی فرمائش نہ آئی ہو تب بھی ہوسکتا ہے کہ فاروق ستار نے الگ صوبے کی بات شاید ووٹ بینک کو مزید مضبوط کرنے کی خاطر کہی ہو۔ ووٹرز کی ساری توجہ کسی ایک نکتے پر مرکوز کرنے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کے پاس فی الحال اور کوئی بڑی بھی تو بات نہیں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم سے ملاقات میں فاروق ستار نے شہری سندھ سے امتیازی سلوک کا سوال اٹھایا اور یقین دہانی چاہی کہ معاشی اور ترقیاتی معاملات میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ خطرات سے دوچار نہیں۔ اُس کے لیے بھی ''کھمبا ووٹ‘‘ پڑتا رہا ہے۔ مگر آصف زرداری کوئی رسک مول لینے کے موڈ میں نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں مل بھی جائیں تو کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کے معاملات قابو میں رکھنے کے لیے ایم کیو ایم سے بہتر تعلقاتِ کار رکھے جائیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں ڈلیور نہیں کیا۔ عوام اس حوالے سے تھوڑے بدظن ضرور ہیں۔ تحریک انصاف اور ن لیگ اس صورتِ حال کو کیش کرانا چاہیں گی۔ پیپلز پارٹی یقیناً نہیں چاہے گی کہ سندھ میں کوئی ''باہر‘‘ کی جماعت قدم جمائے۔
سیاسی کھچڑے کا سیزن شروع ہوا ہے۔ پتیلا چولھے پر ہے۔ فی الحال اِس میں مال ڈالا جارہا ہے اور آنچ تیز کی جارہی ہے۔ کس ٹائپ کا کھچڑا پک رہا ہے یہ تو کچھ دن بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔ ہاں، اتنا ہے کہ ع
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
کہنے کا زمانہ لد گیا۔ اب تو سبھی کچھ اس قدر عیاں ہے کہ چھپائے نہیں چھپتا۔ مصطفٰی کمال نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ اِس نوعیت کا تھا کہ میرزا نوشہ یاد آگئے ؎
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
!کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چُھپائے نہ بنے!