تحریر : ڈاکٹر انوار احمد تاریخ اشاعت     07-03-2013

خود کو ہی پڑھنے والے تخلیق کار

کاش بیگمات اِدھر اُدھر خط لکھنے والے شوہروں کو بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر لگا دیں وہ شروع ہی سے اپنی محبت میں مبتلا ایک خوبصورت آدمی تھا،لیکن جب انگریزی ادبیات کا استاد ہوا تو اس کی خوبصورتی اور نرگسیت نمایاں ہو گئی اور جب سی ایس ایس کر کے ڈاک خانے کا افسر ہوا تو یہ الفتِ ذات ایک طرح سے خراج طلب بھی ہو گئی۔ پھرایک خاص دور کا فکری اضطراب اسے شعر کے کوچے میں لے گیا اور کوئی نصف درجن اس کے شعری مجموعے شائع ہوگئے،دو ایک یونیورسٹیوں میں اس کی شخصیت اور فن پر مقالے بھی لکھے گئے۔ کوئی دو چارسال پہلے وہ لاہور میں مجھے ملا تو میَں نے کہا’میرے پیارے نئے شاعر،آج کل کیا پڑھ رہے ہو؟‘ اس طرح کے بے ضرر دکھائی دینے والے سوال بھی اسلحے سے لیس ہوتے ہیں اور انہیں ہم پڑھے لکھے دوستوں پر شاید اس امید پر داغتے ہیں کہ کبھی تو وہ بھی بھولے سے کہہ دیں کہ یار ہم نے تمہاری فلاں کتاب یا تحریر پڑھی ہے،جس نے ’تہلکہ ‘مچا رکھا ہے مگر اس نے زہر خند کے ساتھ کہا’ میَں اپنی کتابیں پڑھ رہا ہوں‘۔میَں نے اس کے طنز کی کسک کو کم کرنے کے لیے پوچھا ’عبدالرشید!کسی اور کو کیوں نہیں پڑھتے‘؟ تو اس نے تلخی کو کھسیانی ہنسی میں لپیٹ کر کہا ’کسی اور نے مجھے پڑھا ہے،جو میَں انہیںپڑھوں‘؟ شاید یہی صورت ِحال ہے کہ ہمارے ہاں ہر اخبار میں قارئین کی تلاش میں کالم نگاروں کا میلہ سجا ہے۔میَں سات آٹھ کالم روزانہ تو اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی پڑھتا تھا چراغ حسن حسرت،مجید لاہوری،احمد ندیم قاسمی، شوکت تھانوی،ابراہیم جلیس ،ابن انشا، اور پھر بعد میں تو یہ فہرست بہت لمبی ہوتی گئی، منو بھائی اور رئوف کلاسرا سمیت آٹھ سے دس اور۔ مگر چند مہینوں سے ایک دوست کالم نگار کا کالم پڑھنا بھی میَں نے اپنا فریضہ بنا لیا تھا کیونکہ وہ میرے ہر کالم کے بعد ایک میسیج بھیجا کرتے تھے ’کیا غضب کالکھا ہے‘، یہ اور بات کہ ابھی چند دن پہلے ان کا فون آیا کہ میں اسلام آباد آیا ہوں،مقتدرہ قومی زبان کے دفتر میں تم دکھائی نہیں دے رہے،کہیں چھوڑ تو نہیں دیا؟‘۔ چلیے یہ سوال تو کم تکلیف دہ ہے ، ہمارے دوست پروفیسر صلاح الدین حیدر کو تو اس سے کہیں زیادہ اذیت ناک سوال سننا پڑا تھا، جب وہ‘ دورضیاء الحق میں تین ماہ شاہی قلعے کی اسیری کے بعد اپنے گھر کے قریب گجر کھڈہ میں ایک ویگن سے اترے تو ایک باخبر کامریڈ لپک کر آئے اور پوچھا’کامریڈ،کہاں غائب ہو گئے تھے؟ تحریک کچھ سرد نہیں پڑ گئی بھلا‘؟ ہمارے ہاں کچھ عرصہ تک تو کتابوں کی تعارفی تقاریب نے ایک سماں باندھا، ہوٹل کے مینو کارڈ اورمضمون کی اجرت (ممدوح خاتون ہو تو اجرت کی حسرت) کے لحاظ سے ’مجلسی یاتقریباتی تنقید‘ کی اصطلاح عام ہوئی مگر رفتہ رفتہ لکھنے والوں کو اندازہ ہوتا گیا کہ مفت کتابیں بانٹنے کے باوجود شوق سے پڑھنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض اوقات تو فضااتنی یاس انگیز ہو جاتی ہے کہ ہم ادبیات کی بڑی کلاسوں کے طالب علموں سے پطرس بخاری کے مضمون’میبل اور میَں‘ کے بارے میں بھی سوال کا بھرم ٹوٹ جانے کے ڈر سے نہیں پوچھتے کہ انہوں نے یہ سدا بہار مضمون بھی پڑھ رکھا ہے یا نہیں؟ حالانکہ یہ مضمون ہمیں بے پڑھی کتابوں پر بے تکان بولنے کی ہمت دیتا ہے۔ترکی جا کر جو ابتدائی طور پر بیس پچیس لفظ سیکھے وہ اپنی جگہ مگر سلاموں،دعائوں کے ساتھ ایک کلمہ ’میَں ترکی زبان نہیں جانتا‘ بھی سیکھنا پڑا،کیونکہ اکثر سادہ لوح ترک مجھ ایسے اجنبی سے کافی سوالات کرتے تھے۔چنانچہ بعد کے وقتوں میں میَں بڑی روانی سے کہتا تھا ’ترکچہ بلمیورم‘۔فارسی کی طرح ’م‘ ہٹا دیں تو ’بلیورم‘ کا مطلب ہے کہ میَں جانتا ہوں۔رفتہ رفتہ مجھے پتا چلا کہ انتظار حسین کی طرح کے ترک بھی وافر ہیں،جوبا محاورہ زبان پر جان دیتے ہیں۔میں نے جلال سویدان سے ’انٹ شنٹ‘ کی ترکی پوچھی اور پھر اس کے اظہار پررواں ہو گیا،چنانچہ جب میَں کہتا ’شوئلے بوئلے ترکچہ بلیورم‘ تو محاورے کی حد پھلانگ کر بعض بزرگ خواتین شفقت کا گرم جوش اظہار کرتیں ۔بہت بعد میں پتا چلا کہ ترک کی تو نشانی یہ ہے کہ وہ کبھی نہیں کہتا ’میَں نہیں جانتا‘،اس لیے اگر آپ کسی سے کوئی ایڈریس پوچھ بیٹھیں تو وہ نہ جاننے کے باوجود آپ کو مروتاً غلط گھر تک چھوڑ آتے تھے۔میَں نے مشہد کے کتاب خانوں میں طالب علموں کا جو ہجوم دیکھا۔جاپان کی ٹرینوں اور بسوں میں بیٹھے مسافروں کو جس طرح مطالعے میں منہمک دیکھا ہے،ٹوکیو میں کتابوں کی ایک دکان کے باہر بلامبالغہ ان سینکڑوں لوگوں کی قطاریں دیکھی ہیں،جو اپنے پسندیدہ مصنف کی نئی کتاب اس کے آٹو گراف کے ساتھ لینے کے لیے نصف شب کے بعد وہاں آ کر بیٹھ گئے تھے۔ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی پڑھنے والا نہیں،کتابیں چھپتی ہیں اور بعض کے تو کئی کئی ایڈیشن بھی۔کتاب خانوں میں بھی پہنچتی ہیںمگر ہر یونیورسٹی کا چیف لائبریرین‘ جی سی کے ڈاکٹر عبدالوحید جیسا یا ڈپٹی،پنجاب یونیورسٹی کے ہارون عثمانی جیسا نہیں مگر حقیقت میں مجھے کالم نگار خالد مسعود کے والد عبدالمجید ساجد کی شفقت اور علم دوستی نہیں بھولتی جب وہ ہمارے زمانہ طالب علمی میں ایمرسن کالج کے کتاب دار تھے۔ہمارے شہر کے دوپروفیسروں لطیف عارف اور نصیرالدین صدیقی نے جو نجی کتاب خانے بنا کر اس شہر کے مستحق طالب علموں پر ارزاں کئے وہ انہیں اس شہر کے ایک اور محسن بال کشن بترا کی صف میں لاتے ہیں،جنہوں نے لانگے خان باغ کی لائبریری کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔اسی لیے میَں دوستوں سے کہتا ہوں،ایک ایک سکول کی ایک ایک کلاس سنبھال لو،ان بچوں کے ذوقِ مطالعہ کو نکھارو،ابھی گزشتہ ہفتے فرخندہ نواز نے مسلم ہائی سکول کے بچوں میں اپنے شوہر انجینئر ممتاز کی لکھی ایک کتاب کا تحفہ تقسیم کیا اور بتایا کہ یہ مجھے خط لکھتے تھے تو خیال آتا تھا کہ ان سے کوئی مفید کام لینا چاہیے، سو اسلامی تاریخ اور تحریک پاکستان کے مشاہیر پر یہ کتاب لکھوالی ہے۔کاش باقی بیگمات بھی ادھر ادھر خط لکھنے والے شوہروں کو بچوں کی بجائے بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے نیک کام پر لگا دیں۔ گھپ اندھیرے میں ایک دیا جلانے سے ہماری افسردہ زندگی میں کئی امیدیں بھی جاگ جاتی ہیں ۔ سوایک اقبال شناس ہماری شاگرد ڈاکٹر ارشد خانم نے مسلم سکول ملتان کی چھٹی کلاس کے بچوں کو اردو،انگریزی کی ایک ایک جیبی لغت اور اقبال کا پہلا مجموعہ کلام تحفے میں دینے کے لیے پچاس ہزار روپے بھیج دئیے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved