تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-11-2017

باقی تمام تاویلات ہیں

تنازعات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں ۔ بنیادی سوال ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ قانون بروقت اور برمحل بروئے کار آئے۔ باقی سب کہانیاں ہیں‘ باقی تمام تاویلات۔
اللہ کرے بات چیت سے تنازعہ کسی طرح سلجھ جائے۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ پیر صاحب گولڑہ شریف کی موجودگی میں مظاہرین کے نمائندوں سے بات ہو رہی ہے۔ توقع یہ ہے کہ تحمل سے وہ بات سنیں اور تدبر سے گرہ کھولنے کی کوشش کریں گے۔
جمعہ کی شب دیر تک اخبار نویس جاگتا رہا۔ ایسی ہی ایک رات آنکھوں میں کٹ گئی تھی‘ جب ماڈل ٹائون کا سانحہ رونما ہوا تھا۔ افراتفری پھیلتے دیکھی۔ بے گناہوں کو مرتے دیکھا اور گلو بٹ کو پولیس کی خوشنودی کے ساتھ‘ گاڑیوں پر ڈنڈے برساتے۔ ایک ٹانکا لگانے کی ضرورت ہو اور نہ لگایا جائے تو پیرہن ادھڑ جاتا ہے۔ رفوگری ممکن نہیں رہتی... پھر کوئی دل فگار پکارتا ہے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
سوالات ہیں اور ان کے جواب کوئی نہیں دیتا۔ تین سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے مشتعل مظاہرین لاہور سے اسلام آباد کیسے پہنچے؟ کس طرح دارالحکومت کو انہوں نے یرغمال بنا لیا۔ نون لیگ کی پالیسی یہ رہی ہے کہ چھوٹی مذہبی جماعتوں‘ جمعیت اہلحدیث اور جمعیت علمائے پاکستان سے خوشگوار مراسم رکھے جائیں۔ ایک زمانے میں تو مولانا سمیع الحق بھی اس کے ٹکٹ پر سینیٹر تھے۔ اسی طرح پروفیسر ساجد میر اور فیصل آباد کے مولانا فضل کریم۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد‘ انہوں نے بریلوی مکتبِ فکر کو ایک جماعت میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ایک کارواں کے ساتھ‘ راولپنڈی سے انہوں نے لاہور کا قصد کیا۔ اتفاق سے میں‘ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے دفتر میں موجود تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ ایک سرکاری افسر نے‘ صورتحال بیان کی۔ فوراً ہی انہوں نے احکامات صادر کیے: مولانا فضل کریم اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت کی جائے‘ تشدد سے گریز کیا جائے‘ مگر دریائے سواں کے پل سے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ کسی بڑی ہنگامہ آرائی کے بغیر معاملہ نمٹا دیا گیا۔
ایک سوال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کا پراسرار معاملہ کیا ہے۔ راجہ ظفرالحق دم کیوں سادھے ہیں‘ وزیر اعظم اور جناب نواز شریف بھی۔ شہباز شریف نے ایک عدد وفاقی وزیر کی برطرفی کا مطالبہ کیوں داغ دیا تھا؟
وہی کہ پنجاب حکومت کیوں سوئی رہی؟ بدگمان کہتے ہیں کہ شہباز شریف ہنگامہ آرائی کے آرزومند تھے۔ پارٹی کی صدارت اور مستقبل کا وزیر اعظم نامزد ہونے کے بعد‘ نظر انداز کرنے پہ ناراض۔ گمان ہے‘ درست ہونے کا جتنا امکان ہے‘ غلط ہونے کا بھی اتنا ہی۔ ایسی چیزیں بہت دن راز نہیں رہتیں۔ بڑے بھائی کو بہت زیادہ ناراض کرنے کا خطرہ شہباز شریف مول نہیں لے سکتے۔ دوسری طرف یہ ایک واضح ناکامی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں پر اترنے والی آفت کے ہنگام‘ قوت فیصلہ سے محرومی یا زوال پذیر سول اداروں کی ناکامی۔ سیدنا علیؓ ابن ابی طالب نے فرمایا تھا: مصیبت میں گھبراہٹ‘ ایک دوسری مصیبت ہوتی ہے۔
شاخِ گل ہی اونچی ہے نہ دیوارِ چمن بلبل
تری ہمّت کی کوتاہی‘ تری قسمت کی پستی ہے
زخم ہوتے ہیں‘ وقت گزرنے کے ساتھ جو مندمل ہو جاتے ہیں ‘ اور ایسے بھی ہمیشہ جو ہرے رہتے ہیں۔ ماڈل ٹائون کا واقعہ انہی میں سے ایک ہے۔ خون ریزی کے اگلے ہی روز میں آئی جی مشتاق سکھیرا کے پاس پہنچا۔ اسی روز انہوں نے چارج لیا تھا۔ یعنی ماڈل ٹائون کی حکمت عملی‘ ان کے عنان سنبھالنے سے پہلے مرتب ہو چکی تھی۔ سکھیرا صاحب کا کہنا یہ تھا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کے طفیل ہوا۔ افواہ پھیل گئی کہ کچھ پولیس افسر قتل کر دئیے گئے ہیں۔ اس پر وہ ہیجان کا شکار ہوئے اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے حامیوں پہ چڑھ دوڑے۔
مان لیجئے کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔ جس سوال کا کبھی کسی نے جواب نہ دیا‘ وہ یہ ہے کہ ادارہ منہاج القرآن کے مقابل ایک رکاوٹ دور کرنے کے لئے‘ اتنا بڑا لشکر بھیجنے کی ضرورت کیا تھی۔ پولیس کے سبکدوش افسروں کا خیال یہ تھا کہ یہ ایک تھانیدار یا زیادہ سے زیادہ ایک مجسٹریٹ کا کام تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقصد ریاست کی حاکمیت قائم کرنا نہیں‘ بلکہ نکتہ چینوںکو خوفزدہ کرنا تھا۔
پیپلز پارٹی کے دور میں‘ اسلام آباد پہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے یلغار کی۔ رحمن ملک نے‘ جو قوم کی بدقسمتی‘ اور زرداری صاحب کی عنایت سے وزیر داخلہ تھے‘ مہم جوئی کا ارادہ کیا۔ اسلام آباد کے ہوش مند کمشنر طارق پیرزادہ آڑے آ گئے۔ وزیر اعظم کو انہوں نے لکھا کہ مظاہرین کو شہر میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ رحمن ملک نے اجازت دے دی‘ پھر ایک دن صبحِ صادق‘ طلوع ہونے سے پہلے‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کو گرفتار کرنے کی۔ آئی جی کلیم امام اور دوسرے سرکاری افسر بھی وزیرِ داخلہ سے نالاں رہا کرتے۔ وزیر اعظم پرویز اشرف کو حالات کی نزاکت کا احساس تھا؛ چنانچہ سختی کے ساتھ انہیں روک دیا گیا۔
لال مسجد کا سانحہ‘ روایتی سرکاری تساہل ہی نہیں بلکہ مدّت سے برقرار احمقانہ اندازِ فکر کا نتیجہ تھا۔ شہر کے قلب میں غیر قانونی طور پر ایک مدرسہ تعمیر ہوا بلکہ سب سے قیمتی سیکٹر ای سیون کے سامنے بھی۔ لجاجت کے ساتھ حکومت ان سے التجا کرتی رہی۔ انتہا یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے توسط سے بات کی۔ شہر کے نواح میں‘ ایک سو ایکڑ زمین کی پیشکش کی۔ مولوی صاحبان نے انکار کر دیا۔ شہر میں انہوں نے مدرسے کی شاخیں قائم کر لی تھیں۔ چندے کی فراوانی تھی۔ سرکاری افسروں کی مجال نہ تھی کہ جم کر کھڑے ہو سکیں۔ سرکاری مسجد میں فرقہ وارانہ نوعیت کے اجلاس ہوتے‘ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ ایک مشکوک آدمی مسجد کے نواح سے گرفتار ہوا۔ غازی صاحب کی گاڑی قبضے میں لے لی گئی۔ وہ منظر سے غائب ہو گئے۔ سرکاری افسر پریشان تھے۔ دو ایک مشترکہ دوستوں نے اس ناچیز سے رابطہ کیا۔ متعلقہ سرکاری افسر کی حکومت میں حاضر ہوا‘ وہ بیچارہ گھبرایا ہوا۔ کہا: کیوں آپ مجھے مبتلائے مصیبت کرتے ہیں۔ معذرت کی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ نرم دل آدمی تھا‘ کہا: کیا آپ وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپائو سے بات کر سکتے ہیں؟ ایک ممتاز سیاسی لیڈر سے درخواست کی: گاڑی واپس کر دی گئی۔ باقی تاریخ ہے۔
غازی صاحب کے گرامی قدر والد ایک ممتاز عالم دین تھے۔ مگر لال مسجد اس لئے ان کے سپرد نہ کی گئی تھی کہ حکمرانوں کو علم کا احترام تھا۔ ڈیرہ غازی خان سے اس لئے وہ لائے گئے تھے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان مزاری اور لغاری سرداروں سے ناخوش تھے... اور حضرت مولانا ان کے مخالف۔
اصولوں اور ضابطوں کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے کی بجائے‘ حکومتیں جب اس طرح ترجیحات طے کریں تو آخرکار یہی ہوتا ہے۔ پولیس کا ہر تھانیدار اگر من مانی کیلئے مقرر کیا جائے گا۔ ہر پٹواری اور ڈپٹی کمشنر کا تقرر‘ اگر اس بنیاد پر ہو گا تو نتیجہ معلوم۔
پختون خوا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد نے اقتدار سنبھالا تو ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل پر دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ جواب میں پولیس نے صرف تین گولیاں چلائیں۔ وہ اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو لے اڑے۔ ایک بار سیاسی مداخلت ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو صورتِ حال بہتر ہوتی گئی۔ خرابی اب بھی موجود ہے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے تازہ سانحے پر اب بھی بعض کے تحفظات ہیں۔ حادثے اب بھی رونما ہوتے ہیں۔ مگر پنجاب‘ بلوچستان اور سندھ کے مقابلے میں فضا بہتر ہی نہیں‘ بہت بہتر ہے۔ سابق آئی جی جناب درانی اور موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس کو سیاسی مداخلت کی شکایت ہرگز نہیں۔
بہترین پولیس رکھنے والے ممالک میں بھی حالات کبھی بگڑ جاتے ہیں۔ 1990ء کے عشرے میں نیویارک میں ہارلم کا علاقہ‘ دن دیہاڑے جہاں پولیس داخل نہ ہو سکتی تھی۔ چھ برس پہلے کا لندن‘ جہاں بڑے پیمانے کے نسلی فسادات ہوئے۔ ڈھنگ کی پولیس اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے لیڈر تیزی سے حالات کو سنبھال اور سنوار دیتے ہیں۔ جلد ہی زخم مندمل ہو جاتے ہیں۔
تنازعات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ بنیادی سوال ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ قانون بروقت اور برمحل بروئے کار آئے۔ باقی سب کہانیاں ہیں‘ باقی تمام تاویلات۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved