تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     07-03-2013

زبان کی اصلاح

برصغیر کو مسلمانوں نے تین تحفے دیے: تاج محل‘ کلاسیکی موسیقی اور اردو زبان الفاظ کا تلفظ درست رکھنا اور ان کو صحیح املا کے ساتھ تحریر کرنا کسی بھی زبان کی ترویج و ترقی کے لیے بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں البتہ اس کا کم ہی خیال رکھا جاتا ہے۔ اگلے وقتوں میں جب کتابوں، رسالوں اور اخبارات کی کتابت ہاتھ سے ہوتی تھی تو املاء کی غلطیاں نسبتاً کم ہوتی تھیں کیونکہ خوش نویس بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اگرچہ ان کی کتابت کی غلطیوں کے لطائف بھی آج تک زبان زدِ عام ہیں مگر عمومی طورپر صورت حال بہتر تھی۔ الیکٹرانک دور میں آج کل کام بہت تیزی سے ہوتا ہے لہٰذا احتیاط کا عنصر کم ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں ٹی وی سکرین پر جو ٹِکر (Ticker) چلتے ہیں وہ اس کی واضح مثال ہیں۔ جلدی میں تحریر کیے جانے والے ان ٹکرز میں ایسی ایسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہاں البتہ جہاں احتیاط سے کام کیا جاتا ہے وہاں پر نتائج بہت بہتر ہوتے ہیں۔ براہِ راست نشریات میں یہ احتیاط کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اسی طرح الفاظ کے تلفظ کا معاملہ ہے۔ ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان کی نشریات میں تلفظ پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی اور بڑے بڑے ریڈیو سٹیشنوں پر باقاعدہ ایک اسامی ہوتی تھی جس کو \"Pronunciation Checker\"کہا جاتا تھا۔ اس اسامی پر بڑے بڑے جیّد لوگ کراچی اور لاہور کے ریڈیو اسٹیشنوں پر مامور رہے ہیں۔ اب صورتحال بہت مختلف ہے۔ اب ریڈیو کی نشریات سند کا درجہ نہیں رکھتیں اور ہمارے نجی ٹی وی‘ ریڈیو بھی عمومی طورپر تلفظ کا جو معیار قائم کیے ہوئے ہیں وہ کسی طورقابلِ فخر نہیں ہے۔ اب آئیے تعلیمی اداروں کی طرف۔ جو ادارے اردو میڈیم کہلاتے ہیں وہاں تعلیم کا معیار ہی اس قدر پست ہے کہ اصلاحِ املاء اور تلفظ کا تقاضا کرنا زیادتی معلوم ہوتا ہے۔ جہاں تک دینی مدرسوں کا تعلق ہے‘ وہاں طالب علموں کا تلفظ کچھ زیادہ ہی درست ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو زبان کی لگام عربی زبان کے ہاتھ میں دی ہوتی ہے۔ اسی طرح جو انگلش میڈیم ادارے ہیں وہاں تو جس کو جتنی کم اردو آتی ہے‘ اتنا ہی اس کے لیے فخر کا مقام ٹھہرتی ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو کے جو ڈرامے‘ فیچر یا دیگر پروگرام ریکارڈ ہوتے ہیں یعنی جن میں سہولت ہوتی ہے کہ پروڈیوسر ایڈیٹنگ میں غلطیاں درست کرلے‘ ان کا معیار بھی محلِ نظر ہے اور فلموں میں جو زبان بولی جاتی ہے اس میں بھی تلفظ کی غلطیاں عام پائی جاتی ہیں۔ مندرجہ بالا پس منظر میں اصلاحِ احوال کی جو کوششیں ہوتی ہیں ان سے صورت حال اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مقتدرہ اردو زبان کا قومی ادارہ اس سلسلے میں آگے بڑھے اور مؤثر انداز میں رہنمائی کرے۔ کیسے کرے یہ اس ادارے کے ماہرین کو خود سوچنا چاہیے۔ اس کے علاوہ جو نشریاتی ادارے اور اخبارات یا انجمنیں ہیں وہ بھی اس میدان میں آگے آکر اصلاحِ املاء اور تلفظ کا کام ماہرین کی مدد سے اس طرح انجام دلوا سکتی ہیں کہ ایک مقام ایسا بن جائے جہاں سے صحیح املاء اور تلفظ کی سند جاری ہوسکے۔ زبان کے ماہر بتاتے ہیں کہ کسی لفظ یا ترکیب وتلفظ کا غلط العام ہوجانا فصیح ہوتا ہے اور اس کا غلط العوام رہنا غیر فصیح ہوتا ہے۔ اب کون سا لفظ یا تلفظ غلط العام ہوچکا ہے لہٰذا اس کو فصیح قرار دے دیا جائے یہ فیصلہ زبان کے ماہرین کرسکتے ہیں۔ آج کل بعض خودساختہ ماہرین جو الفاظ غلط العام ہونے کے سبب فصیح ہیں ان کو بھی غلط قرار دے کر عام پبلک کے ذہنوں میں اردو زبان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مرّوجہ اردو زبا ن کی سند جاری کرنے کا کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم لازمی طورپر وجود میں آنا چاہیے تاکہ لوگوں کو اگر کوئی اس حوالے سے الجھن پیش آئے تو اس کا مداوا ہوسکے۔ غلط العام اور غلط العوام میں فرق کرنا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہے۔ آپ لفظ امروز کی مثال لے لیں۔ فارسی کے لحاظ سے اس کا تلفظ ہوگا Imrooze اور صحیح بھی یہی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ Imrozeبولا جاتا ہے۔ اس کو زبان کے ماہرین نے غلط العام قرار دیا اور Imroze بولنا فصیح ٹھہرا۔ غلط العوام کے طورپر آپ لفظ فریقین کی مثال لے سکتے ہیں۔ ایک معاملے کے دوفریق ہوں تو ان کو فریقین بولاجاتا ہے کیونکہ عربی میں جس طرح مشرق سے مشرقین یعنی دو مشرق اور مغربین یعنی دونوں مغرب بنتا ہے اسی طرح فریقین کا واضح طورپر مطلب دو فریق ہے۔ ہمارے ہاں اکثر سنتے ہیں کہ دونوں فریقین نے یہ کیا یا معاملے کے تمام فریقین نے یہ کیا۔ اس کو ماہرین درست نہیں مانتے۔ دونوں فریقین کے بجائے فریقین یا دونوں فریق کہنا اور لکھنا درست ہوگا جبکہ تمام فریقین کی جگہ تمام فریق لکھنا درست ہوگا۔ اس صورتِ حال میں جوکوئی بھی دونوں فریقین استعمال کرے گا اس کا وہ استعمال غلط العوام قرار دیا جائے گا اور غیرفصیح ہوگا۔ زبان کی اصلاح کے ضمن میں آج کل بھی کوششیں تو دکھائی دیتی ہیں اور اخبارات میں اور ٹی وی چینلز پر بھی کسی نہ کسی طوراملاء اور تلفظ کی اصلاح پرتوجہ مبذول ہوتی ہے مگر اس سے صورتِ حال درست نہیں ہوسکتی۔ ایک مرکزی ادارہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو ہماری قومی زبان کی کشتی کو پاکستان کی مختلف علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کے پانی میں اس خوبصورتی سے چلائے کہ یہ زبان روز بروز نکھرتی چلی جائے۔ یہ اردو زبان کا ہم پر قرض ہے۔ معروف موسیقار خورشید انور مرحوم کہا کرتے تھے کہ برصغیر کو مسلمانوں نے تین تحفے دیے ہیں ۔ کلاسیکی موسیقی، تاج محل اور اردو زبان ۔ بھارت تو اردو کی قدر نہیں کررہا حالانکہ اس کے بالی وڈ کی فلم اب بھی ہندی میں نہیں اردو میں بنتی ہے لیکن ہمیں اس کی قدرکرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ آج نہ سہی کل۔ سائنس کو اردو زبان میں منتقل ہونا ہے۔ یہ مستقبل میں ہمارے کمپیوٹر کی زبان ہوگی اور گوگل کا تمام مٹیریل جس طرح چینی، جاپانی اور دیگر زبانوں میں بھی دستیاب ہے‘ اردو میں بھی ہوگا۔ کوششیں اب بھی ہورہی ہیں‘ اور زیادہ ہوں گی۔ اگر ہم خورشید انور مرحوم کی بات کو درست مانیں تو یاد رکھیں کہ تاج محل تو تقسیمِ ہند کی وجہ سے ہم سے چھن گیا، کلاسیکی موسیقی کو ہم نے خود طلاق دے دی اور اب اردو ہی مسلمانوں کے ورثے کے طورپر رہ گئی ہے اور یہ اب پاکستان کے ساتھ لازم وملزوم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved