مفادات کی پرستش کرنے سے ہی خاندان اور معاشرے کمزور ہوتے ہیں مایا اینجلو، امریکہ سے تعلق رکھنے والی ایک حبشی شاعرہ ہے جو اپنی کالی رنگت اور دبتے ہوئے نقش ونگار کے ساتھ بظاہر ایک معمولی عورت دکھائی دیتی ہے لیکن جب اس کی تحریروں کے آئینے میں اس کا عکس دیکھیں تو وہ ایک مضبوط، پراعتماد، اجلی اور خوب صورت عورت نظر آتی ہے۔ زندگی کی محرومیوں اور حادثات کو اس نے اپنی طاقت بنایا۔ اسی نے کہا کہ Being a woman is hard work وہ زندگی میں سخت مقامات سے گزری۔ امریکہ جیسے آزاد معاشرے میں لڑکیاں جن مسائل کا سامنا کرتی ہیں وہ گمبھیر مسائل مایا اینجلو کی زندگی میں بھی آئے۔ وہ اپنی ٹین ایج تک ، زندگی کے اونچے نیچے راستوں کی خاک پھانک چکی تھی۔ اس نے still I riseاور I know, why the caged bird singsجیسی خوب صورت نظمیں لکھیں۔ اس کی خود نوشت A heart of a woman دنیا بھر میں خواتین کی پسندیدہ سوانح عمری ہے اس لیے کہ اس سے خواتین کو زندگی گزارنے اور زندگی کی مشکلات برداشت کرنے کا ہنر بھی آتا ہے۔ نئی نسل کی لڑکیوں کے لیے مایا اینجلو نے ایک ماں بن کر سوچا اور چاہا کہ انہیں زندگی کی وہ رمز سکھا دی جائے جسے اپنے پلو سے باندھ کر وہ زندگی کی ناہمواریوں کو شاداب دل کے ساتھ قبول کرلیں اور زندگی کے پتھریلے راستوں سے ہنستی مسکراتی گزر جائیں۔ شاید ایسا کوئی خیال مایا اینجلو کے جی میں آیا ہوگا کہ اُس نے نئی نسل کی لڑکیوں کے نام ایک کتاب لکھی۔ کتاب کا نام بڑا دل پزیر ہے۔ \"A letter to my daughter\" اس کے دیباچے میں وہ لکھتی ہے: ’’میں نے جنم تو ایک بیٹے کو دیا مگر میری ہزاروں بیٹیاں ہیں جن کا تعلق دنیا کے ہرخطے سے ہے… کالی ، گوری، دبلی، موٹی، خوب صورت، کم صورت ۔ میں ان ہزاروں بیٹیوں کے نام یہ خط لکھ رہی ہوں۔‘‘ اس کتاب میں 28مضامین شامل ہیں جن کا بنیادی سبق یہ ہے کہ زندگی میں امید اور یقین کو کیسے سلامت رکھا جائے، کیسے مضبوط کیا جائے اور زندگی نامہربان بھی ہوتو اپنے رویے کو کیسے ملائم رکھا جائے۔ ایک بہتر اور کارآمد انسان جو دوسروں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالے، کیسے بنا جائے؟ یہ خطوط پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک مغربی معاشرے کی دانشور زندگی گزارنے کی جو رمز بتاتی ہے وہ وہی ہے جو ایک مشرقی ماں اپنی بیٹی کو سکھاتی ہے۔ ایک جگہ مایا اینجلو بیٹی کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے: Try to be a rainbow in someone else\'s cloud. دوسروں کے لیے اپنی زندگی جینے کا درس اور دوسروں کی خاطر ایثار اور قربانی کرنے کا حوصلہ رکھنا ایک اعلیٰ ترین انسانی وصف ہے۔ زندگی کی دوڑ میں صرف اپنے مفادات کی پرستش کرنے سے ہی خاندان اور معاشرے کمزور ہوتے ہیں۔ اور مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جواسلامی اور مشرقی معاشرہ ہے، یہاں والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ انسانی وصف سکھانے کی سعی نہیں کررہے۔ دنیا بھر کی بیٹیوں کو مزید نصیحت کرتے ہوئے مایا اینجلو لکھتی ہے: ’’جوچیزیں تمہیں پسند نہیں ہیں، انہیں بہتر کرنے کی ہرممکن کوشش کرو لیکن اگر تم تبدیلی نہ لاسکو تو پھر اپنی سوچ کا انداز بدل ڈالو۔لیکن شکایت مت کرو۔‘‘ ’’زندگی میں جوکچھ ہوتا ہے تم اسے کنٹرول نہیں کرسکتی۔ لیکن یہ فیصلہ تمہارا اپنا ہے کہ بُرے حالات بھی تمہیں شکست خوردہ نہ کریں۔‘‘ 8مارچ کو دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کچھ این جی اوز اس دن ایسے خیالات کاپرچار کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے عورت کا بنیادی اور مرکزی کردار جو خاندان کو بنانے میں ہوتا ہے اور جس میں عورت کو قربانی دینا پڑتی ہے، اس کو تحقیر کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ ہمیں تو اس بات پر فخر محسوس کرنا چاہیے کہ خواتین کی وجہ سے خاندان مضبوط ہوتے ہیں تو معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مرد کی نسبت عورت کے لیے زندگی کا سفر مسائل سے بھرپور ہوتا ہے۔ اگر عورت گھر سے باہر بھی کام کرتی ہے تو راستے سہل نہیں ہوتے۔ زندگی میں عورت کے اس مقام کو تسلیم کرنا چاہیے کہ عورت بہترین انداز میں کئی کردار نبھاتی ہے اور اس سفر میں وہ خود کتنے دشوارراستوں سے گزرتی ہے۔ لیکن افسوس‘ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ مایا اینجلو ،بیٹی کے نام خط میں ایک جگہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے: We are delighted, in the beauty of the butterfly, but rarely admit, the change, it has gone through to achieve that beauty\" کل آٹھ مارچ کو پاکستان میں بھی جگہ جگہ عورتوں کے دن کے حوالے سے تقریبات ہوں گی۔ سیمینار ہوں گے، بڑے بڑے ہوٹلوں میں قیمتی ڈیزائنر ڈریس میں ملبوس فیشن ایبل، امیر خواتین اپنی تقریروں میں عورتوں کی سیاسی اور سماجی جدوجہد پر روشنی ڈالیں گی اور اس میں شاید ہی اس عورت کا ذکر آئے جو اینٹیں ڈھوتی ہے، گھروں میں برتن مانجھتی ہے، چھابڑی لگاتی ہے، بھٹوں پر کام کرتی ہے، غرض کہ زندگی گزارنے کے لیے اپنے وجود کو زندگی کی بھٹی میں روز جھونکتی ہے۔ وہ بے خبر ہے کہ اس کے نام پر ایک دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یہ وہ عورت ہے جو اپنے ننھے بچے کو اپنی کمر پر لٹکائے، دھوپ میں اینٹیں کوٹتی ہے۔ پھر بھی مسکراتی ہے۔ خواب دیکھتی ہے اور ہرروز زندگی کو ایک نئے سرے سے گزارنے کا عزم لے کر نکل کھڑی ہوتی ہے۔ اس عورت کو ہمارا سلام ! مایا اینجلو اسی عورت کو خراج پیش کرتی ہے: \"Just like moon and like suns with the certainty of tides Just like hopes springing high, Still I\'ll rise!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved