تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-11-2017

یہ دیگ نہ اُترے چولھے سے

ہوش کھونے کے لیے اور بھی بہت سے مواقع اور معاملات قدرت نے خلق کیے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ کھانے پینے کے معاملے میں ہوش و حواس سے یکسر بیگانہ ہو بیٹھنا انسان نے اپنے آپ پر فرض کرلیا ہے! یہ واحد معاملہ ہے جس میں انسان اُصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کرتا یعنی کھانا ہے تو کھانا ہے اور پینا ہے تو پینے کے بعد ہی سکون کا سانس لینا ہے۔ ایسے میں ظالم سماج کی دیوار بھی ڈیڑھ فٹ کی منڈیر ثابت ہوتی ہے جسے پھلانگنے میں دیر لگتی ہے نہ محنت۔ 
چند برسوں سے ہمارے ہاں سیاسی جلسوں کے آخر میں بریانی تقسیم کرنے کی ''تابندہ روایت‘‘ نے جنم لیا ہے۔ اس روایت کو ہم تابندہ اس لیے قرار دے رہے ہیں کہ بریانی کی تقسیم کا منظر دیکھ کر دنیا بھر کے میلے ایک پیج پر آتے دکھائی دیتے ہیں! جلسوں کے آخر میں کھانے کی تقسیم کا اہتمام سیاسی قائدین کی دانش پر دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کا پیٹ اگر باتیں نہ بھر پائیں تو کم از کم بریانی ہی بھردے! اور ساتھ ہی ساتھ اگلے جلسے کے حوالے سے یقین دہانی بھی حاصل ہوجائے کہ نئے وعدے ملیں نہ ملیں، تازہ بریانی ضرور ملے گی۔ 
کھانے پینے کی حقیقی اشیاء یعنی دستر خوان پر دکھائی دینے والے آئٹمز سے ہٹ کر ایک ڈش ایسی بھی ہے جو پیٹ اور دل دونوں کو بھرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور ذہن کو مطلوب آسودگی اِس طرح فراہم کرتی ہے کہ کچھ دیر کے لیے زندگی کے کسی معاملے سے کوئی شکوہ باقی نہیں رہتا! پاکستانی معاشرے کا بھرپور مطالعاتی جائزہ لیجیے اور مشاہدے کی بنیاد پر تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر اذہان میں کوئی خیال بستا ہو یا نہ بستا ہو، خیالی پُلاؤ ضرور پایا جاتا ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ بہت سے اذہان اب خیالی پُلاؤ کی دیگ کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں اور دیگ بھی ایسی کہ چولھے سے اترنے کا نام نہ لے! 
برطانوی ماہرین نے ذہن کی کارکردگی سے متعلق تازہ ترین تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر بتایا ہے کہ دماغ کا جو حصہ ہمیں جاگتے میں خواب دکھاتا ہے وہی حصہ بغیر سوچے سمجھے خودکار طریقے سے کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ دماغ کے چند مخصوص حصے، جنھیں ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک (ڈی ایم این) کہا جاتا ہے، اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب ہم جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں یا پھر ماضی یا مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے معلوم کرلیا ہے کہ دماغ کے یہی حصے ہمیں بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے کاموں میں بھی مدد دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی جانی پہچانی سڑک پر گاڑی چلانا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس تحقیق سے دماغی امراض میں مبتلا افراد کا علاج آسان بنایا جاسکے گا۔ 
کچھ سمجھے آپ؟ جو کچھ محققین نے تکنیکی زبان میں بیان کیا ہے اُسے آسان زبان میں خیالی پُلاؤ پکانا کہتے ہیں۔ یعنی جب ہم جانی پہچانی صورتِ حال میں ہوتے ہیں تو ذہن پر زیادہ زور نہیں پڑتا۔ ذہن کی توانائی نئی صورتِ حال یا پیچیدہ معاملات پر زیادہ خرچ ہوتی ہے۔ 
برطانوی محقق ڈینز واٹنسیور کہتے ہیں کہ ڈی ایم این ہمیں اس بات کا پہلے سے اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ہمیں مسلسل سوچتے رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ کسی خودکار نظام یا آٹو پائلٹ کی طرح ہے جو اپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے تاکہ ہم تیزی سے فیصلے کرسکیں۔ جب ہم کسی انجانے ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ مینیوئل موڈ میں آجاتا ہے اور خودکار نظام یعنی ڈی ایم این بند ہوجاتا ہے۔ اگر دماغ کسی چیز پر مسلسل توجہ دیتا رہے تو وہ جلد ہی تھکن کا شکار ہوکر کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ جاگتے میں خواب دیکھنے یا خیالی پلاؤ پکانے سے دماغ کو کچھ دیر آرام کا موقع مل جاتا ہے تاکہ اگلی بار جب ضرورت پڑے تو اُسے فوراً حرکت میں لایا جاسکے۔ 
تکنیکی تفصیل سے قطعِ نظر، ماہرین کی ''پس ماندگی‘‘ ملاحظہ فرمائی آپ نے؟ اچھے خاصے فنڈز خرچ کرکے اتنی محنت سے ماہرین نے تحقیق کی اور جو نتائج اخذ کیے وہ ہم نہ صرف یہ کہ ایک زمانے سے جانتے ہیں بلکہ اُس کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں! ماہرین اب بتا رہے ہیں کہ خیالی پُلاؤ پکانے سے ذہن کو آسودگی ملتی ہے۔ ہم نے اِس شعبے میں ایسی بھرپور ''ترقی‘‘ کی ہے کہ دنیا چاہے تو ذہن کو زیادہ سے زیادہ آسودگی فراہم کرنے کے طریقے ہم سے سیکھے اور یہ بھی کہ خیالی پُلاؤ زیادہ سے زیادہ کس طور پکایا جائے اور اُس میں زیادہ سے زیادہ لذت کس طور پیدا کی جائے! 
ہم نے دل و دماغ کو سکون سے ہم کنار رکھنے کا یہ نسخہ اپنایا ہے کہ خیالی پُلاؤ کی دیگ کو چولھے سے اترنے نہیں دیتے۔ بسیار خوری کی پروا ہے نہ اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدہضمی کی۔ خیالی پُلاؤ کی دیگ چولھے پر چڑھی رہتی ہے۔ ہم پکاتے جاتے ہیں اور کھاتے جاتے ہیں۔ اُدھر دیگ خالی نہیں ہوتی اور اِدھر ہم نہیں بھر پاتے۔ برطانوی ماہرین کبھی اِس طرف آ نکلیں تو ہم اُنہیں اپنے خیالی پُلاؤ کا مزا چکھائیں تاکہ اُنہیں بھی معلوم ہو کہ زندگی کے تقریباً تمام ہی معاملات کو متوازن، پرسکون اور ٹھنڈا ٹھار رکھنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ مگر صاحب، وہ کیوں ہماری بات رکھنے لگے؟ انہیں تو صرف ایسی تحقیق کا بازار گرم کرنے سے غرض ہے جس کے نتائج ہم عشروں، بلکہ صدیوں سے جانتے ہیں۔ 
روئے ارض پر طرح طرح کے معاشرے پائے جاتے ہیں۔ ہر معاشرہ اذہان کو زیادہ سے زیادہ آسودگی سے ہم کنار رکھنے کے لیے اپنے رجحان، ضرورت اور سہولت کے مطابق پتا نہیں کیا کیا پکاتا ہے۔ ہم اس معاملے میں زیادہ تکلف کے قائل نہیں۔ ذہن کو سکون اور دل کو آرام پہنچانے کے لیے محض ایک بھرپور ڈش یعنی خیالی پُلاؤ ہی کافی ہے! اور پھر یہ ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ بھی تو ہے۔ ہم خیالی پُلاؤ پکاتے رہتے ہیں اور دنیا کو اس بات کا علم رہتا ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں آج بھی ہمارا تعلق ''خیال آفرینی‘‘ سے برقرار ہے! 
خیالی پُلاؤ کی بھی کیا بات ہے کہ ذہن کا پیٹ تو بھر دیتا ہے، نیت نہیں بھرنے دیتا۔ کتنا ہی کھائیے، مزید کھانے کی خواہش برقرار رہتی ہے۔ یہ سلسلہ غالبؔ کے دور سے چلا آرہا ہے۔ اُنہیں بھی کچھ کرنے سے زیادہ ایک طرف بیٹھ کر یا کسی کونے میں لیٹ کر خیالی پُلاؤ پکاتے رہنا پسند تھا۔ طبیعت کے اسی میلان کی طرف اشارا کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ؎ 
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن 
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے! 
دہلی کی عالمگیری نہاری کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ عالمگیر کے زمانے میں ایک بھٹیارا روزانہ نہاری کی دیگ سے ایک پتیلی کے برابر نہاری نکال لیتا تھا جو اگلے دن پکائی جانے والی نہاری میں شامل کردی جاتی تھی۔ مقصود یہ تھا کہ ماضی سے رشتہ جُڑا رہے اور کھانے والوں کو یہ محسوس ہو کہ وہ آج بھی عالمگیر کے زمانے کی نہاری کھا رہے ہیں۔ عالمگیری نہاری کی تاریخ تو مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر تک ملتی ہے مگر خیالی پُلاؤ کی دیگ کے بارے میں کوئی بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے کب سے چولھے پر چڑھا رکھی ہے! ویس بھی خیالی پُلاؤ پکانے والے تاریخ واریخ کے چکر میں کہاں پڑتے ہیں، بلکہ وہ تو کسی بھی چکر میں پڑنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved