قاسم یعقوب نے رسالے کے ساتھ اپنا مجموعہ غزلیات ''دیکھ چکا میں موج موج‘‘ بھی بھجوایا ہے، اس لیے پہلے اس پر کچھ گپ شپ ہو جائے۔ ادیب لوگ مجھے اپنی تصنیفات اس لیے بھجواتے ہیں کہ میں اپنی بساط کے مطابق کتاب کے حسن و قبح پر اپنی رائے دے سکوں۔ سو! اس شاعری کے حسن و جمال نے تو مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا البتہ کچھ ایسی قباحتیں ضرور ہیں جن کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی‘ کہ یہ زبان و بیان کے معاملات ہیں جن سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا اور جس سے مصنف کی بہتری ہی مقصود ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قاسم یعقوب نے یہ کتاب ایک طرح سے بے دھیانی ہی میں لکھ ماری ہے‘ ورنہ یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً
صفحہ 27 پر چھپی غزل کا شعر ہے ؎
ہے کتنا اور سفرِ شام غم میں رہنا ہے
یہاں سے اور سحر انتظار کتنی ہے
دونوں مصرعوں میں لفظ ''اور‘‘ اپنے پورے وزن میں نہیں باندھا گیا، جو اس کا تقاضا تھا۔
صفحہ 29 پر چھپی غزل کا ایک مصرعہ ہے ع
جس جگہ میں جُدا ہوا‘ اب بھی وہیں ہوں گم شدہ
یہاں جگہ کو پورے وزن میں نہیں باندھا گیا۔
صفحہ 43 پر درج غزل کا ایک مصرعہ ہے ع
میں جب بھی پیڑ کی چھائوں میں تھک کے بیٹھ گیا
چھائوں، پائوںاور گائوں وغیرہ ہندی کے الفاظ ہیں اور یہ پورے وزن میں نہیں باندھے جاتے کیونکہ ان کا وزن فعلن نہیں ہے۔ مثلاً ع
بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے (حفیظ جونپوری)
غالبؔ نے پائوں کو اس طرح باندھا ہے ع
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پائوں
بلکہ اس کے ہاں تو پائوں کو لکھا ہی پانْوں گیا ہے۔ چنانچہ گھائو اور دائو وغیرہ بھی اسی وزن پر بندھتے ہیں۔
صفحہ 34 پر ایک مصرعہ ہے ع
تاریخ ہر زمانے میں ہے مکتبۂ وقت
یہاں اسے مکتبائے وقت ہی پڑھا جائے گا۔ جو کہ درست نہیں۔
صفحہ 57 پر ایک مصرعہ ہے ع
جو گزرا قافلہ شاخ کھجور کاٹ گیا
موصوف کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اردو اور فارسی الفاظ میں اضافت نہیں لگتی‘ کھجور کی فارسی خرما ہے۔
صفحہ 67 پر مصرعہ ہے ع
دن نے دستک دی تو کوئی بھی نہیں جاگا تھا
یہاں ''دی‘‘ پورے وزن میں آنا چاہیے تھا۔
اس سے اگلے صفحے پر مصرعہ ہے ع
کب تک سمیٹ رکھوں شرارِ جنون کو
اگر اضافت کے بعد والے لفظ کے آخر پر نون آتا ہو تو وہ نون اعلان کے ساتھ نہیں بلکہ نون غنہ بن جاتا ہے‘ یعنی ''شرارِ جنوں‘‘ ہو گا۔
یہی صورتحال صفحہ 73 پر درِ امکان کی ہے۔ صفحہ 21 کا مصرعہ ہے ع
یہ شعر زرِسخنِ بے اثر کی مرقد ہے
مرقد مذکر ہے۔ مونث نہیں۔
صفحہ 49 پر مصرعہ ہے ع
کیسا ہے جبر کہ خود یاد نہیں ہو پاتی
یہاں لفظ ''کیسا‘‘ کی الف کو گرانے کی بجائے مصرعہ اس طرح سے بھی ہو سکتا تھا ع
جبرکیسا ہے کہ خود یاد نہیں ہو پاتی
صفحہ 61 پر مصرعہ ہے ع
اب اُس کے رتجگوں نے بھی پہن لیا غلاف ِنیند
یہاں اردو اور فارسی الفاظ کو زبردستی ملانے کی بجائے مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع
اب اس کے رتجگوں نے بھی پہن لیا غلافِ خواب
صفحہ 93 کا ایک مصرعہ ہے ع
لے کے مٹی یا کسی روشنی یا خوابوں سے
اس میں پہلے ''یا‘‘ کی الف گرتی ہے جو مستحسن نہیں ہے۔
صفحہ 104 کا مصرعہ ہے ع
مری آنکھوں کے علاوہ وہ مرے پائوں بھی آج
یہاں بھی ''پائوں‘‘ کو اضافی وزن میں باندھا گیا ہے جو درست نہیں۔صفحہ 109 کامصرعہ ع
اسی سے میری تمناکی کونپلیں کِھلتیں ہیں
یہاں ''کِھلتیں‘‘ ہیں کی جگہ ''کِھلتی ہیں‘‘ ہونا چاہیے تھا۔
صفحہ 114 کا مصرعہ ہے ع
لوحِ تالاب پہ تصویر بنا رکھی ہے
یہاں بھی تالاب سے فارسی کی شادی کروا دی گئی ہے۔
صفحہ 113 پر مصرعہ ہے ع
میں شہرِ ریت کی دریا دلی سے باز آیا
اگر تو قاسم یعقوب زبان میں کوئی اجتہاد کر رہے ہیں یا لسانی تشکیلات کا ڈول ڈال رہے ہیں تو ٹھیک ورنہ مصرعہ اس طرح سے بھی ہو سکتا تھا ع
میں شہرِ ریگ کی دریا دلی سے باز آیا
آخری صفحے پر موصوف کی تصانیف کی فہرست دی گئی ہے جو کچھ اس طرح سے ہے:
شاخ (شعری مجموعہ) ریت پر بہتا پانی (نظمیں) دیکھ چکا میں موج موج (غزلیں) اردو شاعری پر جنگوں کے اثرات (تنقید و تحقیق) اردو میں اسلوبیات کے مباحث (انتخابِ مقالات) تنقید کی شعریات (تنقیدی مضامین) اردو نظم: تعبیر‘ تشکیل‘ تشریح (منتخب نظموں کے تجزیے) ادبی تھیوری (انتخاب تنقیدی مقالات)
انتساب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی یحییٰ یعقوب اعوان کے نام کیا ہے۔ پس سرورق ارشد محمود ناشاد اور انجم سلیمی کی تحسینی رائے درج ہے۔ ٹائٹل مہر عصمت اللہ نے بنایا ہے۔ (جاری ہے)
آج کا مقطع
امیدِ وصل کو‘ ظفر‘ اتنا غلط نہ جان
اس جھوٹ سے ہی سوچ میں سچائی ہے