میرے چھوٹے بیٹے جنید اقبال نے بتایا ہے کہ وصف وفا ایک شاعرہ ہیں جو اس کے ساتھ شکاگو میں رہتی ہیں۔ رابطے میں ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے کچھ نمونے یا کتابیں بھجوائیں گی تاکہ میں اس پر کالم لکھ دوں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس طرح نہیں کرنا جیسے آپ نے شہزاد بیگ کی کتاب پر لکھ دیا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ نوجوان یعنی جونیئر شعراء کو جتنا میں نے پروموٹ اور پروجیکٹ کیا ہے وہ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم شہزاد بیگ کچھ اتنے جونیئر نہیں بلکہ دو تین کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن سے میں نے دیباچہ یا سرورق کا نوٹ لکھنے سے معذرت کر دی تھی لیکن ان کا اصرار تھا کہ وہ کتاب بھیج رہے ہیں۔ اس پر کالم ضرور لکھیں جو میں نے لکھ دیا۔
جنید نے یہ بھی کہا کہ ''آگ کا دریا‘‘ پر کالم لکھتے ہوئے جو آپ نے اس کی درگت بنائی تھی۔اس طرح سے بھی نہ کیجئے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس ناول کا نصف حصہ میں نے بڑے ذوق و شوق سے پڑھا تھا جو گوتم کے بارے میں تھا لیکن اس کے بعد اس نے اپنے ماڈرن اور عمومی انداز میں شروع کیا تو وہ میں نہیں پڑھ سکا کیونکہ اتنی عمدہ تحریر کے بعد وہ کچھ پڑھنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر یہ ہے کہ میں کوئی روایتی تبصرہ وغیرہ نہیں کرتا‘ صرف اپنی پسند‘ ناپسند کا اظہار کرتا ہوں جس کا مجھے پورا پورا حق حاصل ہے وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اس نے کہا کہ میں چونکہ ڈرا ہوا ہوں اور آپ کو اچھی طرح سے جانتا بھی ہوں اس لیے کچھ پتہ نہیں کہ آپ کی پھرکی کس وقت گھوم جائے اس لیے ضروری ہے کہ وہ کالم میں آپ کے پاس بیٹھ کر لکھوائوں یا میں کاشف (میرا اسسٹنٹ) کو کہہ دوں گا کہ کالم پہلے مجھے 'وٹس ایپ‘ کر دے اور اس کے بعد میں کہوں تو چھپنے کیلئے بھجوائے۔
سو جنید کو مجھ پر جو اختیار ہے‘ اس سے سب واقف ہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ وصف وفا کی شاعری پر میرا کالم بہت مثبت ہوگا۔ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی شاعری واقعی قابل تعریف ہو اور شاید مجھے اس کے ساتھ یہ نوٹ بھی دینا پڑے کہ یہ کالم کسی دبائو کے بغیر لکھا گیا ہے۔ البتہ یہ بھی ہے کہ میں جو اظہار خیال کرتا ہوں وہ صرف میری پسند و ناپسند کا مظہر ہوتا ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے اس لیے اسے معیار نہ سمجھا جائے۔
وہ 22 نومبر کو خود بھی یہاں آ رہا ہے۔ اگر اس وقت تک وصف وفا کی شاعری موصول ہونے کے بعد مجھے بھی بھجوا چکا ہو تو ''قضیۂ زمین برسر زمین‘‘ ہی ثابت ہو اور وہ کان سے پکڑ کر کالم لکھوا لے۔
ادھر بارش ہو جانے سے سموگ سے چھٹکارا حاصل ہو چکا ہے اور صبح کی واک جو موقوف ہو چکی تھی‘ پھر سے شروع ہے بشرطیکہ سموگ دوبارہ نہ شروع ہو جائے جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ بھارت میں اس کی شدت ابھی تک جاری ہے۔بھارت کے ساتھ ایک تعلق اس کے فلمی گانوں کی وجہ سے بھی قائم ہے۔ اگرچہ آفتاب کو یہ پسند نہیں لیکن مجھے یہ ناچ گانے انسپائر کرتے ہیں‘ اس لیے اس سے چوری چوری اب بھی دیکھ لیتا ہوں کیونکہ اس کے ساتھ مجھے بھارتی فلمی ستاروں کے بارے بھی تازہ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں ایک پروگرام میں دیکھا کہ ودیا بالن کچھ ضرورت سے زیادہ ہی صحت مند ہو چکی ہیں۔ اکشے کمار جب کھل کر مسکراتا یا ہنستا ہے تو اس کے مسوڑھے کوئی اچھا منظر پیش نہیں کرتے۔ کترینہ کیف ڈانس بہت اچھا کرتی ہیں لیکن جب جمناسٹک کرنے لگتی ہیں تو اچھا نہیں لگتا۔ سبھی ستارے ایک سے ایک بڑھ کر ہیں لیکن کاجول؟ اُف...اُف ‘اس کا تو میں عاشق ہوں‘ اللہ معاف کرے! نیز یہ خبر پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ وہاں کی ایک انتہا پسند جماعت کے کچھ لوگوں نے ڈمپل گرل دپیکا پڈوکون کی ناک کاٹ دینے کی دھمکی دی ہے کہ وہ ناچی ہے حالانکہ وہاں رقص عبادت سمجھا جاتا ہے۔ ایک مقامی افسوسناک خبر بھی تھی کہ سنسر بورڈ نے ماہرہ خان کی فلم ''ورنہ‘‘ کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ اس میں کسی گورنر کے بیٹے کو قابل اعتراض طرز عمل میں مشغول دکھایا گیا۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ ایک بڑا بورڈ بیٹھ رہا ہے جو اس کے بارے میں آخری فیصلہ کرے گا۔
فارم ہائوس کی صورتحال یہ ہے کہ سٹرس پھلوں نے اپنا اصل رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ گہرے سبز پتوں کے پس منظر میں سرخی مائل پیلے رنگ کی موسمبی اور کنوںکے گچھے بہت ہی خوبصورت لگتے ہیں۔ میں نے انہیں توڑنے سے منع کر رکھا ہے۔ البتہ پرندے اور پیڑ پودے حسبِ معمول ہیں۔ ایک شعر بھی سن لیجئے۔ ؎
بظاہر تو‘ ظفرؔ‘ یہ گھاس ہری کچھ نہیں لگتی
مگریہ‘ اور سارے پیڑ رشتے دار ہیں میرے
اب حسب معمول خانہ پری کے طور پر یہ تازہ عزل:
جیسے وہ کہیں پہ بھی نہیں تھی
جو چیز ہمیں ملی نہیں تھی
ملتا نہیں وہ تو کیا ہے‘ اب کے
ملنے کی تو شرط ہی نہیں تھی
بنتا نہیں ہے وہ دوست‘ جس سے
اپنی کوئی دشمنی نہیں تھی
یوںہے کہ وہ بول بھی رہا تھا
آواز بھی آ رہی نہیں تھی
اس شے پہ تھا آپ کا تصرف
جو اصل میں آپ کی نہیں تھی
کچھ بھی نہیں تھا ہماری خاطر
ظاہر میں کوئی کمی نہیں تھی
رونق دریا کی تھی اُسی سے
جو لہرا بھی اٹھی نہیں تھی
جھوٹے وعدوں پہ کاٹ دی جو
شاید وہ زندگی نہیں تھی
جو زور سے قہقہہ لگایا
اس میں بھی‘ ظفرؔ‘ ہنسی نہیں تھی
آج کا مطلع
اگرچہ مہر بہ لب ہوں‘ سنائی دے رہا ہوں
کہ ہوں کہیں بھی نہیں اور دکھائی دے رہا ہوں