تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-11-2017

سُرخیاں‘ متن اور جبّار واصفؔ کی شاعری

مُجھے سزا دی نہیں‘ دلوائی جا رہی ہے : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''مجھے سزا دی نہیں‘ دلوائی جا رہی ہے‘‘ جبکہ میں اب تک عدالت کو فضول ہی کوستا رہا ہوں۔ اس لیے اب عدالت کے لتے لینے کی بجائے میرا روئے سخن سزا دلوانے والوں کی طرف ہو گا۔ شاید وہ ساری بساط ہی لپیٹ دیں اور میرا شہید بننے کا خواب پورا ہو جائے‘ اور یہ روز روز کی جھک جھک ختم کر کے چار دن آرام کر سکوں‘ اگرچہ زرداری صاحب کے پیر اعجاز ہاشمی صاحب مدظلہ سے دعا تو کروائی ہے لیکن دشمن کا پیر میرے حق میں دعا کیسے کر سکتا ہے‘ بددعا ہی دی ہو گی حالانکہ اس کی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے بغیر بھی سارا کام پوری تیزرفتاری سے ہو رہا ہے۔ جس سے اپنی تیزرفتار ترقی بری طرح یاد آئی ہے‘ جس کے لالے پڑے ہوئے ہیں کیونکہ میں جیل وغیرہ سے ہرگز نہیں ڈرتا‘ خدا اس ترقی کو دشمنوں سے محفوظ رکھے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز عدالت سے باہر گفتگو اور اپنے وکلاء سے ملاقات کر رہے تھے۔
قبل ازوقت الیکشن کی بات کرنے والوں 
کو ملکی ترقی پر تکلیف ہے : شہبازشریف
میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''قبل از وقت الیکشن کی بات کرنے والوں کو ملکی ترقی پر تکلیف ہے‘‘ اور ملکی ترقی سے جو ہماری مراد ہے‘ اب تو اس کو ہر کوئی سمجھنے لگ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاست کھیل تماشا نہیں ہے‘ بلکہ برسات کے دنوں کے لیے کچھ بچا کر رکھنے کا نام ہے لیکن دشمنوں کو اب وہ بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہا‘ انہوں نے کہا کہ ''شعبدہ بازوں کو عوام نے ہر محاذ پر شکست دی اور اب وہ اصل شعبدہ بازوں کو بھی پہچان چکے ہیں جس سے مستقبل خاصا تاریک ہو کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مایوسی پھیلانے والے قوم پر رحم کریں‘‘ جس کی حالت پہلے ہی خاصی نازک ہوچکی ہے اس لیے 'مرے کو مارے شاہ مدار‘ والی بات نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاست عوام کی بے لوث خدمت کا نام ہے‘‘ اور یہ خدمت اگر عوام تک نہیں پہنچ رہی تو اس میں سارا قصور عوام کا ہے‘ یعنی یہ منُہ اور مسور کی دال۔ آپ اگلے روز ایک جرمن وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہم ماڈل ٹائون جیسا دوسرا سانحہ نہیں چاہتے : احسن اقبال
وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''ہم ماڈل ٹائون جیسا دوسرا سانحہ نہیں چاہتے‘‘ کیونکہ وہ ایک ہی کافی تھا جس سے مظاہرہ کرنے والوں کو کان ہو گئے ہیں جبکہ موجودہ مظاہرین کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے طور طریقوں سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں‘ اگرچہ ماڈل ٹائون رپورٹ پبلک ہونے کے خدشات سے ہمیں اپنے اطوار بدلنے کی طرف بھی توجہ مبذول کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے والے چاہتے ہیں کہ دو تین لاشیں گریں اور ہنگامہ آرائی ہو‘‘ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ لاشیں دو تین نہیں بلکہ چودہ بھی گر سکتی ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے پر مجبور ہے اور ہم اس کے بعد ایک دفعہ پھر جوڈیشل رپورٹ کو غائب غُلّہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ حکومت اگر اتنا بھی نہ کرے تو اس کی گاڑی کیسے چلے گی۔ اور یہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ گاڑی چلانے کے لیے حکومت کو کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز آپ ایک مشاورتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
دھرنا والے عمران خاں کے کہنے پر انتشار پھیلا رہے ہیں : عائشہ گلالئی
تحریک انصاف کی منحرف رہنما عائشہ گلالئی نے کہا ہے کہ ''دھرنا والے عمران خان کے کہنے پر انتشار پھیلا رہے ہیں‘‘ بلکہ میں نے خود بھی عمران خان کو ان کے دھرنے میں نعرے لگاتے دیکھا ہے بلکہ ملک میں جہاں کہیں بھی انتشار پھیلایا جا رہا ہے اس کے پیچھے عمران خان کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کے تعلقات طالبان کے ساتھ ہیں‘‘ اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس کے تعلقات کہاں کہاں ہیں اور کہاں کہاں اس نے تعلقات نبھانے سے انکار کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران نیازی جو انصاف کی بات کرتے ہیں انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خاں میں ہونے والی لڑکی کے ساتھ زیادتی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی‘‘ کیونکہ وہ ایک جھوٹا شخص ہے اور ہر ایک سے جھوٹے لارے لگاتا رہتا ہے اس لیے سب کو اس سے بچ کر رہنا چاہیے۔ آپ اگلے روز نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے
یہ جبار واصفؔ کا مجموعہ ہے جسے ''ماورا‘‘ نے چھاپا اور اس کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔ فلیپ لکھنے والوں میں محمود شام‘ نصیر ترابی اور باقی احمد پوری شامل ہیں۔ انتساب انہوں نے اپنی اولین مادر علمی ایم سی جونیئر پرائمری سکول کے نام کیا ہے جہاں ٹاٹ پر بیٹھ کر سچی اور درویش صفت استانیوں سے حاصل کی گئی پرائمری تعلیم نے مجھے سماجی شعور اور احساس کی مضبوط بنیاد فراہم کی‘‘ ...محمود شام کے مطابق ان کے ہاں الفاظ کا چنائو سادہ بھی ہے اور دل میں اُتر جانے والا بھی۔ ان کو سن کر بھی رات ہوتی ہے اور پڑھ کر بھی۔ نصیر ترابی کے بقول یہ اُس وجدانی گنجائش کی روئیداد ہے جو مستعار نسبتوں سے بعید ہو کر بڑی خودجوئی اور خوش گوئی سے اظہار کناں ہوئی ہے‘ جبکہ باقی احمد پوری کے مطابق رحیم یار خاں اور ادبی فورم کے بانی اور صدر کی حیثیت سے جبار واصف کی ادبی و سماجی خدمات کو بھی نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دیگر تحسینی اظہار رائے کرنے والوں میں ڈاکٹر قمر صدیقی‘ اقبال ارشد‘ حسن عباس رضا‘ سہیل ثاقب‘ محمد سلیم ہاشمی اور زاہد نثار شامل ہیں۔ یہ نک سک سے درست‘ فنیّ اغلاط سے پاک اور بے عیب شاعری ہے اور اس کے مطالبہ سے مندرجہ بالا جملہ حضرات کی رائے کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہ شاعر کا پہلا مجموعہ کلام ہے جس میں غزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی شامل ہیں۔ میں خود یہ شاعری پڑھ کر بیحد خوش ہوا ہوں۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ ضعف ِ دماغ اب اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھُول جاتا ہوں

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved