کچھ عرصہ پیشتر صوبہ پنجاب میں ساہیوال کے ایک سکول نے طلباء کوایک ہدایت نامہ جاری کیاہے جس میں ان سے یہ کہاگیا ہے کہ وہ سکول میں اورسکول کے باہر خراب قسم کی زبان استعمال کرنے سے باز رہیں۔اسی نوٹ میں مزید یہ وضاحت کی گئی کہ اس خراب زبان میں طعنے، گالم گلوچ، نفرت انگیز باتیں اورپنجابی شامل ہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ واقعہ ساہیوال شہرمیں پیش آیا جہاں سے احمدخان کھرل نے برطانوی راج کے خلاف پنجابی مزاحمت کا پرچم بلندکیا تھا۔پنجابی کے حوالے سے اس طعن آمیز رویے کے پیچھے کیاعوامل کارفرماہیں اس کیلئے ایک سنجیدہ علمی تجزیے کی ضرورت ہے۔ جس میںکچھ بنیادی سوالات کی گرہیں کھولنا ہوںگی مثلاً: زبان کاتصور کیا ہے؟ زبان اوراس کے بولنے والوں کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے؟کسی زبان کو برتر یا کم تر کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ زبان کی نمو اورافزائش میں تعلیمی اداروں کا کیا کردار ہے؟۔پنجاب کے شہروں کی اشرافیہ جان بوجھ کرپنجابی کو کیوں نظرانداز کررہی ہے؟زبان کے متعلق ایک قدامت پسندانہ تصوریہ ہے کہ یہ محض ابلاغ کاایک ذریعہ ہے اوریہ ایک غیرفعال ( (passive ، غیرجانبدارانہ (neutral) اورحتیٰ کہ ایک غیرسیاسی (apolitical) چیز ہے۔ اس قدامت پسندنظریہ کا ایک اہم مفروضہ یہ ہے کہ کچھ زبانیں اعلیٰ وبرترہیں اور کچھ زبانیں کم تر درجے کی ہوتی ہیں۔زبان کے اس فرسودہ تصور کو کوسیپر (Sapir)اور وورف (Whorf) کی اہم تحقیق نے رد کر دیا۔ اس تحقیق کے مطابق زبان ہرگز غیرفعال (passive) اور غیر جانبدار (neutral) شے نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کام محض خیالات، محسوسات، اور جذبات کی ترسیل ہے بلکہ زبان حقیقتوںکی تشکیل (construction of realities)اوران کے تسلسل (perpetuation) میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح زبان ایک ایسے اظہاریے کے طور پر ابھرتی ہے جس کا براہِ راست تعلق طاقت اور سیاست سے ہے۔
اس بات کاادراک بھی بہت ضروری ہے کہ زبان بولنے والے کے معاشی ومعاشرتی مرتبے کاتعلق براہ راست اس کی زبان کی قدرومنزلت سے منسلک ہے۔ اگرکسی مخصوص گروہ کامعاشی ومعاشرتی رتبہ بلندہے تواس کی زبان بھی بہت اعلیٰ وارفع اورطاقتور سمجھی جاتی ہے۔ اس سے یہ بات توکلی طورپرواضح ہوجاتی ہے کہ کوئی زبان کم تر یا بر ترنہیں ہوتی بلکہ زبان بولنے والے کامعاشی ومعاشرتی مرتبہ ہی زبان کی معاشرتی حیثیت کاتعین کرتا ہے۔ تمام زبانیںمساوات کی بنیادپر ایک جیسی ہیں اوران سب کااحترام کیاجانا ضروری ہے۔
پنجابی زبان متحدہ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے بھی سماجی،سیاسی اورمعاشرتی حالات کے ستم کاشکار رہی ہے۔ ہندوستان میںبادشاہوں کی سرپرستی کی وجہ سے فارسی طاقتوروں کی زبان بن گئی اورعدالتوں میںبھی یہی زبان استعمال ہوتی رہی۔ا ردو اپنی ساخت اورذخیرۂ الفاظ کے باعث فارسی کے بہت قریب تھی اوراسی طرح معنویاتی سطح پرپنجابی کے ساتھ خاصی قربت رکھتی تھی اوراسی طرح اردوہندی کے لئے بھی قابلِ فہم تھی۔ اردو کی اس کثیرالجہتی خصوصیات نے اسے ہندوستان کے مخصوص حصوں اورخصوصاً مسلمانوں میں خاصا مقبول بنادیا۔کوئی بھی زبان مافی الضمیر کی ترسیل کے علاوہ انفرادی اور قومی سطح پر شناخت(Identity) کاایک اہم نشان ہے۔ انسانی تاریخ میں سامراجی قوتوں نے جہاں جہاں قبضہ کیا وہاں کی مقامی زبان کودانستہ استعما ر کانشانہ بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی جواس وقت علم وفن کی زبان سمجھی جاتی تھی‘ کو نشانہ بنایاگیا۔
انگریزوں نے سندھ میں فارسی کو سندھی سے بدل کر اس سے چھٹکارا حاصل کرلیا لیکن پنجاب میں حیران کن طورپرفارسی کوپنجابی سے نہیں بدلاگیا بلکہ یہاں پرفارسی کی جگہ اردونے لے لی۔ ایک توجیہہ جو ایک انگریز افسرنے اپنے خط میں دی یہ تھی کہ اردوپنجابی ہی کی ایک بہتر شکل ہے۔ اس طرح اردو کو زبان (Language)اور پنجابی کوایک بولی(dialect) کا درجہ دیاگیا جس سے اس کامعاشرتی رتبہ زبان کے مقابلے میں کم ہوگیا۔ اس بات کا فہم بھی بہت ضروری ہے کہ عصر حاضرمیں زبانوں کاجائزہ ان کی لسانی خوبیوں یاخامیوں کی بنیادپر نہیں کیاجاتابلکہ انہیںمعاشرتی،سیاسی اورمعاشی پہلوئوں کی بنیادپر پرکھاجاتاہے۔
تحریک پاکستان کے دوران زبانیں سیاسی شناخت کے طورپراستعمال کی گئیں۔ ہندی، اردو اورپنجابی کوہندوستان کی تین بڑی آبادیوں یعنی ہندوئوں، مسلمانوں اورسکھوں سے جوڑاگیا۔ مسلمانوں کی ایک کثیرتعداد جن کی مادری زبان پنجابی تھی انہوںنے سیاسی، سماجی اور سیاسی عوام کی وجہ سے اسے چھوڑدیا۔دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انفرادی اور قومی سطح پرزبان ایک اہم شناختی اظہاریہ ہے۔1947ء کو آزادی کے بعدقومی زبان کا اہم سوال اٹھایاگیا اورتحریک پاکستان میںجذباتی تعلق کی بنیادپر اردو کو قومی زبان کے درجے پرفائز کیاگیا۔دوبہت بڑی زبانیں بنگالی اور پنجابی قومی زبان کے اس اہم مرتبے پرفائز نہ ہوسکیں۔ بنگالیوں کایہ پُرزور مطالبہ تھا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کوبھی یہ درجہ دیاجائے۔ تاہم پنجابی آبادی نے اردو سے والہانہ وابستگی کی بناپرپنجابی زبان کی حمایت میں کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ پنجاب کی ایک بڑی تعداد فوج میں تھی اوریوں یہ طاقت کے مرکز کے قریب تھی۔ پنجابی اشرفیہ کی ایک بڑی تعدادطاقت کے مرکزی دھارے کے گروہوں میںشامل رہناچاہتی تھی اوراسی وجہ سے انہوںنے پنجابی
کوتیاگ دیا۔یہ بات حیران کن ہے کہ سندھی سکولوں میں ایک مضمون کے طورپرپڑھائی جاتی ہے اسی طرح خیبرپختونخوا کے کچھ سکولوں میںپشتو بھی پڑھائی جاتی ہے لیکن پنجابی پاکستان میں سکول کی تعلیم کاحصہ کبھی نہیں رہی ہے۔ایسا کیوں ہے؟کیااندرونی طورپر اس زبان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے؟ یایہ لوگوں کے معاشرتی رویوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے غیررسمی طورپر زندگی میں پنجابی کے لسانی وظیفے کوغیراہم سمجھا ہے۔پنجابی زبان سے دُوری کامعاملہ پنجاب کے شہریوں میںبہت نمایاں ہے جہاں والدین گھروں میں اپنے بچوں سے اردو میں گفتگو کرتے ہیں اوراسے باعث امتیاز سمجھتے ہیں۔یوںاس بات کااندیشہ ہے کہ بہت سے پنجابی خاندانوں کی آنے والی نسلیں پنجابی زبان کھوبیٹھیں گی۔ ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کے کردار کے متعلق اچھی خاصی تحقیق موجود ہے۔ جس کے مطابق بچے کے ذہن میں چیزوں کے تصورات مادری زبان کے استعمال سے زیادہ واضح ہوتے ہیں۔اگرہم پنجابی زبان کی بحالی چاہتے ہیں تواسے پنجاب کے سکولوں میں ایک مضمون کے طورپرشامل کرناہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ طلبہ کویہ بتایاجائے کہ کوئی زبان بھی کم تریاادنیٰ نہیںہوتی۔ تمام زبانیں برابر ہیں اورسب کاہی احترام کیاجاناچاہیے۔ اسی طرح صوبائی سطح پر اس بات کوسمجھنا بھی بہت اہم ہے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل251بہت واضح الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ صوبائی زبان کی تدریس اورفروغ کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ''قومی زبان کاتشخص متاثرکئے بغیرصوبائی اسمبلی قانون کے مطابق ایسے اقدامات کی تشخیص کرے گی جن سے قومی زبان کے علاوہ صوبائی زبان کی تدریس، فروغ اوراستعمال کوجلاملے گی۔‘‘اب یہ صوبائی اسمبلیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبوں میں زبان کی تدریس اورفروغ کیلئے قوانین پاس کریں۔پاکستان مختلف زبانوں کاگلدستہ ہے جس میں ہرزبان کااپنارنگ اپنی خوشبواوراپناذائقہ ہے اگراس گلدستے کے رنگوں کوشاداب رکھنا ہے توہمیں قومی زبان کے علاوہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی زبانوں کی افزائش کابھی اہتمام کرنا ہوگا۔