کوئی عدالتی فیصلہ عوام سے میرا رشتہ نہیں توڑ سکتا : نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''کوئی عدالتی فیصلہ عوام سے میرا رشتہ توڑ نہیں سکتا‘‘ کیونکہ اگر جیل میں بھی جانا پڑا تو وہاں بھی میرے جیسے عوام کی خاصی تعداد ہوتی ہے جو مجھے دیکھتے ہی شیر آیا، شیر آیا کے نعرے مارنے لگیں گے جبکہ کل ایبٹ آباد والے جلسے میں عوام مسلسل چور آیا چور آیا اور ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے اور جلسے میں کوئی رونق پیدا ہوئی ورنہ اس پر تو مردنی چھائی ہوئی تھی جبکہ ان نعروں کو بھی میں اپنے حق میں ہی سمجھتا ہوں کیونکہ ''گو‘‘ تو میں پہلے ہی ہو چکا ہوں۔ اب ''گو نواز گو‘‘ کا مطلب ہے نوازشریف آگے بڑھو‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے‘‘ جس کا نام ترقی ہے اور جیسا کہ پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اگر کرپشن کو روکتے تو ترقی رُک جاتی۔ انہوں نے کہا کہ ''میری عدالت 20 کروڑ عوام ہیں‘‘ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ جو چل رہا ہے یہ سو موٹو نوٹس عوام ہی نے لے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ہار مان جائوں گا تو غلط ہے‘‘ کیونکہ میں نے تو نااہل ہو کر بھی ہار نہیں مانی۔ انہوں نے کہا کہ ''جیل سے ڈرتا ہوں نہ موت سے‘‘ کیونکہ دونوں برحق ہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''جھوٹے پیمانے بدلتا ہوں گے‘‘ جس کی میں خود بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن یہ جو کسی نے کہا ہے کہ عادتیں قبر کے ساتھ ہی جاتی ہیں تو یہ خاصا مشکل کام ہے‘ اور یہ جو کہا جا رہا ہے کہ میں جاتی امرا جاگیر 20 ارب میں بیچ دی‘ تو یہ کوئی خبر نہیں‘ خبر تو تب ہوتی اگر میں کسی اور کی چیز بیچتا جبکہ عدالت کے خطرناک ارادوں کو میں بھانپ گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام میرا ساتھ دیں‘‘ تاکہ میں منقسم مزاج اداروں کو نکیل ڈال سکوں۔ انہوں نے کہا کہ ''اصل عدالت عوام کی ہے‘‘ جنہیں میں نے خاصا اُلّو بنا رکھا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب وہ عمران خان کے بہکانے پر خاصے سمجھدار ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز ایبٹ آباد میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم کو اس بات کا جواب کون دے گا کہ نوازشریف
کو گیم سے باہر کون کرنا چاہتا ہے : جاوید ہاشمی
بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''آخر قوم کو اس بات کا جواب کون دے گا کہ نوازشریف کو گیم سے باہر کون کرنا چاہتا ہے‘‘ اگرچہ اس کے ذمہ دار موصوف کے اعمال صالحہ ہی ہیں جو اُن کے پیش آ رہے ہیں تاہم یہ بات قوم کو بتانا ضروری تھی اس لیے میں عرض کر رہا ہوں۔ کیونکہ کوئی اور تو قوم کو یہ بات بتا ہی نہیں رہا اور میں ماشاء اللہ کافی عرصے سے فارغ ہوں اس لیے میں خدمت سرانجام دے سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاستدانوں کی قربانی کا سلسلہ جاری رہا تو جمہوریت نہیں پنپ سکتی‘‘ حالانکہ سیاست کی وفاداری میں جو انہوں نے قدم رکھا ہے‘ یہی سب سے بڑی قربانی ہے جبکہ ملک و قوم کو روپے پیسے جیسی آلائش سے پاک کرنا بجائے خود ایک قربانی ہے کیونکہ زر‘ زن‘ اور زمین ہی سارے فساد کی جڑ ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے بیان جاری کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔
اور‘ اب ''نقاط‘‘ میں سے کچھ بقایا اشعار :
خبر تو تھی کوئی مجھ میں مرے سوا ہے‘ سو اب
نظر بھی آنے لگا ہے کہیں کہیں کوئی اور
(عرفان ستار)
.........
در و دیوار سے وحشت ٹپکنا
در و دیوار کا حسنِ بیاں ہے
اگر پیروں میں ہوتا‘ خاک ہوتا
ہمارے سر پہ ہے‘ سو آسماں ہے
.........
میں خواب بیچتا ہوں بناتا نہیں ہوں میں
لیکن یہ بات سب کو بتاتا نہیں ہوں میں
اب تیرا کھیل‘ کھیل رہا ہوں میں اپنے ساتھ
خود کو پکارتا ہوں اور آتا نہیں ہوں میں
معصومؔ بیقراری ہے میرے خمیر میں
اُڑتی ہے میری خاک‘ اُڑاتا نہیں ہوں میں
.........
نائو ہی یاد کی کوئی معصومؔ
رات کو دل سے آن لگتی ہے
.........
سارے عالم پر چھلک گیا
میں بھرا ہوا ویرانی سے
چُھپ سے جاتے ہیں سارے عیب اس میں
ہے یہی فائدہ شرافت کا
(اکبر معصومؔ)
.........
ایک نیا خواب ہی بستر سے نکالا جائے
پائوں تھوڑا سا تو چادر سے نکالا جائے
.........
تُمہیں جب دُور سے دیکھا ہے دُنیا
تو اندازہ ذرا بہتر لگا ہے
.........
راکھ تک بھی نہیں اُڑانے کو
زندگی رائیگاں جلا دی ہے
.........
کچھ دیر میں تُو خود سے بھی ڈر جائے گا اے شخص
ایسے نہ یہاں گھوم‘ یہاں کوئی نہیں ہے
.........
ہم نکلتے ہیں موج میں آ کر
آپ کچھ سوچ کر نکلتے ہیں
(فیضیؔ)
(جاری ہے)
آج کا مقطع
رُکی تو ساتھ ہی بجھتا گیا دماغ‘ ظفرؔ
عجب چراغ ہے‘ جلتا نہیں ہوا کے بغیر