نواز شریف اپنے ساتھ ہونے والے انصاف سے ہرگز خوش نہیں ہیں۔ ان کی صاحبزادی کو شکایت ہے کہ ان کے خاندان کے خلاف مقدمات میں انصاف کا خون کیا جا رہا ہے۔
شاید وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اتنی جلدی کیا ہے۔
یہ سن کر کہ عدالت کو کیا جلدی ہے‘ مجھے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی ایک تقریب میں کی گئی وہ تقریر یاد آ گئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ کیسے پاکستان میں انصاف کو عام لوگوں کے لیے ناممکن بنا دیا گیا۔ سب سے بڑا انکشاف یہ تھا کہ انگریز دور میں قتل کا ایک مقدمہ‘ ایک سال کے اندر اندر‘ تفتیش ہو کر‘ عدالتی مراحل سے گزر کر‘ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا تھا۔ ملزم کو یا تو سزا مل جاتی تھی یا پھر وہ بے گناہ ہو کر بری ہو جاتا تھا۔ لیکن سابق چیف جسٹس کے بقول ہمارے ملک میں پچیس سال بعد بھی قتل کے ملزم عدالتوں میں رُل رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں قتل کے کچھ مقدمات میں کئی ایسے ملزموں کو بری کیا‘ جن کے بارے میں پتا چلا کہ وہ تو کب کے پھانسی چڑھ چکے ہیں۔ ان 'بے گناہ قاتلوں‘ کے گھر والوں کی کیا حالت ہوئی ہو گی‘ جب وہ پہلے جیل سے اپنے پیاروں کی پھانسی کے بعد لمبی گردن والی لاشیں لے کر گھر گئے ہوں گے۔ شاید کچھ نے دل کو یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی ہو کہ اس نے قتل کیا ہو گا، ورنہ کب کسی بے گناہ کو پھانسی لگتی ہے۔ کسی نے کہا ہو گا: شاید خدا کی طرف سے ایسے ہی لکھی ہوئی تھی‘ مقدر کے لکھے کے آگے کس کا بس چلتا ہے۔ کوئی کچھ دن رو دھو کر چپ ہو گیا ہو گا۔ ویسے جب انسان اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار کر آتا ہے تو اس کے دل کو کچھ قرار ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ قبر کی مٹی میں کچھ جادو ہے۔ انسان قبر پر مٹی پڑتے دیکھ کر اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرنے لگتا ہے۔ اس لیے اکثر جب آپ قبرستان سے لوٹتے ہیں تو کئی دن تک خاموش، افسردہ اور الگ تھلگ سے رہتے ہیں کہ آپ کو زندگی کی اصل کا پتا چل جاتا ہے‘ کہ سب بھاگ دوڑ آ خر کس لیے اور ایک دن کہاں جا کر بسیرا کرنا ہے۔ خیر! جو لوگ بے گناہ پھانسی چڑھا دیئے گئے، اس وقت ان کے لواحقین رو دھو کر چپ ہو گئے ہوں گے‘ لیکن اب جب انہیں یہ پتا چلا ہو گا کہ سپریم کورٹ نے ان کے بچوں کو بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا ہے تو ان پر کیا گزری ہو گی؟ وہ افراد‘ جن کو وہ کئی ماہ پہلے قبروں میں دفن کر آئے تھے‘ وہ اب بے گناہ نکلے۔ ان کا انصاف کے بارے میں کیا ردعمل ہو گا؟ ان کے پاس نہ ٹویٹر تھا اور نہ ٹی وی کے کیمرے۔ نا ہی انہیں مریم اورنگزیب، دانیال عزیز، طلال چوہدری کی خدمات میسر تھیں جو عدالتوں پر چڑھائی کر دیتے کہ آپ ہمارے بچوں کو انصاف دینے میں ناکام رہے ہیں اور دراصل یہ انصاف کا قتل ہے۔ کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظام عدل کی ناکامی تھی کہ وہ وقت پر انصاف نہ فراہم کر سکا‘ مگر کیا یہ ناکامی اس ملک کے وزیر اعظم کی بھی نہیں تھی؟ جس کی پولیس پر الزام لگتا ہے کہ وہ ناقص تفتیش کرتی ہے‘ جس سے بے گناہ پھنس جاتے ہیں اور وہ وکیل بھی‘ جو مقدمات کو قصداً تاخیر کا شکار کرتے ہیں تاکہ بھاری فیس ملتی رہے۔
کہیں یہ وہی پولیس تو نہیں‘ جو 1985ء میں اس وقت وجود میں آئی جب نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں‘ ایک ایک ایم پی اے کو ووٹ خریدنے کے لیے‘ پانچ، پانچ سیٹیں اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار کی دی گئی تھیں۔ پھر آگے انہوں نے ایک ایک سیٹ تین سے پانچ لاکھ روپے میں ضرورت مندوں کو فروخت کرکے اپنے ووٹ کی قمیت وصول کی تھی۔ جو پولیس افسر اس وقت تین سے پانچ لاکھ روپے دے کر پولیس فورس میں بھرتی ہوا تھا‘ وہ آپ کے خیال میں عوام اور معاشرے کو انصاف دینے آیا تھا؟ اسے پتا تھا کہ نواز شریف کے ایم پی اے نے پانچ لاکھ اس لیے وصول کیے ہیں کہ ایک بار خرچہ پورا کرنے کے بعد‘ پوری عمر عوام کی ٹھکائی کرو اور بے گناہوں کو پھانسی چڑھوائو۔
اس طرح کیسے آن کی آن میں پولیس اور ڈی ایم جی افسران کو شریف خاندان کی نوکری پر لگا دیا گیا۔ پولیس افسران خاندانوں سمیت نواز شریف کے ملازم بن گئے۔ باپ کے بعد بیٹا‘ شریف خاندان سے بڑے عہدے پاتے‘ اعلیٰ پوسٹنگز کراتے اور بدلے میں حکم ہوا کہ جب ہمارے خلاف آواز اٹھانے والے معصوم لوگوں اٹھیں تو انہیں مارنا ہے۔ ڈی ایم جی اور پولیس افسران نے مل کر ماڈل ٹائون میں چودہ افراد گولیوں سے بھون ڈالے‘ جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ پاکستانی اداروں کو پیکیج دیا گیا: صحافی ہو کر ہمارے حق میں لکھو گے تو وزارتیں پائو گے، سفیر بنو گے، جج ہمارے حق میں فیصلے دیں گے تو انہیں اہم عہدے دیں گے، بیوروکریٹ ہمارے لیے لوگوں کو مارے گا تو پچھتر سال کی عمر میں بھی مشیر بنائیں گے۔ کوئی اگر سیف الرحمن سے ڈھائی ارب ڈالرز کے ایم او یو پر خفیہ دستخط کرے گا تو اسے ترقی دے کر ورلڈ بینک میں پاکستان کا نمائندہ بنایا جائے گا۔ ماڈل ٹائون میں ہمارے حکم پر بندے مارو گے تو جینوا میں ایسی پوسٹنگز دلوائیں گے۔ پنجاب میں جن سرکاری بابوئوں نے شریف خاندان کو کرپشن کرنے اور ان کی چونچیں گیلی کرنے میں مدد دی تو جواباً انہیں ڈیڑھ سو ارب روپے کی کمپنیاں بنا کر دی گئیں‘ اور پندرہ پندرہ لاکھ روپے تک تنخواہیں دے کر عیاشی کرائی گئی۔ اب پتا چلا کہ یہ سرکاری زکوٹا جن اربوں ہڑپ کر گئے تھے۔
بعض وکیلوں کو بھی یہ بڑے بڑے پیکیجز دیے گئے کہ وہ اگر ہمارے ایجنڈے پر چلیں گے اور ہمارے مخالف ججوں کے خلاف جاری مہم میں عدالت کی بجائے ہمارا ساتھ دیں گے تو پھر ان لوگوں کو ہم کروڑں روپے کی گرانٹ تو دیں گے ہی‘ کروڑوں روپے کے حکومتی مقدمات بھی ملیں گے۔ آپ کی فیس چاہے دو لاکھ روپے بھی نہ ہو‘ لیکن آپ کو دو کروڑ دیں گے تاکہ آپ وکیلوں کو قابو میں رکھیں۔ اس طرح جو وکیلوں کو قابو میں رکھے گا‘ اسے اٹارنی جنرل تک کا عہدہ بھی مل سکتا ہے۔ یہ چند رول ماڈلز اس لیے پیدا کیے گئے تاکہ میڈیا، عدالت، بیوروکریسی اور وکیلوں تک ایک مقابلے کا رجحان پیدا کیا جا سکے کہ ہمارے لیے کون کتنا آگے جا سکتا ہے۔ اس طرح نوجوان سیاستدانوں کو بھی لالچ دیکر آگے لایا گیا۔ کون ٹی وی پر کتنا ان کا دفاع کر سکتا ہے، مخالفین کو کتنی بڑی گالی دے سکتا ہے اور اس بنیاد پر ان میں سے چند ایک کو وزارت بھی دی گئی۔ مطلب ایک ہی تھا کہ جو ہمارے لیے پوری دنیا سے ٹکر لے گا، وہی نروان پائے گا۔
جب آپ نے پورا معاشرہ ہی انٹیلیکچولی کرپٹ اور دیوالیہ کر دیا ہے تو پھر کیوں آج دہائی دیتے ہیں کہ انصاف نہیں ہو رہا۔ آپ نے کب کسی کے ساتھ انصاف کیا تھا؟ آپ کو انصاف ہوتا اس لئے نظر نہیں آ رہا کہ ماضی میں کئی ججوں کو آپ خود فون کرکے سیاسی مخالفیں کو سزائیں دلواتے رہے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے‘ جیسے آپ ججوں کو دھمکیاں یا لالچ دے کر استعمال کرتے رہے ہیں‘ ایسے ہی آج بھی کچھ قوتیں عدالتوں اور ججوں کو استعمال کر رہی ہیں۔
بالفرض ایسے ہو رہا ہو پھر بھی... پھر بھی آپ کی شکایت نہیں بنتی۔
اب بھی شکر کریں کہ آپ زندہ ہیں ورنہ بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ابھی آپ چل پھر رہے ہیں، لندن‘ مری ٹورز لگ رہے ہیں۔ چالیس‘ چالیس گاڑیوں کے قافلے میں گھر سے نکل رہے ہیں، ہٹو بچو کے نعرے لگ رہے ہیں، وزیروں کی فوج آگے پیچھے چل رہی ہے۔ ٹی وی چینلز پر کرائے کے لبرلز آپ کا دفاع پوری تندہی سے کر رہے ہیں۔ آپ کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا، اپ کو جعلی دستاویزات پر گرفتار نہیں کیا گیا۔ بھٹو کی طرح آپ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا۔ آپ تو بڑے پروٹوکول کے ساتھ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ورنہ آپ کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ہی یہ فیصلہ آیا تھا کہ پنجاب میں آپ کے دور میں تین سے پانچ لاکھ روپے رشوت دے کر بھرتی کی گئی‘ کرپٹ اور نالائق پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے وہ لوگ پھانسی چڑھ گئے تھے جنہیں بری کر دیا گیا تھا۔
آپ شکر کریں‘ شکوہ نہ کریں!