اسلام آباد کا محاصرہ جاری ہے اور راستہ بھی نظر نہیں آ رہا۔
ریاست‘ جسے ہمیشہ ایک شیر کا درجہ حاصل ہوتا ہے‘ جس سے سب ڈرتے ہیں اور اس کا کہا ہوا فائنل ہوتا ہے‘ بھی اس وقت سہمی ہوئی ہرنی کا سا کردار ادا کر رہی ہے۔
ہر کوئی ڈرا ہوا ہے۔ہر کوئی کسی کو ہاتھ لگانے سے ڈرتا ہے۔ عدالت کے جج نے دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا تو ان کے خلاف قابلِ اعتراض زبان استعمال کی گئی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کی پریس کانفرنس سے لگ رہا تھا کہ منت ترلے پر اتر آئے ہیں اور کسی بھی لمحے رو دیں گے۔ وزیر اعظم خاقان عباسی ڈر کے مارے منہ سے آواز نہیں نکال رہے کہ کہیں دھرنے والے ان کا استعفیٰ نہ مانگ لیں۔ وزیر قانون نے ابھی واٹس ایپ پر ویڈیو جاری کی ہے جس میں انہوں نے کلمہ‘ قرآن پڑھ کر یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اچھے مسلمان کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی منظرنامے سے بالکل غائب ہیں کہ کہیں کوئی ان کا نام نہ لے لے کہ انہوں نے ہی بل منظور کرایا تھا۔ حکومتی ایم این ایز ہائوس میں آنے کو تیار نہیں‘ جنہوں نے بل پڑھے بغیر ہی ایوان میں 'ہاں ہاں‘ کے نعرے لگائے تھے۔ اسلام آباد میں لگتا ہے کوئی حکومت نہیں۔ وزیر داخلہ سے امید تھی کہ شاید وہ کچھ حوصلہ پکڑیں گے لیکن سب جواب دے گئے ۔ عمران خان بھی خاموش ہیں۔ وہ خود ایک سو چھبیس دن تک دھرنا دے کر بیٹھے رہے‘ لہٰذا کیسے کسی پر تنقید کریں۔ یہی حال طاہرالقادری کا ہے کہ وہ بھی دو دفعہ اسلام آباد پر چڑھائی کرکے دیکھ چکے۔ چند ٹی وی اینکرز اور کالم نگاروں نے جرأت کر کے دھرنے والوں پر سوالات اٹھائے‘ تو بقول صدیق جان کے دھرنے میں ان سب کے نام بول کر تبرے پڑھے گئے۔ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عدالت کی رٹ ناکام، وزیر اعظم خاموش، وزیر داخلہ منت ترلے پر اتر آئے ہیں، پارلیمنٹ بھاگ گئی، وزیرِ قانون واٹس ایپ پر کلمے پڑھ رہے ہیں، پولیس خاموش تماشائی بن گئی ہے، اور میڈیا بھی گالیاں کھا کر چپ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسی ریاست‘ جس کے بیس کروڑ عوام دن رات ایک دوسرے کو یاد کرا کے سوتے ہیں کہ وہ ایک ایٹمی قوت ہیں، اس حالت تک کیسے پہنچی کہ سب ڈر کے مارے گھروں میں بند ہیں اور پورا پنڈی‘ اسلام آباد یرغمال بن چکا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کو کیا پڑی تھی کہ وہ قانون میں ترمیم کرتی۔ چلیں غلطی کا احساس ہوا‘ اور غلطی درست کر دی گئی‘ تو پھر شہباز شریف نے کیوں لوگوں کو ایک نیا راستہ دکھایا؟ کیوں انہوں نے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں نواز شریف کو مخاطب کرکے مطالبہ کیا کہ وہ اس وفاقی وزیر کو کابینہ سے برطرف کر دیں جس نے وہ ترمیم منظور کرائی۔ شہباز شریف اب یہ کہہ کر نہیں بچ سکتے کہ ان کا دھرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیسے نہیں ہے کہ آپ نے جو مطالبہ پندرہ دن پہلے کیا تھا‘ وہی مطالبہ اب دھرنے والے اسلام آباد پہنچ کر دہرا رہے ہیں۔ اگر شہباز شریف سمجھتے تھے کہ یہ کام ایک وفاقی وزیر کا ہے تو پھر وہ اس وزیر سے استعفیٰ بھی لے سکتے تھے یا دلوا سکتے تھے۔ یہ عجیب کھیل ہے کہ ایک بھائی (نواز شریف) زاہد حامد کو تحفظ دے رہا ہے اور دوسرا بھائی (شہبازشریف)اسی وزیر کا استعفیٰ مانگ رہا ہے۔ دونوں بھائی پھر وہی پرانا 'گڈ کاپ بیڈ کاپ‘ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
یہ طے ہے‘ اب ریاست میں اتنا دم نہیں رہ گیا کہ وہ ان ایشوز سے نمٹ سکے۔ جب لال مسجد میں آپریشن کیا گیا‘ تو مجھے یاد ہے لندن میں انہی دنوں ایک اے پی سی ہو رہی تھی اور نواز شریف اس کی صدارت کر رہے تھے۔ وہاں باقاعدہ اس آپریشن کے خلاف تقریریں ہوئیں اور مذمت کی گئی۔ مذمت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپریشن غلط تھا‘ بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ جنرل مشرف نے کیا تھا۔ جنرل مشرف ابھی تک اس مقدمے کو بھگت رہے ہیں۔ اسی طرح ماڈل ٹائون میں پولیس نے چودہ لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور بعد میں سب مکر گئے۔ اگرچہ لال مسجد اور ماڈل ٹائون آپریشن میں بہت فرق ہے کیونکہ ماڈل ٹائون میں پولیس نے جا کر خود سے حملہ کیا تھا اور وہاں لوگ غیر مسلح تھے۔ لال مسجد میں تو باقاعدہ کئی دن تک اندر موجود دہشت گردوں نے فوج سے مقابلہ کیا‘ جس سے کئی فوجی شہید بھی ہوئے۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ ہی نے قتل کر دیا... اور پھر سب دبک گئے۔
اب تین واقعات کو ملا کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کیسے بلیک میل ہوتی چلی گئی۔ جنرل مشرف کی دشمنی میں جب لال مسجد آپریشن کو نواز شریف اور ان کے رفقا نے استعمال کیا‘ جس سے دہشت گرد مضبوط ہوئے‘ تو انہی نواز شریف اور شہباز شریف کو اس کا ذائقہ ماڈل ٹائون میں چکھنا پڑا‘ اور ان کے مخالفین نے اسے دونوں بھائیوں کے خلاف استعمال کیا۔ ماڈل ٹائون آپریشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پولیس بھی ڈر گئی کہ پہلے سیاسی قیادت حکم دیتی ہے اور پھر خود معصوم بن جاتی ہے اور ان کے افسران پر مقدمے قائم ہو جاتے ہیں۔ ماڈل ٹائون میں یہی کچھ ہوا۔ جب پولیس کے ذریعے قتلِ عام کرانے کے بعد وزیرِ اعلیٰ‘ وزیر قانون اور پرنسپل سیکرٹری‘ سب مکر گئے تو پولیس اکیلی رہ گئی۔
اسی طرح ہم نے اسلام آباد میں دیکھا کہ جب عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے میں آئی جی آفتاب چیمہ اور ایس پی محمد علی نیکوکارا نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلانے سے انکار کیا‘ کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ ماڈل ٹائون کی طرح یہاں بھی قتلِ عام ہو سکتا ہے‘ لہٰذا بہتر ہو گا کہ وہ آرام سے اس معاملے کو ہینڈل کریں‘ تو بھی پولیس افسران کی شامت آئی۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پہلے آئی جی چیمہ کو ہٹایا اور پھر محمد علی نیکوکارا کے خلاف سیکرٹری خارجہ، اور دیگر کو ساتھ ملا کر انکوائری کرا کے انہیں برطرف کرا دیا تھا۔ شہباز شریف حکومت نے ماڈل ٹائون میں پولیس پر الزام دھر دیا تھا کہ انہوں نے سیاسی قیادت کی بات نہیں مانی اور خود ہی لوگوں پر گولیاں چلا دیں جبکہ نواز شریف حکومت نے اسلام آباد میں پولیس افسروں کو برطرف کر دیا کہ آپ نے گولیاں کیوں نہیں چلائیں۔ ان حالات میں ریاست کو کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ یوں پولیس اور قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ریاستی ادارے کمزور ہوئے اور افسران دل برداشتہ۔
ریاست کمزور ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے جو لوگ ریاست کو چلا رہے ہیں ان کے اپنے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔ ان کی اپنی ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ کسی پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں تو کوئی نااہلی کی سزا بھگت رہا ہے۔ جب ریاست چلانے والے عدالتوں سے ضمانتیں کراتے پھر رہے ہوں گے، ان کے اپنے نام ای سی ایل پر ہوں گے، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں ان کی انکوائری کر رہی ہوں گی، ریاست چلانے والوں کی پانچ براعظموں میں جائیدادیں نکل آئیں گی‘ تو پھر یقین کریں ایک عام آدمی بھی فیض آباد چوک میں بیٹھ کر انہیں گالیاں دے گا اور وہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ریاست اس لیے کمزور ہوئی کہ ہم بھول گئے ہیں کہ ریاست کو چلانے والے بہت اچھی ساکھ اور سماجی‘ مالی اخلاقیات کے حامل لوگ ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔ ان کا کہا ہوا لفظ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ جو قدم اٹھاتے ہیں لوگ ساتھ دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جو لیڈر کر رہا ہے وہ ٹھیک ہے۔ اگر بادشاہ کی اخلاقی اتھارٹی ہی نہیں بچ پاتی تو پھر کون سی ریاست اور کون سے احکامات؟
ریاست پاکستان کمزور نہیں تھی لیکن جو لوگ اسے چلا رہے تھے انہوں نے اسے کمزور کر دیا۔ ریاست کی رٹ کمزور نہیں تھی لیکن جب کمزور کردار کے لوگ اور کرپٹ ایلیٹ ریاست چلانے لگ گئی تو پھر چند سو لوگوں نے ہی ریاست کا حقہ پانی بند کردیا۔ ایسے ہی صدیوں پہلے یہ نہیں کہا گیا تھا:
Caesar`s wife should be beyond doubt
یہاں سیزر چھوڑیں، سیزر خود اور اس کا پورا خاندان سمدھی سمیت چوری کرتے پکڑا گیا ہے‘ اور پھر بھی پورا پورا پروٹوکول لے رہا ہے۔ جس ریاست نے اس خاندان کا ٹرائل کرانا ہے‘ اسی کے وزیر اگر ان ملزمان کو عدالت تک پروٹوکول دیتے ہوں تو وہاں ریاست کی کون عزت کرے گا؟ وہاں پھر محاصرے ہی ہوں گے‘ جو ہو رہے ہیں اور ریاست کے تمن دار جنگل کے بادشاہ شیر کی طرح لاء اینڈ آرڈر قائم رکھنے کی بجائے ایک سہمی ہوئی ہرنی کی طرح چھپ رہے ہوں گے۔ اعلیٰ کردار اور اخلاقی جواز ہی ریاست کے حکمرانوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے جو ان سب سے کب کا چھن چکا اور انسانوں کی بستیاں محاصرے میں آ چکیں!