تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-11-2017

نظریہ ٔ نواز

یہ دورِ غلامی تھا جب انگریز کی حکمرانی کے دور میں برصغیر کو جمہوریت کا تجربہ کرایا گیا۔ آزادی سے بہت پہلے‘ محدود اختیارات کی صوبائی اور مرکزی اسمبلیاں قائم کی گئیں۔ برطانیہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور چیدہ چیدہ لوگ‘ ان اسمبلیوں کے رکن بنے ۔ ان کی بڑی تعداد منتخب ہو گئی۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے برصغیر میں جمہوری تجربے کی بنیاد رکھی لیکن یہ بنیاد بڑی ٹھوس تھی۔ پاکستان کی پہلی کابینہ جو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے منتخب کی‘ اس میںروشن ستارے جیسے نوابزادہ لیاقت علی خان وزارت عظمیٰ کے ساتھ وزیر خارجہ اوردفاع ‘ آئی آئی چندریگر صنعت و تجا ر ت ‘ سردار عبدالرب نشتر وزیر مواصلات‘ راجہ غضنفر علی خان وزیر خوراک و رزراعت‘ جوگندر ناتھ وزیر لیبر اور قانون‘ غلام محمد وزیر خزانہ‘ فضل الرحمن وزیر نشر و اشاعت اور تعلیم‘ شامل تھے۔ کچھ عرصہ بعد محمد ظفر اللہ خان کو کابینہ میں شریک کیا گیا۔ انہیںوزارت خارجہ اور دولت مشترکہ کا قلمدان دیا گیا جبکہ پیرزادہ عبدالستار کوخوراک‘ زراعت اور صحت کے محکمے دئیے گئے۔ راجہ غضنفر علی خان کو بعد میں‘ مہاجرین اور ان کی بحالی کی وزارت دی گئی۔
پاکستان کی پہلی کابینہ کا انتخاب گورنر جنرل‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کیا تھا۔اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ قائداعظمؒ کی تعلیم اور اہلیت کیا تھی؟ تو مناسب ہو گا کہ وہ موجودہ اسمبلی سے پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں۔متحدہ ہندوستان میں کانگرس کے جو نمائندے ‘ پہلی کابینہ کے اراکین بنے‘ ان میں وزیراعظم‘ پنڈت جواہر لعل نہرو کے علاوہ‘ سردار ولبھ بھائی پٹیل‘ لال بہادر شاستری‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘راج گوپال اچاریہ‘ کیلاش ناتھ‘ آر آر دیوارکر‘ ڈاکٹر امبید کر‘ راجندر پرشا داوررفیع احمد قدوائی شامل تھے۔ پاکستان کی بدقسمتی کہ جلد ہی‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور نوابزادہ لیاقت علی خان‘دونوں کو سازش کا نشانہ بنایا گیا۔ قائداعظمؒ جب نزع کی حالت میں تھے تو انہیں زیارت سے کھٹارہ طیارے میں بٹھا کر‘ ماری پور ایئر پورٹ کراچی لایا گیا۔ وہاں سے ان کے لئے جو ایمبولینس آئی‘ وہ ایئرکنڈیشنڈ بھی نہیں تھی اور اتنی فرسودہ تھی کہ راستے میں جواب دے گئی۔ کراچی کی شدید گرمی عروج پر تھی۔ آس پاس کوئی سایہ بھی نہ تھا۔ اس حالت میں قائداعظمؒ اللہ کو پیارے ہوئے۔ یہ ایک انتظامی قتل تھا۔ جبکہ وزیراعظم نوابز ادہ لیاقت علی خان ‘کے بارے میں کوئی تکلف نہیں کیا گیا۔انہیں راولپنڈی میں ایک بھرے جلسے کے اندر‘ گولیوں سے شہید کر دیا گیا۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کی فرض شناسی دیکھئے کہ اس نے آئو دیکھا نہ تائو‘ قاتل سیّد اکبر کو وہیں کے وہیں قتل کر دیا اس کے بعد آج تک پتا نہیں چل سکا کہ اس قتل کی سازش کس نے کی؟ لیکن اگر تاریخ کا کوئی مخلص طالب علم ‘قاتلوں کا سراغ لگانے کی کوشش کرے تو بڑی آسانی سے ان کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔
آزادی کے بعد سب سے پہلے ‘ہندوئوں کا جو قومی لیڈر قتل کیا گیا ‘ وہ مہاتما گاندھی تھے۔ وہ حسب معمول اپنی عبادت کی محفل میں بیٹھے تھے کہ بھارت کی موجودہ متعصب حکمران پارٹی‘ بی جے پی‘کے ایک رضا کار نے ‘ ضعیف العمر گاندھی جی کو گولیوں سے بھون دیا حالانکہ گاندھی جی نہ کسی عہدے پر فائز تھے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اختیار تھا۔ اس درویش منش اور کمزوربزرگ کوگولیوں سے اڑانا ثابت کرتا ہے کہ کوئی ہندو مدبر بھی اگر دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو حقوق دینا چاہتاہو تو اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے سابق‘ نااہل وزیراعظم جو کہ ان دنوں عدالتوں اور ججوں سے ناراض ہیں‘ اور عوام کی مدد سے اپنی سزائوں پر جھاڑو پھیرنے کے آرزو مند ہیں‘ گزشتہ روزانہوں نے ایبٹ آباد میں ایک جلسے سے خطاب کیا جس میں حاضرین کا ایک بھی لانگ شارٹ نہیں دکھایا گیا۔ جو تصاویر عوام تک پہنچائی گئیں ‘ وہ میاں صاحب کے کسی پرانے جلوس کی تھیں۔ ویڈیو جی ٹی روڈ کے مجمع کی تھی۔ایبٹ آباد کے حاضرین کی تعداد اتنی بھی نہیں تھی کہ ان کی کوئی تصویر ‘ شائع کرانا پسند کیا گیا ہو۔
جس بات پر مجھے جھرجھری آئی ‘وہ یہ تھی کہ ''نوازشریف ایک نظریہ ہے‘‘۔کسی بھی بڑی سے بڑی تاریخی شخصیت کو ‘ نظریے سے منسوب کیا جائے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا چاہئے۔ کارل مارکس نے ایک ایسا نظریہ ‘کتابی صورت میں تاریخ کے سپرد کیا کہ ساری دنیا میں کئی سیاسی نظام‘ اس سے منسوب کئے گئے۔ مگر اسے نظریہ مارکس کہنے کی ‘کسی کو جرأت نہ ہوئی۔ ان کے طالب علموں نے بعد میں‘ ان کے نظریے کا نام‘ مارکس ازم رکھا لیکن اسے بھی مارکسی نظریہ شاید ہی کسی نے لکھا یا کہا ہو۔یہ اعزاز ہمیں نصیب ہوا۔'' نظریۂ نواز‘‘ کی عظمت دیکھئے کہ اس کا وزیر خزانہ مفرور اور روپوش ہے۔جس وزیر خزانہ کو مستقبل کے لئے ''نظریۂ نواز‘‘ کے تحت منتخب کیا گیا ہے‘ شاید ہی وہ سیکشن افسر بننے کا اہل ہو۔میں بہت عرصے تک میاں صاحب کا نیاز مند رہا ہوں۔ کوشش کی کہ وہ اس زعم میں کبھی مبتلا نہ ہوں۔جہاں تک میرے ناقص علم کا تعلق ہے۔ انسانی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا لیڈر ہو‘ جس نے سیاسی مناصب ‘ فوجی اکیڈمی سے حاصل کئے ہوں۔اگر خدا کی مہربانی سے نوازشریف چوتھی مرتبہ‘ وزیراعظم بن گئے تو نصابی کتابوں میں ایک باب'' نظریۂ نواز‘‘کے عنوان سے بھی شامل کیا جائے گا۔ بلاشبہ اس باب کے مصنف‘ طلال چودھری ہوں گے۔مجھے اپنی عاقبت کی فکر پڑ گئی۔ اگر ''نظریۂ نواز‘‘ کی تشہیر کی وجہ سے میری فلم بنا دی گئی تو میرا کیا بنے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved