تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-11-2017

بچ بچ کے چلنا حضور!

امریکی قیادت نے ایک بار پھر آنیاں جانیاں شروع کر دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں ''ڈو مور‘‘ کے مطالبے کے نام پر پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہے۔ پاکستان کئی بحرانوں سے دوچار ہے۔ چند ایک بحرانوں پر قابو پانے کی بھرپور کوشش رنگ لانے کو ہے مگر اب اِس راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں اور ون بیلٹ ون روڈ کے حوالے سے امریکا اور بھارت پوری طرح چوکس ہو کر میدان میں آ گئے ہیں۔ پاکستان چونکہ ان منصوبوں میں ایک کلیدی سٹیک ہولڈر ہے‘ اس لیے پہلے مرحلے میں اُسے گھیرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ چین اور روس نے مل کر ایشیا کو نئی شکل دینے کی جو بھرپور کوشش شروع کی ہے، اُسے کامیابی سے ہم کنار ہونے سے روکنے کے لیے امریکا نے پہلے مرحلے میں بھارت اور افغانستان کو آگے کیا ہے۔ گوادر سے کاشغر تک کے روٹ کو متنازع اور خطرناک بنانے کے لیے ایک طرف افغانستان توپچی کا کردار ادا کر رہا ہے اور دوسری طرف بندوق‘ بھارت کے کاندھے پر رکھ دی گئی ہے۔
چین، روس اور ترکی نے مل کر نیا میدان سجایا ہے اور اس میں کھیل بھی نیا شروع کیا گیا ہے۔ پاکستان محض ساتھ ہو نہیں لیا بلکہ اس کے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں۔ چین، روس اور ترکی کے ساتھ قدم بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ امریکا کو دس بار آزمایا جا چکا ہے۔ اور ہر بار دکھ ہی ہاتھ لگے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ وہی جو آج بصد شوق کیا جا رہا ہے۔
سوال صرف امریکا اور چین کے درمیان عالمی معیشت میں بالا دستی کی لڑائی کا نہیں۔ یہ معاملہ پیرا ڈائم چینج کا بھی ہے۔ امریکا اب تک اپنی معیشت کو اسلحہ سازی کی صنعت کے فروغ کی مدد سے چلا رہا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ دنیا بھر میں جنگیں بھی کرائی جائیں۔ اور اگر جنگیں ممکن نہ ہوں تو خانہ جنگی کی منزل تک تو ضرور پہنچا جائے۔ یہی سبب ہے کہ متعدد خطوں میں وہ اپنی پالیسیوں سے خرابیاں پیدا کرکے اپنے اسلحے کی کھپت کے امکانات پیدا کرتا آیا ہے۔ اب امریکا میں صنعتی ڈھانچا عسکری امور سے یوں وابستہ ہوگیا ہے کہ عالمی سطح پر امن یقینی بنائے جانے کی صورت میں امریکی معیشت کے لیے صرف اور صرف خرابیاں پیدا ہوں گی۔
سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے امریکا کو بہت کچھ کرنا ہے۔ چین کو تو وہ زیادہ پریشان کرنے سے رہا۔ ایسے میں اُسی کو پریشان کیا جائے گا جو آسانی سے دام میں آ سکتا ہو۔ ''نگاہِ کرم‘‘ پاکستان پر ٹھہری ہے۔ دوسری طرف بھارت کو علاقائی چوہدری میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ اُسے معاشی اور ثقافتی اعتبار سے بڑا دکھانے کے حوالے سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جا رہی۔ اور مہا راج ہیں کہ آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں۔ حالات کیا تبدیل ہوئے، اُن کی تو لاٹری ہی نکل آئی ہے۔ روس نے منہ پھیرا ہے تو امریکا نے اُن کی طرف منہ کر لیا ہے۔ مہربانیاں تو پہلے بھی تھیں ع 
لیکن اب کے نظر آتے ہیں کچھ آثار جدا
جس ملک میں آج بھی کم و بیش 60 کروڑ افراد کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں وہ علاقائی سپر پاور بننے کے لیے اُتاؤلا ہوا جا رہا ہے۔ ع 
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
امریکا سے یہ برداشت نہیں ہو پا رہا کہ چین تیزی سے مزید مضبوط ہوکر عالمی معیشت میں قائد کی حیثیت سے ابھرے۔ اور چین و روس کی وساطت سے پاکستان کا مستحکم ہونا بھارت کو بدہضمی میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ امریکا نے ایک بار پھر پراکسی وار چھیڑ دی ہے۔ ایک طرف افغانستان کو شہ دی جارہی ہے کہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کا بازار گرم کرے اور دوسری طرف بھارت کی پیٹھ تھپتھپائی جا رہی ہے کہ بلوچستان میں جی بھر کے، کُھل کر کھیلے۔ کابل اور نئی دہلی نے واشنگٹن کی ایما پر اپنا کام شروع کر دیا ہے اور اسلام آباد کو مختلف حوالوں سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل زبیر محمود حیات نے کچھ دن پیشتر اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب میں انکشاف کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کو 50 کروڑ ڈالر دیئے گئے ہیں۔ منصوبے کو مختلف پہلوؤں سے سبوتاژ کرنے کے لیے بھارتی خفیہ اینجسی سرگرم ہے۔ بلوچستان میں خرابی کا گراف بلند کیا جا رہا ہے۔ قتل و غارت کے ذریعے فرقہ واریت اور لسانی و صوبائی تعصب کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان کا چین اور روس کی طرف جھکائو امریکا سے ہضم نہیں ہو پا رہا۔ ایک زمانے سے وہ پاکستان سے کھیل رہا ہے۔ اب بھلا وہ یہ بات کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ من پسند کھلونا ایسی آسانی سے ہاتھ سے جاتا رہے؟ ایسے میں ہمارے پالیسی میکرز تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں۔ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے۔ معمولی سی غلطی بھی بہت بڑی خرابی پیدا کر سکتی ہے۔ مشکلات صرف ہمارے لیے نہیں ہیں۔ چین اور روس کو بھی امریکا اور یورپ کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ مغرب کیوں چاہے گا کہ سینٹر آف گریویٹی آسانی سے منتقل ہو جائے؟ جہاں‘ جہاں ممکن ہوگا، رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی، ناک میں دم کیا جائے گا۔ ہماری ناک چونکہ ذرا چھوٹی ہے اس لیے ہمیں دم زیادہ گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ چین اور روس بھی محتاط ہیں اور شاندار بیلینسنگ ایکٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
امریکا سے آنے والے ہر سویلین یا عسکری عہدیدار سے خوفزدہ ہونے اور تمام شرائط بلا چُوں چرا تسلیم کرنے کا وقت اب گزر چکا ہے۔ پاکستان کے پاس آپشنز موجود ہیں۔ چند بڑی قوتیں اُس کی پشت پر ہیں۔ یورپ اگرچہ امریکا کے ساتھ ہے مگر ہر معاملے میں وہ امریکا کا اندھا دھند ساتھ نہیں دے گا۔ وہ اپنے تمام آپشنز کھلے رکھتے ہوئے چل رہا ہے۔ ایسے میں امریکا اور اُس کے ہم خیال ممالک سے تمام معاملات میں دبنے اور دبکنے کی ضرورت نہیں۔ سوال بیلینسنگ ایکٹ کا ہے۔ امریکا اس وقت جو کچھ کر رہا ہے وہ سب طاقت کے اظہار کے حوالے سے نہیں‘ بلکہ وہ بعض معاملات میں الجھا ہوا اور بدحواس بھی ہے۔ امریکی پالیسی میکرز بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی ایک غلط فیصلہ امریکی بالا دستی کے لیے وقتِ اجل ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنی مجبوریوں کے ساتھ ساتھ امریکا کی مجبوریاں بھی ذہن نشین رکھنی چاہئیں تاکہ جہاں بھی گنجائش دکھائی دے، اپنی مرضی کے مطابق کھیلا جائے۔ یہ وقت ڈو مور کے مطالبے پر بلیک میل ہوتے رہنے سے کہیں بڑھ کر‘ امریکا سے اپنی مرضی کی باتیں منوانے کا ہے۔ اسلام آباد کے اربابِ بست و کشاد کو یاد رکھنا ہے کہ ترکی اچھا خاصا ترقی یافتہ ہوکر بھی متعدد معاملات میں اپنے سٹیکز داؤ پر لگانے کے لیے تیار دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے پاس کھونے کے لیے ہے کیا؟ ایسے میں ''ہمتِ مرداں مددِ خدا‘‘ کا منظر پیش کرنے والے چند فیصلے ہمیں کچھ نہ کچھ دے ہی جائیں گے۔ اہم اور سود مند فیصلوں کا وقت یہی ہے مگر شرط صرف یہ ہے کہ اپنے آپشنز بچاکر رکھے جائیں، احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے یعنی بچ بچ کر چلنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved