تحریک پاکستان کے زمانے میں کانگریس کے ہم نوا علماء نے''جمعیت علمائے ہند ‘‘کی بنیاد رکھی ،اس کے مقابل اُس دور کے علمائے اہلسنت نے قائد اعظم ، مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی حمایت میں ''جمعیت علمائے پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔قیامِ پاکستان کے بعدبیس سال تک جمعیت علمائے پاکستان سیاست میں متحرک نہیں رہی،بعض ادوار میں اس کے بارے میں درباری جماعت کا تاثر بھی پیدا ہوااورمحض ایک علامتی سیاسی جماعت کے طور پرنام چلتا رہا۔ 1968میں کراچی میں جماعتِ اہلسنت کی بنیاد رکھی گئی اور علمائے اہلسنت بتدریج سیاسی میدان میں متحرک ہوئے۔جون 1970میں دارالسلام ٹوبہ میں ایک تاریخی کنونشن ہوا ، اس میں جمعیت علمائے پاکستان کا اِحیاء ہوا اور شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی کو اس کا صدر منتخب کیا گیا ،بعدمیں اس منصب پر علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی فائز ہوئے ،جماعتِ اہلسنت کراچی اس وقت کے اکابر علمائے اہلسنت کی قیادت میں فعال ہوئی اور پھر 1970کے پہلے قومی انتخابات میں جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور کراچی ،حیدر آباداور سکھرمیں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ پنجاب میں جھنگ اور مظفر گڑھ میں جمعیت علمائے پاکستان کو کامیابی ملی اور پہلی مرتبہ اُن کے سات ارکان قومی اسمبلی میں پہنچے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973کے دستورکی تشکیل اور بعد ازاں عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ اور ارتدادِ قادنیت کی دوسری آئینی ترمیم پاس کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قومی اسمبلی میں ارتدادِ قادیانیت کی قرار داد کے محرک علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جمعیت علمائے ہند کی فکر کے وارث مسلکِ دیوبند کے علماء نے مفتی محمود صاحب کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد ڈالی ، 1962کے بالواسطہ انتخابات میں قومی اسمبلی اور مغربی پاکستان اسمبلی میں ایک ایک نشست حاصل کی اور سیاست میں متحرّک ہوگئے۔ 1970کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کے قومی اسمبلی کے ممبران کی تعداد بھی سات تھی۔مولانا فضل الرحمن نے اقتدار کے کھیل میں بہتر سیاسی سودا بازی کی صلاحیت اپنے والدِ ماجد سے ورثے میں پائی ہے ،چنانچہ اُس وقت کی سرحد اسمبلی میں مفتی محمود صاحب اپنے تین ممبرانِ صوبائی اسمبلی کے بل پر اے این پی کے ساتھ اشتراک کر کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔
جمعیت علماء پاکستان نے 1976کے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی ،مگر پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے سبب یہ اسمبلیاں فعال نہ ہوسکیںاور 5جولائی 1977کو مارشل لا نافذ ہوگیا۔ 1985کی غیر جماعتی بنیاد پر منتخب اسمبلیوں میں بھی جمعیت علماء پاکستان کی قومی اور سندھ اسمبلی میں مناسب تعداد موجود تھی۔اس کے بعد کراچی میں ایم کیو ایم کا فیکٹر آیا، جمعیت علماء پاکستان اور جماعت اسلامی کو کراچی کی سیاست سے ایک طرح سے بے دخل کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کی تخلیق کے پیچھے غیبی قوتوں کی منصوبہ بندی کارفرما تھی تاکہ کراچی کی سیاست سے مذہبی قوتوں کا اثر ورسوخ ختم ہوجائے،اس کانقصان یہ ہوا کہ کراچی ،حیدر آباد وغیرہ قومی سیاست کے مرکزی دھارے سے کٹ کر رہ گئے۔ اس سے پہلے ملک میں برپا ہونے والی ہر سیاسی اور جمہوری تحریک میں کراچی کاقائدانہ کردا رہوتا تھا، اب اُسے ایک لسانی پارٹی کے حوالے کردیا گیااور شروعات ہی میں یکے بعد دیگرے اُسے پاکستان کی دیگر قومیتوں سے لڑا کر اس کے خمیر میں نفرت پیوست کردی گئی۔ یہ کراچی، سندھ اور پورے پاکستان کے جسدِ مِلّی کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بنا اور اس کے نتیجے میں کراچی کو تعلیم ومعیشت سمیت مختلف شعبوں میں کئی جہتوں سے بے پناہ نقصان اٹھانا پڑااورمستقبلِ قریب میں اُس کی تلافی آسان نہیں ہے۔2002میں علامہ شاہ احمد نورانی کی قیادت میں دینی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ''متحدہ مجلس عمل‘‘کی تشکیل ہوئی۔علامہ شاہ احمد نورانی کی وجاہت سے اتحادِ مسالک کا ایک نمایاں تاثر پیدا ہوا اور ایم ایم اے کو 2002کے انتخابات میں ناقابلِ تصور کامیابی نصیب ہوئی، لیکن بحیثیت جماعت، جمعیت علمائے پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا ،کیونکہ دولت وثروت کے بل پر مسلک کو کنٹرول کرنے والے کراچی کے چند اہلِ ثروت نے اس اتحاد کے خلاف فتوے جاری کرائے ، سرمائے کے بل پر اہلسنت کے ووٹ تقسیم کرائے اور اس کے نتیجے میں سب نقصان میں رہے، اس کے بعد اہلسنت قومی اور مقامی سیاست میں غیر مؤثر ہوکر رہ گئے۔اہلسنت کے زوال کا اصل المیہ یہ تھا کہ رُشد وہدایت کے مراکز کو علمی معیار،تقویٰ وکردار اورقابلیت واہلیت کے بغیر موروثی بنادیا گیا۔ تعلیم وتربیت جو ان مراکز کا خاصہ تھا ، وہ نہ صرف ختم ہوگیا بلکہ اُس کے برعکس مسند نشینوں کے کردار کے سبب دین کوشدید نقصان پہنچا، علامہ اقبال نے اس درد کو اپنے اشعار میں سمویا:
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
الفاظ کے معانی:سالوس: فریبی، چرب زبان، مہاجن:دولت مند اورساہوکار ، زاغ:کوا،گلیم:کملی، بوذر: فقیر منش صحابی حضرت ابوذر غفاری ، دَلِق:گدڑی
علامہ اقبال نے مزید کہا:
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بُوذر و دَلِق اُویس و چادرِ زَہرا
ترجمہ:''یہ شیخِ حرم ہی تو ہے جو حضرت ابوذر غفاری کی کملی ،حضرت اویس قرنی کی گدڑی اور سیدہ فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ عنہم)کی مقدس چادر کو بھی بیچ کھاتا ہے‘‘۔کیونکہ جب طریقت وسلوک اور رشد وہدایت کے مراکز اور مسندیں علمی معیار اور اہلیت وقابلیت کے بغیر وِراثت بن جائیں، تو زوال نوشتۂ دیوار ہے۔پھر سیاسی مَسندیں بھی وراثت میں منتقل ہونے لگیں اور زوال کا ایسا سفر شروع ہوا جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
اس پسِ منظرمیں مردِ درویش علامہ خادم حسین رضوی ایک رُجحان ساز کے طور پر منظر پر آئے ،وہ اس میدان میں روایت شکن اور روایت ساز ثابت ہوئے۔ ان کے نام کے ساتھ صاحبزادہ ، شہزادہ ، پیر زادہ ، حضرت زادہ اور میر زادہ کا کوئی سابقہ یا لاحقہ نہیں ہے، سووہ بارش کا پہلا چھینٹا اورروایت شکنی میں پہلی کرن کے طور پر نمودار ہوئے اور اہلسنت کے بکھرے ہوئے جذباتی نوجوان اُن کے اردگرد جمع ہونا شروع ہوگئے، انہیں امید کی کرن نظر آئی ، یہاں انہیں تصنّع، چمک دمک نہیں بلکہ فقر کی جھلک نظر آئی۔ میں اُن کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کِبر وعُجب،رِیا،تَعلّی، فریبِ نفس وشُرورِ نفس کے نفسیاتی عوارض اور بندگانِ اغراض کے مشوروں سے بھی محفوظ فرمائے ، وہ حسد، نگاہِ بداورشِماتتِ اَعداء سے بچے رہیں۔ ماضی میں اپنی دیانتدارانہ سوچ کے باعث ہمیں اُن کے مقاصد سے نہیں بلکہ حکمتِ عملی سے اختلاف رائے رہا ہے ،ا للہ تعالیٰ انہیں حکمت وتدبر کی نعمت سے نوازے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو متضاد صفات کا حامل بنایا ہے ،انسان کے مزاج میں غضب وجلال بھی رکھا ہے اوراُسے عَجز ونیاز کا پیکر بھی بنایا ہے ،انسان کا کمال اس میں ہے کہ اس پر ہر وقت غضب وخُشُونَت کی کیفیت غالب نہ رہے۔ ہمارے لیے نمونۂ عمل ذاتِ پاک مصطفی ﷺ ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''(اے حبیبِ مکرم!)یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا فیضان ہی تو ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے لیے نرم دل ہوگئے اور اگر (خدانخواستہ) آپ تُندخُو اور سخت دل ہوتے ،تو وہ ضرور آپ کے اردگرد سے بکھرجاتے ، سو اُن کے (قصور) معاف کردیجیے، اُن کے لیے استغفار کیجیے اور (اہم) امور میں اُن سے مشورہ کیجیے ، پھر جب آپ عزم کرلیں ،تو (کامیابی) کے لیے اللہ پر توکل کیجیے ، بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ،(آل عمران:168)‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں ایک قائد کے لیے رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں اور میں علامہ خادم حسین رضوی سے گزارش کروں گا کہ اس آیت کا مطالعہ کریں اور اس کے اندر جو دلپذیری ہے ،اُسے اپنے مزاج میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ہمارے اکابر کا شِعار یہ تھا کہ وہ عام حالات میں اپنے عقیدت مندوں اور تلامذہ کے ساتھ ہنس مکھ رہتے ، پیار کا برتائو کرتے ، انہیں اپنے قریب کرتے ، اُن کے اندر اعتماد کے ساتھ ساتھ اُن کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے اِشکالات کو رفع کرتے ،انہیں قائل کرکے اپنی جانب مائل کرتے ،ہمہ وقت جلال اُن کا مزاج نہیں تھا۔البتہ موقع کے مطابق جلال بھی انسان کا وصفِ کمال اور مومن کی شان ہے، نبی ﷺ نے اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''(اللہ تعالیٰ نے )میری شخصیت میں ایسا رُعب ، دبدبہ اور سطوت وشوکت رکھی ہے کہ دور سے بھی کسی کی نظر پڑ جائے تو وہ مرعوب ہوجاتا ہے ‘‘،حدیثِ پاک میں ہے:
''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم اُس وقت مسئلۂ تقدیر پر بحث کر رہے تھے، آپﷺ غضب ناک ہوئے یہاں تک کہ آپ کا رُخِ مبارک (فرطِ غضب سے) اس قدر سرخ ہوگیا کہ گویا آپ کے رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں اِن امور (میں بحث کرنے)کاحکم دیا گیا ہے،کیا میری بعثت کا مقصد یہ ہے ؟، ان امور میں بحث کر کے تم سے پہلی قومیں بھی ہلاک ہوئیں ،میں تمہیں قسم دلاکر کہتا ہوں کہ ان (حسّاس) امور میں بحث نہ کیا کرو، (سنن ترمذی:2133)‘‘۔ مومن کے اَخلاقِ عالیہ میں جلال وجمال کے اِسی حسین امتزاج کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان کلمات میں بیان فرمایا ہے:''محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور اُن کے جو اصحاب ہیں ، (وہ)کفار پر انتہائی سخت ہیں اور آپس میں (بے حد )نرم دل ہیں ، (الفتح:29)‘‘۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے مسجدِ نبوی میں قبلے کی جانب بلغم لگا ہوا دیکھا، آ ﷺ کو غصہ آیا یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا ،پھر ایک انصار ی عورت آئی ، اُس نے اُسے رگڑ کر صاف کیا اور اس کی جگہ خوشبو لگادی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا ہی اچھا کام کیا ہے۔(سنن ابن ماجہ:762)‘‘