ان دو میں سے ایک امریکہ کی فوج کا ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور دوسرا آزاد ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلیوں کا ماہر ہے۔ دونوں کے خطبے علیحدہ علیحدہ مگر نشانہ ایک ہے۔ پہلے نے کہا: یہ ویسا ہی خطرہ ہے، جیسا نازی ازم، جیسا امپیریل ازم، جیسا کمیونزم پھر وہ اور آگے بڑھ گیا۔ مزید کہا: یہ خطرہ نہیں ایک ارب 70 کروڑ لوگوں کے دل میں جاگزیں ہلاکت خیز کینسر ہے۔ اسے ہر صورت میں سرجری کے ذریعے دُور کرنا ہو گا۔ پھر نفرت کے زہر میں ڈوبے ہوئے لفظوں میں بولا: یہ ''اسلام اِزم‘‘ ہے۔ دوسرے مقرر کا ہدف 1.7 بلین مسلمانوں کے ممالک میں سے سب سے طاقتور ملک ہے۔ وہ بولا: تلوار، تیر اور تفنگ کے بعد ملکوں کو توڑنے اور نئے جغرافیے تشکیل دینے کے لئے گن پوڈر، توپ اور بم ایجاد ہوئے۔ پھر بھاری بم برسانے والے ہوائی جہاز اور دور دیس کے ملکوں تک مار کرنے والے ٹینک و توپ معرض وجود میں آ گئے۔ ہمیں یہ سب کچھ لے کر زمینی اور فضائی جنگ لڑنا پڑتی تھی۔ ساتھ کہتا چلا گیا: ہم نے پاکستان پر اندر سے حملہ شروع کر رکھا ہے۔
اگر ملک کو درخت سمجھ لیا جائے تو معیشت اس کی جان کہلائے گی۔ درخت کی زندگی کے لئے روشنی، ہوا، پانی، کھاد ضروری اجزا ہیں۔ انہی اجزا کے ذریعے پتے، پھول اور پھل درخت کو ثمربار کرتے ہیں۔ پھر اس نے حساب کتاب لگایا اور بتانے لگا کہ بے رحم غیر ملکی قرضوں کے کینسر نے پچھلے تین سال میں پاکستانی معیشت کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ قرضے پاکستان کسی صورت واپس کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی بیمار معیشت بیماری کے سفر پر جیٹ سپیڈ سے دوڑ رہی ہے۔ پھر اس نے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کو اندر سے مسمار (خدانخواستہ) کرنے کے منحوس اعداد و شمار گنوا ڈالے۔
عصری تاریخ میں کئی ملکوں کی مثالیں ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ مثال کے طور پر سپین، جہاں سے مسلم اقتدار اور شناخت کو بطور ریاستی پالیسی کُھرچ ڈالا گیا۔ معاشی کمزوری نے اس کی بنیادیں تک ہلا ڈالی ہیں۔ کاتالونیہ کی مثال آج سب کے سامنے ہے۔ روم‘ یونان کبھی دنیا کے حاکموں کے مراکز تھے۔ آئی ایم ایف کی مہربانیوں اور نا مہربان حکمرانوں کی کارستانیوں نے انہیں بھکاری بنا ڈالا۔ دُکھی دل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ محترم منیر احمد بلوچ نے اپنے 13 نومبر کے کالم میں جو سوالات اٹھائے ہیں‘ وہ بہت درُشت مگر سو فیصد درست ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اہم معلومات اور ایک گفتگو ریکارڈ پر ہے‘ جس کا ایک جملہ میں اس مرحلے پر پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں۔ جملہ یہ ہے ''ان صوبوں سے جان چھڑائیں۔ بنگالیوں کی طرح بوجھ اتر جائے تو ہم بارڈر کے دونوں طرف دبئی بنا دیں گے‘‘۔
فرض کریں اوپر درج واقعات اور خدشات محض تعصب پر مبنی خیالات یا محض مخالفوں کے الزامات ہیں‘ اور سرکاری سچ یہ ہے کہ گُڈ گورننس میں پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بن چکا ہے۔ چین، جاپان، ملائشیا، یورپ اور انڈیا ترقی کی دوڑ میں ہم سے ہزاروں میل پیچھے رہ گئے ہیں۔ چلیں اسے بھی تسلیم کر لیں کہ یہ بھی سچ ہے کہ اس وقت پاکستان میں نہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی بے روزگاری ہے‘ نہ مریضوں کی لاچاری ہے، نہ پنشنروں کی ناداری ہے، نہ کوئی سکول سے باہر ہے، نہ کسی جگہ مہنگائی ہے اور نہ ہی یہ قوم انٹرنیشنل بھکاری ہے۔ آٹا، پیاز، چینی، ٹماٹر، دالیں، لہسن، گونگلو اور کیلے مفت ملتے ہیں۔ فلاحی ریاست کی دوڑ میں کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ کو ہم نے سالوں، بلکہ صدیوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ سٹیٹ بینک کی مشینیں پیپر کرنسی نہیں‘ بلکہ ڈالر یا پونڈ، ریال اور یورو کے مقابلے کے طاقتور عالمی نوٹ چھاپ رہی ہیں۔ بولنے والی اپوزیشن دل گرفتہ ماہرینِ معیشت اور بے لاگ ریاستی تجزیہ کار سب فتنہ پرور اور دروغ گو ہیں۔ فرض کریں کہ ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ لوگ آسٹریلیا سے آ کر یہاں کے کسی ادارے میں بھرتی ہونے کے لئے لاہور کی سڑکوں پر لائن لگا کر کھڑے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے کرسمس کی مفت شاپنگ پر لائنیں لگتی ہیں۔ اور یہ سارے حکومتی دعوے اور اعلانات اپنی جگہ‘ لیکن تین عدد سوال پھر بھی جواب مانگنے کے لئے منہ کھولے کھڑے ہیں۔
پہلا سوال: پاکستان کے خزانے میں تارکینِ وطن کے بھیجے ہوئے ڈالروں کے علاوہ اور کیا ہے۔ اللہ نہ کرے‘ اگر یہ ڈالر کسی وجہ سے پاکستان آنا بند ہو جائیں تو پھر ہمارا زرِ مبادلہ کا ذخیرہ کیا ہو گا؟ کون سا معاشی آپشن ہمارے لئے کُھلا رہے گا؟
دوسرا سوال: اگر پاکستان کی معیشت بیمار نہیں‘ بلکہ عربی گھوڑے کی طرح آگے سے بھی آگے دوڑ رہی ہے‘ تو پھر حکمران خاندان اپنی حلال کی کمائی پاکستان واپس لا کر اپنے آپ کو دن دگنی رات چوگنی کمائی کا موقع کیوں نہیں دیتے؟
تیسرا سوال: اگر وطن کی معیشت ترقی کی منزلیں مارتی ہوئی بھائی پھیرو سے بھی آگے نکل گئی ہے‘ تو پھر صحت، تعلیم، سماجی ترقی، زچہ و بچہ، جنوبی پنجاب اور شمالی پنجاب کا بجٹ کاٹ کر میٹرو پر کیوں لگاتے ہو؟ پنجاب کے واحد بینک کو لوٹ کر اورنج ٹرین میں سے کک بیک نکالنے کی جلدی کس لئے؟ سچ اگرچہ پریشان کن حد تک کڑوا ہے لیکن حکومتوں کے لئے سچ بولنا اور عوام کے لئے سچ جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ قومی خزانہ بیمار ہے اور اس کی بیماری کا سبب ہے وزیرِ خزانہ‘ جو قوم کا عدالتی مفرور ہو چکا ہے۔ چار عشروں سے برسرِ اقتدار رابرٹ موگابے سے منسلک کرپٹ ٹولا فوج نے پکڑ لیا۔ دنیا بدل چکی ہے۔ مجھے اپنے ملک کے ایک بہت بڑے آدمی نے کہا: دنیا ننگی ہو گئی۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ جواب دیا: اب دولت چھپانے کے لیے کوئی ملک بھی محفوظ نہیں رہا۔ نہ سسلین مافیا‘ سسلی میں محفوظ ہے‘ اور نہ پاکستانی مافیا مڈل ایسٹ سے یورپ تک چوری کا مال چُھپا سکتا ہے۔ جو نادان طوطے پرانا سبق پڑھ کر بچنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اُن کی ٹیں ٹیں بے کار جائے گی۔ شاعر نے نہ جانے یہ کیوں کہا:
کہاں جاتا ہے او نادان طوطے
ابھی چُوری کا ہے امکان طوطے
ضرور آئے گی منی جان طوطے
رٹے جا داغ کا دیوان طوطے
خیالِ یار سے دامن بچا لے
بہت ہو جائے گا ہلکان طوطے
نشیمن سے حلالہ غیر ممکن
شبِ تاریک کا عنوان طوطے
یہ طوطا چشمیاں کب تک چلیں گی
دنی سیرت! غلط پیماں طوطے
لگا کر آنکھ بیجو باورا سے
کہاں اٹکی ہے تیری جان طوطے
سچ یہ ہے کہ قومی خزانہ بیمار ہے اور اس کی بیماری کا سبب ہے وزیرِ خزانہ‘ جو قوم کا عدالتی مفرور ہو چکا ہے۔ چار عشروں سے برسرِ اقتدار رابرٹ موگابے سے منسلک کرپٹ ٹولا فوج نے پکڑ لیا۔ دنیا بدل چکی ہے۔ مجھے اپنے ملک کے ایک بہت بڑے آدمی نے کہا: دنیا ننگی ہو گئی۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ جواب دیا: اب دولت چھپانے کے لیے کوئی ملک بھی محفوظ نہیں رہا۔ نہ سسلین مافیا‘ سسلی میں محفوظ ہے‘ اور نہ پاکستانی مافیا مڈل ایسٹ سے یورپ تک چوری کا مال چُھپا سکتا ہے۔ جو نادان طوطے پرانا سبق پڑھ کر بچنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اُن کی ٹیں ٹیں بے کار جائے گی۔