''نقاط‘‘ کا جو غالباً کتابی سلسلہ ہے‘ فیصل آباد سے معروف نقاد اور شاعر قاسم یعقوب نکالتے ہیں جس کا شمارہ 14 اور 15زیرنظر ہیں۔ معیار اور پیشکش کے حوالے سے یہ صف اول کے جریدوں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے۔ نقاط 14 کی قیمت 300 روپے جبکہ 15 کی 600 روپے ہے اور ممتاز اور بامعنی ادیبوں کی تحریریں ان میں شامل ہیں‘ حصہ نثر میں ڈاکٹر ناصر عباس نیئر سے لے کر آصف فرخی تک اور شاعری میں نسرین انجم بھٹی سے لے تبسم کاشمیری تک‘ درجہ اول کے لکھنے والوں کی بہار لگی ہوئی ہے۔ کم و بیش ہر صنف ادب کی نمائندگی یہاں دستیاب ہے۔ اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو اس کے لیے پوری ایک کتاب درکار ہو گی جبکہ کالم کا دامن بلکہ قافیہ خاصا تنگ ہے۔ اگر یہ رسالہ ابھی تک آپ کی لائبریری کی زینت نہیں بنا تو آپ کے ذوق ادب پر سوال اٹھ سکتا ہے۔ حصہ شاعری بالخصوص غزل‘ جس کا آج کل ویسے ہی بہت برا حال ہے‘ دونوں شماروں میں عمدہ غزلوں بھرمار دیکھ کر اس صنف پر دوبارہ ایمان لانے کو جی چاہتا ہے ورنہ یہ شعبہ کم و بیش ہر جریدے میں‘ مایوس کن ہی ہوتا ہے۔ فی الحال ''نقاط‘‘ 14 میں سے کچھ اشعار آپ کی ضیافت طبع کے لیے :
میں اپنے آپ سے لڑنے لگا ہوں تیرے لیے
تجھے مدد کے لیے بھی بلا نہیں سکتا (شاہد اشرف)
ایک تو وہ ہے جو لہروں میں بناتا ہے بھنور
دوسرا اس کے علاوہ ہے سرِآبِ رواں (عماد اظہر)
تم مری آنکھ نہیں‘ دل میں رُکے ہو عامیؔ
اب مجھے چھوڑ نہیں‘ توڑ کے جا سکتے ہو (عمران عامیؔ)
ہوا سے‘ روشنی سے رابطہ نہیں رہا
جدھر تھیں کھڑکیاں اُدھر مکان بن گیا
..................
مُشترک دوست بھی چھُوٹے ہیں تجھے چھوڑنے پر
یعنی دیوار ہٹانی پڑی تصویر کے بعد
میں خود کو تجھ سے مٹائوں گا احتیاط کے ساتھ
تُو بس نشان لگا دے جہاں جہاں ہوں میں (عمیر نجمی)
لے آئی چھت پہ کیوں مجھے بے وقت کی گھٹن
تیری تو خیر بام پہ آنے کی عُمر ہے (اظہر فراغ)
..................
یوں تو ہوتا ہے کہ مرتے ہیں محبت میں لوگ
کبھی یوں بھی کہ محبت میں کوئی مر جائے
کسی سے وعدہ کرے یونہی کوئی مرنے کا
اور پھر اولیں فرصت میں کوئی مر جائے (احمد سلیم رفی)
..................
دہانے تک چلے آئے ہیں کچھ پتھر لڑھک کر
مگر یہ نہر سینے سے یونہی جاری رہے گی (سعید شارق)
..................
نہیں‘ میری وہ کچھ نہیں لگتی
ہم فقط ساتھ کام کرے ہیں
یہاں گلیوں کا حکم چلتا ہے
اور مکانات کام کرتے ہیں (بہنام احمد)
اور‘ اب ''نقاط‘‘ 15سے کچھ اشعار :
ہمیشہ لگتا ہے مسکن نہیں یہاں میرا
میں اپنا زادِ سفر کھولنے سے ڈرتا ہوں
..................
میں اپنا آپ پہن کر نکل پڑا گھر سے
کسی بھی شخص کی پہچان میں نہیں آیا (اقبال نوید)
..................
آنکھ نے اک دیوار اٹھائی دوری کی
دل نے پھر اس میں اک رخنہ چھوڑ دیا
سارے شہر میں رات ہوا نے دستک دی
ایک دیا اور ایک دریچہ چھوڑ دیا
..................
ایک اک کر کے پرندوں نے تو ہجرت کر لی
پیڑ ہوں‘ پیڑ تو ہجرت بھی نہیں کر سکتا
..................
کیا مجھے سانس بھی لینے کی اجازت نہیں ہے
کیا میں ایک اور محبت بھی نہیں کر سکتا
..................
گھر کی تختی سے ملا آج مجھے اپنا پتا
اپنے ہونے کی گواہی ملی دروازے سے
میں نے اس خواب کو اندر کہیں مسمار کیا
میری آواز نہ باہر گئی دروازے سے
تونے مہتاب نکلتے ہوئے دیکھا ہے کبھی
اور مہتاب بھی ایسے کسی دروازے سے
یہ محبت جس کی خاطر عمر گزری ہے تمام
نامکمل نیند ہے اشرف ادھورا خواب ہے
آمادئہ حیات بھی اس آنکھ نے کیا
پھر زندگی بھی اس کے اشارے پہ چھوڑ دی
باغ کے درمیاں ایک دیوار ہے
کچھ اِدھر پھول ہیں کچھ اُدھر پھول ہیں (اشرف یوسفی)
..................
جب گلے سے مجھے لگایا گیا مجھ سے رویا نہ مسکرایا گیا
جہاں دیوار و در دھڑکتے ہوں وہی آساں سا راستہ ہے میرا
میں کچھ قدیم چراغوں سے گفتگو کر لوں
تم اتنی دیر میں اس شہر کی ہوا لے لو (انجم سلیمی)
..................
دشمن پہ جاتے جاتے یہ احسان کرتا جائوں
میں خود ہی اپنی ہار کا اعلان کرتا جائوں (قمر رضا شہزاد)
(جاری ہے)
آج کا مطلع
روانگی کی انوکھی خبر بناتے ہوئے
تمام ہو گئے رختِ سفر بناتے ہوئے
........................