تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-11-2017

الَیس منکم رجل رشید

بہتر یہی ہے کہ حکومت کو معاف کردیا جائے ۔قرینہ مگر یہ ہے کہ خطاکار اپنی غلطی کااعتراف کرے ، شرمندہ ہو اور معافی مانگے۔ ''الیس منکم رجل رشید‘‘کیا تم میں کوئی ایک بھی رجل رشید نہیں؟
یہ تو ایک بڑی سرکاری حماقت کے نتیجے میں پھوٹنے والا ایک مشتعل مجمع ہے۔ ملک بھر میں بے شمار جن کے حامی ہیں اوراتنے ہی جذباتی ۔تنازعہ بھی ایساکہ جلتی پر تیل چھڑکنا سہل ہے۔ اسلام آباد میں تو یہ بھی ہوچکا کہ ایک تنہا شخص نے شہر کو یرغمال بنالیاتھا ۔سکندر نامی وہ ایک آدمی بالآخر دلاور زمرد خان نے جس پر قابو پایا۔
حادثات ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔ تنازعات اٹھتے ہیں اور ہمیشہ اٹھتے رہیںگے۔ زندگی کو اللہ نے کشمکش کے لئے پیدا کیا ہے اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ہزاروں برس پہلے جب آدمی نے حکومت کو گوارا کرنے کا فیصلہ کیا تو اسی لئے کہ وہ جھگڑے نمٹائے اوربستیوں کو امن عطا کرے ۔دنیا نے بادشاہوں اور جاگیرداروں کو دیکھاہے۔ ہمارے ہاں تو اب بھی تمام ترشان و شوکت کے ساتھ وہ موجود ہیں۔
سول سروس کاا دارہ اسی لئے تخلیق کیا گیا تھا۔ پولیس اسی لئے قائم کی گئی۔ اسی لئے انٹیلی جنس وجود میں آئی کہ مسائل کا ادراک کرکے بطریق احسن نمٹانے کی کوشش کی جائے۔
روتے پیٹتے ،سمجھاتے بجھاتے زمانہ گزر گیا کہ سول اداروں کے بغیر کوئی معاشرہ اپنی الجھنوں سے نجات پاسکتا ہے‘معاشی طور پر نمو پذیر ہوسکتا ہے اور نہ عدل و امن کا حصول ممکن ہے -تھانیدار اور مجسٹریٹ کے کرنے کا جو کام ہے وہ وزیراعلیٰ نہیں کرسکتے ،خواہ اپنا نام خادم اعلیٰ رکھ لیں یا خادم پنجاب۔یہ تومیاں محمد نواز شریف کے بس کی بات بھی نہیں ،جن کا فرمان ہے کہ وہ بذات خود ایک نظریہ ہیں- اگر اپنی محبت میں آدمی مبتلا ہوجائے توہر چیز کے لئے جواز پیش کرنے لگتا ہے - تب خرابی پیدا ہوگی اور بڑھتی جائے گی-
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان ہے :تم میں سے ہرشخص حاکم ہے اور ہر ایک جواب دہ ۔من مانی کرنے والا اگرا یک گھر یا دفتر کا نگران بھی ہوتو اسے تباہ کردے گا ۔حاکم ہو تو پوری قوم کو۔حکمران ہیں جو عدالتوں کی تذلیل کرتے ہیں ، دہشت گردی سے نبردآزماملک کی حفاظت کرنے والی فوج کوسازشیوںکا ٹولہ کہتے ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو قانون سمجھا جائے۔ ہم عجیب لوگ ہیں‘ لوگ کیا رعایا کہ جس نے خود کو لیڈروںکے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں افراد ہیں ،ترقی پسند ،ملاّ، اخبار نویس اور دانشور۔ دن رات جوان لیڈروںکے لئے جواز ڈھونڈتے اوران کی جنگ لڑتے ہیں سلطانی جمہور کے نام پر جو بادشاہوں کے تلوے چاٹتے ہیں۔اس لئے کہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں کے مفادات انہی سے وابستہ ہیں۔
بوجوہ نوازشریف کے لئے وہ آدمی نرم گوشہ رکھتا ہے ہفتوں پہلے جس نے وزیر اعظم کو بتادیا تھا کہ ان کا کھیل ختم ہوچکا۔ اقتدار ان کاتمام ہونے والا ہے۔ حکمران پارٹی کے ایک لیڈر نے اس سے پوچھا ،ہمارے حامی کون ہیں ۔اس نے کہا وہی جو حاکموں کے ہوتے ہیں ۔صنعتکار،تاجر،اور دکاندار ،قبضہ گروپ ، پولیس کے ٹاؤٹ،منشیات فروش اور ظاہر ہے کہ بہت سے ووٹر بھی۔ اس نے ان سے کہا تھا :آپ کی پارٹی اس قابل نہیں کہ اپوزیشن ،عدالت اور فوج کے پہاڑوں سے ٹکرائے۔اس کی بات نہ سنی گئی اس لئے کہ اپنی آنکھ سے وہ زندگی کو دیکھتا ہے ۔صاحبان تسلیم و رضا کی سنی گئی‘ ہر مشورے کے بعد اپنا کشکول جو آگے بڑھاتے ہیں۔ 27برس ہوتے ہیں انہی صاحب کے بارے میں ، میاں محمد نواز شریف نے کہا تھا: اس کے منہ میں لقمہ ڈالتے رہو توٹھیک رہتا ہے، ورنہ بگڑ جاتا ہے ۔نواز شریف کے بعد جنرل پرویز مشرف اور چوہدری برادران نے بھی کشکول اس کا آباد رکھا۔ اب وہ سبق پڑھانے والوں میں شامل ہے کہ نواز شریف اپوزیشن ،عدلیہ اور فوج پہ چڑھ دوڑیں ،جس طرح ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب نے اسٹیبلشمنٹ پہ یلغار کی تھی۔ کوئی پروا اسے نہیں کہ ملک میں فساد پھیل جائے گا، عدالتیں کمزور پڑیں گی اور دہشت گردوں سے نبردآزما جوانوں کے حوصلے متاثرہوسکتے ہیں۔
وزیرداخلہ احسن اقبال کا رنگ فق ہے۔ یہ اس کا کام ہی نہیں،اس کی تربیت ہی نہیں ۔پرلے درجے کا ایک کمزور آدمی ہے۔ الزام ہے کہ اپنے حلقہ انتخاب میں وہ اشتہاری پالتااوران کے بل پر جیتتا رہا ۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ تعلیمی بجٹ کے اربوں روپے اس نے ضائع کئے ۔کپتان مقبول ہواتو اس نے مشورہ دیا کہ لیپ ٹاپ بانٹ کر طلبہ کی وفاداریاں خرید لی جائیں ۔کہا جاتا ہے کہ لاہور کے لارنس گارڈن میں پانچ ایکڑ زمین پر قبضہ جما کر، وہ باغبانی کا ایک فقید المثال ادارہ قائم کرنے کا آرزومند ہے ۔ حکومتیں کیاایسے لوگوں کے بل پرچلائی جاتی ہیں؟۔
علامہ اقبال نے کہا تھا:ترکانِ عثمانی سے کچھ کم نہ تھے ترکان تیموری ۔ترکیہ کے عثمانی حکمران مختلف ضرورتھے۔ پہلی بار انہی نے سول سروس قائم کی تھی، برطانیہ اورا مریکہ سمیت مغرب و مشرق نے جس کی پیروی کی۔ یہ الگ بات کہ بادشاہت کے طفیل ،قدامت پسندی اور من مانی کے طفیل خود ان اصولوں پر وہ کاربند نہ رہ سکے۔ ورنہ ایسی یہ نوکرشاہی تھی کہ ارتقاپذیر ہوتی تو آج بھی ترکیہ عالمی طاقت کے منصب پہ براجمان ہوتا۔ سخت تربیت کے بغیر، کسی شخص کوسرکاری عہدہ نہ دیاجاتا۔ زیادہ ترا ن میں غیر مسلم ہوتے کہ غیرجانبدار رہیں۔ شاہی خاندان کو وزیراعظم اور گورنر کے مناصب عطا کرنے پہ پابندی لگادی گئی تھی۔ پھراس جواں سال سلطان سلیم نے انحراف کرنا شروع کیا،بے مثال جنگجو لیکن پرلے درجے کا ضدی ۔اس طرح کا آدمی جو یہ کہتا ہے کہ میں بجائے خود ایک نظریہ ہوں۔
نمردو کے دربار میں، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا :میرامالک وہ ہے جوزندگی اور موت پر قادر رہے۔ وہ بولا: میں بھی قادرہوں۔ پھر سزائے موت کے ایک قیدی کورہا کردیااور ایک بے گناہ کی گردن اڑادی۔ وہ ابراہیم ؑتھے ،داناؤں کے دانا ۔فرمایا:میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے تو مغرب سے نکال کر دکھا۔قرآن کہتاہے '' اس پر اللہ کا انکار کرے والا گنگ ہو کر رہ گیا‘‘۔ کائنات اللہ کی ہے‘ زمین اور زمانے اس کے ،ان میں کارفرما قوانین اس کے بنائے ہوئے ،بندے اس کے ، ہوائیں اس کی ، نواز شریف اور زرداری کیا ہیں؟کپتان کون ہے؟۔ حکمران ہے ایک وہی ،باقی بتانِ آزری۔
مشتعل مظاہرین کی تائید کرنے والے بہت ہیں ‘ اختلاف کی ہمت رکھنے والے کم ۔حکومت پسپاہے۔ اس لئے کہ جس مطالبے پر وہ ڈٹے ہیں ،خود شہباز شریف اس کی تائید کرچکے یہ کہ وفاقی وزیر کو چلتا کیجئے۔ درحقیقت وہ قصور وار ہی نہیں ۔شاہ نہیں‘ وہ پیادہ ہے،حکم کہیں اور سے آیا تھا۔ وہ تو فقط بجالانے کا قصوروار ہے۔ دوسرے بھی، چندایک کے سوا درحقیقت پوری اسمبلی ۔مزارعین کے وہ لشکر،جو جاگیردار آقاؤں کی جنگیں لڑتے ہیں ۔صاحب ادراک نے کہاتھا: باخدادیوانہ باشد، بامحمدؐہوشیار۔سرکارؐ کی توہین کا جہاں ایک ذرا سا شبہ بھی ہو ،خلق سنبھالی نہیں جاتی۔ اسلام صرف خالق کل ہی نہیں بلکہ آخری کتاب اور رحمۃ للعالمین ؐپر ایمان لانے کا بھی مطالبہ کرتاہے۔ قرآن کریم کیا ہے ؟۔وہ جسے اللہ کے رسولؐ نے اللہ کا کلام بتایا۔خودان ؐکے ارشادات کو حدیث کہا جاتا ہے‘ پیروی ان کی بھی ضروری ہے ۔ کتاب ِ الٰہی کے مطابق ''اپنی مرضی سے وہ کوئی بات نہیں کہتے بلکہ وہی جوا ن پر نازل کیاجاتا ہے‘‘۔
وہ دانائے سبل، ختم الرسّل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
بالواسطہ ہی سہی ،اپنی غلطی حکومت نے مان لی ہے۔ معافی تو انہیں بھی مل گئی تھی، صبح و شام جو سرکارؐکی شان میں گستاخی کیا کرتے حتیٰ کہ چند وہ بھی فتح مکہّ کے دن جن پرحکم صادر ہواتھا 'خواہ وہ کعبہ کے پردے کے پیچھے ہوںقتل کردیئے جائیں۔‘‘
بہتر یہی ہے کہ حکومت کو معاف کردیا جائے ۔قرینہ مگر یہ ہے کہ خطاکار اپنی غلطی کااعتراف کرے ، شرمندہ ہو اور معافی مانگے۔ ''الیس منکم رجل رشید‘‘کیا تم میں کوئی ایک بھی رجل رشید نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved