تحریر : کامران شاہد تاریخ اشاعت     20-11-2017

’’روشنی کا مینار‘‘: ڈاکٹر خالد آفتاب!

ان محرابوں کو دیکھتا دیکھتا میں جوان ہوا۔ نظریں ان کی طرف اٹھتی ضرور ہیں‘ مگر تقدس کی ایک تاب ہے جو یہ سہہ نہیں سکتیں‘ جھک جاتی ہیں۔ شوق نظر دل کی انتہائوں میں اتر کر اگر دھڑکن بن جائے تو اسے عشق لافانی کہتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے میرا رشتہ وہی ہے جو ایک سائل کا درگاہ سے ہوتا ہے کہ ہر پل یہی لگن رہتی ہے کہ روشنی کا یہ مینار میری تاریک راہوں کو منور کر دے۔ہے مبالغہ تو مبالغہ ہی سہی مگر خود کو گورنمنٹ کالج سے وابستہ کر لیا۔ عہدِ بلوغت سے ہی اپنے وجود کو اس کے گرد طواف کرتا پایا ہے۔ بچپن کی خواہشات عجیب ہوتی ہیں۔ میرے بھی دل میں ایک عجب خواہش تھی کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح گورنمنٹ کالج کے ساتھ ہمیشہ کے لئے بندھ جائوں۔
گورنمنٹ کالج کی مین بلڈنگ تک پہنچنے کا راستہ گویا پستی سے بلندی کا سفر ہے۔ یہ سفر کٹھن سہی مگر مسافر رشک بھرے قدموں سے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ یہ تو وہی راستے ہیں جنہوں نے شاہکار پیداکئے۔ درختوں کا یہاں ایک سلسلہ بے ترتیب سا ہے مگر طالبعلموں کا بھی ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ان پیڑوں کے سایوں سے لپٹ کر روح کو سیراب کرتے ہیں۔امیر ہو یا غریب گورنمنٹ کالج کا دامن انصاف کے پیمانوں کی طرح یکساں ہے۔ علمی لگائو تو یقینا ہر درسگاہ کے ساتھ ہو جاتا ہے‘ مگر یہاں قلب کی کچھ ایسی شناسائی بن جاتی ہے کہ اس درسگاہ کے دروازوں سے نکل کر بھی طالبعلم خود کو اسی کے حصار میں گھرا پاتے ہیں۔اپنے وجود کو ایک مرتبہ اس سے منسلک کر کے پھر انسان کہیں کا نہیں رہ جاتا۔
گورنمنٹ کالج کی زندگی میں 1980ء کی دہائی تباہی کی ایک داستان ہے۔کالج کے حسن کو طلبا یونینز کی بدمعاشی نے گہنا دیا تھا۔ کالج کی کینٹین غنڈے طالبعلموں کی گولیوں سے ہروقت چھلنی رہتی ۔ پرنسپل بیچارے اپنی عزت بچائے‘ چھپتے پھرتے تھے۔ اساتذہ کو ''اوئے‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا اور کلاس لیکچر کے دوران چاک مارکر ان کی خاطر تواضع کرنا گورنمنٹ کالج میں معمول بن چکا تھا۔ نیو ہوسٹل ہر طرح کی منشیات اور ہر طرح کے قد کاٹھ کے مجرموں کی سرعام آماجگاہ تھا۔ذوق آگاہی کے جو نقش فیض‘ پطرس اور اقبال نے چھوڑے تھے ،ان کی تباہی کا اک دلخراش سلسلہ رواں دواں تھا۔ سیلاب تھا یا طوفان جو بھی تھا‘ روشنی کے اس مینار کو یقینا بجھا رہا تھا۔ چراغ کی آخری لو بجھنے کے قریب تھی۔ تاریکی کی رات ابدی ہونے لگی تھی کہ تاریخ بدل گئی۔ دن اور رات پلٹ گئے۔ وہ آفتاب تھا ۔ آفتاب ہی کی طرح آیا۔ دھند سے بھرا اُفق اس کی تاب نہ لا سکا۔ طاغوت کو ہار ماننا پڑی کہ مقابل سینہ سپر خالد آفتاب تھا کہ جن کی قیادت نے علم کے گرتے ہوئے میناروں کو تھام لیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved