تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     20-11-2017

دینا واڈیا نے ایسا کیوں کیا؟

2نومبر 2017ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کی اکلوتی بیٹی دینا واڈیا 98برس کی عمر میں امریکہ میں فوت ہو گئی۔یہ وہ بیٹی تھی ،نوجوانی میں جس نے اپنی مرضی سے ایک پارسی نوجوان سے شادی کرتے ہوئے، اپنا راستہ اپنے عظیم باپ سے الگ کر لیا تھا۔ قائدِ اعظم کے ایک سیکرٹری M.C. Chaglaنے باپ بیٹی کے درمیان ہونے والے مکالمے کو قلمبند کیا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ جناح نے اپنے روایتی شاہانہ لہجے میں بیٹی سے یہ کہا کہ بھارت میں کروڑوں مسلمان مرد موجود ہیں ۔ وہ ان میں سے کسی سے بھی شادی کر سکتی ہے ۔ دینا نے جواب میں یہ کہا : بھارت میں کروڑوں مسلمان عورتیں موجود تھیں ، آپ نے ان میں سے کسی سے شادی کیوں نہ کی(اور ایک پارسی خاتون سے شادی کیوں کی؟) قائدِ اعظم نے کہا: تمہاری ماں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ M.C.Chaglaنے یہ بھی لکھا کہ پارسی نوجوان سے شادی کرنے پر قائدِ اعظم نے دینا واڈیا کو یہ الفاظ کہے تھے کہ اب وہ ان کی بیٹی نہیں رہی۔ کسی اور ذریعے سے ان الفاظ کی تصدیق نہیں ہو سکی ۔ جو بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے ، وہ یہ ہے کہ قائدِ اعظم نے بیٹی کو عاق کرنے کا نوٹس کبھی جاری نہیں کیا ۔ یہ بات بھی پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ باپ بیٹی کے تعلقات بالکل رسمی سے ہی رہ گئے تھے ۔ تاریخی ریکارڈ یہ کہتا ہے کہ جناح کبھی اپنی بیٹی کو خط لکھتے تو اسے Mrs. Wadiaکے الفاظ سے مخاطب کرتے ۔ ستمبر1948ء میں قائدِ اعظم کی وفات سے پہلے دینا واڈیا کبھی پاکستان نہیں آئی ۔ پھر دوبارہ وہ 56برس کے لیے غائب ہو گئی ۔ 2004ء میں جب دوسری بار وہ پاکستان آئی تو اپنے باپ کے مزار پر گئی ۔ visitor's bookمیں یہ لکھا This has been very sad and wonderful for me. May his (Jinnah's) dream for Pakistan come true"۔ 
ذاتی زندگی میں جو غم قائدِ اعظم کو اٹھانا پڑے، بیٹی کو کھو دینے کا غم شاید ان میں سب سے عظیم ہو ۔ وہ ان کی واحد اولاد تھی ۔ قائدِ اعظم کبھی اپنے نواسے نواسی سے کھیل نہیں سکے ۔ یہ کس قدر بڑا غم ہو سکتاہے ، اسے وہی شخص سمجھ سکتاہے ، جس نے کسی نانا کو اپنے نواسے، نواسی سے پیار کر تے دیکھا ہو ۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب قائدِ اعظم کے لیے کوئی سرسری سا معاملہ نہیں تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ لوگوں کی ملامت کے ڈر سے انہوں نے کبھی اپنا موقف نہ بدلا۔وہ سوچ سمجھ کر ایک موقف اختیار کرتے اور پھر اس پرمضبوطی سے قائم رہتے ۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دینا سے قطعی طور پر رسمی سے تعلقات برقرار رکھے جائیں گے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی حقانیت اور اس کا اقراران کے لیے کس قدر سنجیدہ معاملہ تھا ۔ ایک سیکولر شخص یہ کہہ سکتاہے کہ ٹھیک ہے ، میں نے ایک پارسی عورت سے شادی کی تھی ۔ اب میری بیٹی پارسی نوجوان سے شادی کر لے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انہیں شدید فرق پڑا ۔ خدا خود اس بارے میں کس قدر حساس ہے ۔ وہ یہ کہتا ہے : ان الدین عند اللہ الاسلام ۔ دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔دوسری جگہ آتا ہے : اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ ایک بادشاہ کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ کوئی اس کے دربار کو کمتر کہہ کر کسی دوسرے بادشاہ کے دربار میں جا بیٹھے۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ سب بادشاہوں کابادشاہ، زمین و آسمان کا اصل مالک کبھی یہ بات قبول کر سکتاہے کہ کوئی اس کے دین کو کمتر کہہ کر کسی دوسرے مذہب میں چلا جائے ؟ لیکن بہرحال یہ معاملہ ہے خدا اور اس کے بندے کے درمیان۔ دلوں کا حال اللہ جانتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ دینا واڈیا نے خدا سے معافی مانگ لی ہو۔ اس وقت وہ ایک کم عمر جذباتی لڑکی تھی ۔ اس کی شادی ، جس کی وجہ سے اس نے اپنے تاریخ ساز باپ سے علیحدگی اختیار کی، جلد ہی ناکام ہو گئی تھی۔ 
قائدِ اعظم کے ارادے کی پختگی سے سب واقف ہیں ۔ دینا واڈیا نے بعد ازاں جو طرزِ عمل اختیار کیا، وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا۔ پارسی نوجوان سے کی گئی شادی ناکام رہی تھی۔ اس کے بعد دینا واڈیا نے جس طرح سے زندگی گزاری ،تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ایسی کوئی خاتون نہیں ، جس کے والد نے ایک نیا ملک تخلیق کیا ہو ۔ اس کے اگلے ہی برس وہ فوت ہو گیا ہو ۔ اس کی اکلوتی بیٹی اس کے بعد 69برس زندہ رہی ہو اور اس نے اپنے والد کے بنائے ملک میں جا کر اس کی سیاست اور جائیداد کی وراثت حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔آپ بنگلہ دیش میں دیکھ لیں ۔ مجیب الرحمن اور ضیاء الرحمن کی بیوائیں کس طرح آپس میں لڑتی رہی ہیں ۔ پاکستانی سیاست میں اس کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ اقتدار کے لیے بہن بھائیوں اور ماں بیٹیوں سمیت کتنے ہی رشتے خراب ہو ئے۔ دوسروں کی مثالیں دینا آسان ہے ۔ میری اپنی زندگی ایک مثال ہے ۔ میں نے اپنے والد کی طرح نامور کالم نگار بننے کی کوشش کی۔ دوسری چیز ہوتی ہے دولت اور جائیداد۔ اس معاملے میں بھی ، میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں کہ معاشی طور پر مضبوط ہو سکوں ۔ اپنے علاوہ ، معاشرے میں ، میں جتنے بھی افراد کو دیکھتا ہوں ، وہ سب بھی یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جو شخص جتنا بڑا کاروباری بن سکتاہے ، اتنی ہی کوشش کر رہا ہے ۔ جو جتنی جائیداد حاصل کر سکتاہے ، اتنی ہی کوشش کر رہا ہے ۔ زمینوں اور رقبوں کے مالک بھی اسی کوشش میں ہیں کہ ان کی جائیداد بڑھتی چلی جائے۔ یہی انسانی فطرت ہے ۔ اس سے خدا نے روکا بھی نہیں ہے لیکن اعتدال کی ہدایت کی ہے ۔ جائز طور پر آپ جتنا بڑا کاروبار کریں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دینا واڈیا نے ایسا کیوں نہ کیا؟ کیا وہ چاہتی تھی کہ اس کے عظیم باپ پر تبرے بازی نہ ہو ؟ اگر فرض کریں ، 1971ء میں پاکستان تقسیم ہونے کے بعد وہ ملک میں آتی۔ سیاسی تحریک چلانے کا اعلان کرتی۔ یہ کہتی کہ اس کے باپ کے بنائے ہوئے ملک کو پٹڑی سے ہٹا دیا گیا ہے اور وہ ملک کو واپس ترقی کے راستے پر لے جائے گی ۔ اگر وہ برسرِ اقتدا ر قوتوں سے لڑائی نہ بھی کرتی تو بھی پاکستان آکر ، قائد کے پہلو میں گھر بنا کر رہتی ۔ دنیا اس کے استقبال کے لیے اکھٹی ہو جاتی ۔ حکومت کو مجبور ہونا پڑتا کہ کوئی مسئلہ پیدا نہ کرنے کے لیے اسے بہت سی جائیداد اور پروٹوکول دے ۔ 
دینا واڈیا نے ایسا کیوں نہ کیا۔ کیا شادی ناکام ہونے کے بعد اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کاباپ ٹھیک کہہ رہا تھا ۔ اس نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہے لیکن پھر وہ خاموش کیوں رہی ؟ اس لیے کہ قائدِ اعظم کے لیے مسائل پیدا نہ ہوں ؟ کیا وہ پھر سے مسلمان ہو گئی تھی لیکن مصلحت کے تحت خاموش رہی ؟اگر نہیں تو پھر کس چیز نے اسے پاکستان میں بے پناہ دولت ، شہرت اور اقتدار کے لیے محاذ آرائی سے روکے رکھا؟ خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved