تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-11-2017

جنگ جاری ہے

سب تنازعات طے ہو سکتے ہیں۔ سب چیلنج نمٹائے جا سکتے ہیں۔ تمام پہاڑ سر کیے جا سکتے ہیں۔ سب دامن پُر ہو سکتے ہیں۔ تعمیری اندازِ فکر کے ساتھ، اللہ کی رحمت کے ساتھ۔ انسانی تقدیروں کے فیصلے وہی کرتا ہے۔ انکل سام اور اس کے کارندے نہیں۔ 
پاکستان ایک بارہ سنگھا ہے، جس کے سارے سینگ جھاڑیوں میں پھنسے ہیں۔ دارالحکومت یرغمال ہے۔ حکمراں پارٹی نے عدالت اور فوج پہ یلغار کر رکھی ہے۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف کے جواں مرد گالم گلوچ کے میدان میں ہمہ وقت نبرد آزما رہتے ہیں۔ لیڈر ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے ہیں، ادنیٰ تامل کے بغیر۔ اشتعال اعصاب پہ سوار ہو جائے تو دانش دم دبا کر بھاگ جاتی ہے۔ انسانی ذہن کی تشکیل ہی ایسی ہے۔ اقتدار اور دولت کی بھوک، غلبے کی بے تاب تمنا آدمی کو پاگل کر دیتی ہے۔ افراد ہی نہیں، قبائل کو بھی۔ 
کارزارِ حیات میں ابلیس نہیں بلکہ نفس آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس کی بے لگام خواہشات۔ فرمایا: جب میں نے نفس کو پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ 
یہ بھی ہے کہ بگڑے ہوئے لوگ سنور جاتے ہیں۔ سنورے ہوئے بگڑ جاتے ہیں۔ روزمرہ کا ہمارا یہ مشاہدہ ہے۔ تاریخ بھی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ فضیل بن عیاضؒ ایسے ڈاکو ولی اللہ بنتے ہیں۔ سحر دم قرآنِ کریم کی ایک آیت جب ان کے قلب میں ترازو ہو جاتی ہے۔ پاک باز ہمعصر ان پہ رشک کیا کرتے۔ بادشاہ ان کی دہلیز پہ کھڑا اجازت طلب کیا کرتا۔ ولی اللہ ڈاکو ہو جاتے۔ سرکارﷺ کے وصال کو پانچ عشرے بھی نہیں گزرے تھے کہ کربلا میں ان ؐ کی آل کے گلے کاٹے گئے... اقتدار کے لیے!
افراد کی طرح معاشرے بھی زیر و بم سے گزرتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ ہمارے لیڈر تھے۔ ہم ان کے جاں نثار تھے اور قانون کے قائل۔ بی بی سی کے برادرم ثقلین امام نے سوال اٹھایا: ان دنوں نواز شریف اور بھٹو کا موازنہ کیوں ہے؟ یہ تو ایک بار پھر بھٹو کو پھانسی دینے کے مترادف ہے۔ ناچیز نے عرض کیا: میری خطا اگر معاف کی جا سکے؟ تعلیم، عصری شعور، قدرتِ کلام اور کارِ حکمرانی میں بے شک دونوں کا موازنہ ممکن نہیں۔ دونوں ہی مگر اقتدار کے بھوکے تھے، نرگسیت کے مریض، فوجی درباروں کے پالے، ورثے کی سیاست کے معمار اور مخالفین کے لیے پرلے درجے کے بے رحم۔ لیڈر تو محمد علی جناح ؒ تھے، ابرہام لنکن تھے۔
بلوچستان میں پھر سے خوں ریزی ہے۔ کراچی میں صرف کوڑے کے ڈھیر ہی نہیں پڑے، بعض سیاستدان بھی کوڑا کرکٹ کے سوا کیا ہیں۔ قبائلی پٹی میں دور دور تک سکون اور قرار کے آثار نہیں۔ افغانستان اور بھارت کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی روز افزوں ہے۔ 60، 70 ہزار فرزند اس کے مارے گئے۔ چھ ہزار سے زیادہ فوجی افسر اور جوان بھی۔ عالمی برادری کا پلڑا مگر بھارت کی طرف جھکتا ہے۔ اس لیے کہ بین الاقوامی سیاست میں امریکہ اور یورپ کا حلیف ہے۔ 
اللہ کا شکر ہے کہ دہشت گردی کا عفریت زخمی ہے۔ کراچی ہی نہیں، فساد کے مارے سب میدانوں میں۔ ایک عشرہ پہلے کے مقابلے میں جان ہارنے والے معصوم اب آٹھ دس فیصد سے زیادہ نہیں۔ بھتہ، اغوا برائے تاوان اور شہر میں ہڑتالیں کرانے والوں کے لیڈر شرمندہ تو اب بھی نہیں مگر 'پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور ہیں۔ ''را‘‘ کا ایجنٹ الطاف حسین رسوا ہے، امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی بھی اسے حاصل تھی۔ انگریز کا اب بھی جس پہ سایہ ہے۔ اس کے باوجود حال یہ ہوا کہ ایک بار پھر خبثِ باطن کے مارے اس شخص کے جی اٹھنے کا امکان پیدا ہوا۔ لندن میں میاں محمد نواز شریف کے گھر پہ اس نے گلدستے بھیجے ہیں۔ مریم نواز کو وہ قوم کی بیٹی قرار دے رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ عدلیہ اور فوج سے متصادم ہیں۔ جی بھر کے پاکستانی فوج کو وہ گالیاں بکتا ہے۔ سیاستدانوں کو صورتِ حال کی کوئی پروا نہیں۔ وہ ایک دوسرے کے منہ نوچ رہے ہیں۔ ایک گھر کے مکین جب ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر تلے ہوں تو دشمن کیوں فائدہ نہ اٹھائے گا۔ 
بہت دنوں کے بعد ایک اچھی خبر بھی ہے۔ سپہ سالار کا دورۂ ایران کامیاب رہا۔ تربت میں پنجابی مزدوروں کا قاتل اللہ‘ نذر فارس سے افغانستان نکل بھاگا ہے۔ جلد ہی کچھ دوسرے اقدامات کی امید بھی ہے کہ پاک ایران سرحد بڑی حد تک محفوظ ہو جائے۔ دونوں کا مفاد اسی میں ہے۔ پے بہ پے زخم کھانے اور پے بہ پے حماقتوں کا ارتکاب کرنے کے بعد یہ بات اب دونوں کی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، پرلے درجے کے بے خبروں اور احمقوں کے سوا حسنِ ظن کا شکار اب کوئی نہیں۔ اب علی الاعلان اس کے لیڈر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے چار ٹکڑے کرکے رہیں گے۔ دو برس ہوتے ہیں، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سلامتی اجیت ڈوول نے بڑ ہانکی تھی کہ جب چاہیں، بلوچستان کو وہ الگ کر دیں۔ جب اور جس طرح چاہیں، خلافتِ اسلامیہ کے علمبردار طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں۔ 
بلوچستان میں بھارتیوں نے خاک چاٹی۔ صرف یہی نہیں کہ ناراضی کم ہوتی گئی، ارتباط بڑھتا گیا۔ علاقے میں ان کا سب سے بڑا خفیہ ہتھیار کلبھوشن یادیو پکڑا گیا۔ بھارتی ایجنسیوں کا منہ کالا ہوا مگر وہ باز نہ آئیں گے‘ اور افغانستان میں ان کے کارندے، بھاڑے کے ٹٹو بھی۔ امریکہ کی ساری شرائط بھی اسلام آباد اگر مان لے تو اس کا اصرار باقی رہے گا کہ بھارت کو علاقے کا تھانیدار تسلیم کیا جائے۔ یعنی پاکستان اگر سکم، بھوٹان اور نیپال نہیں تو کم از کم بنگلہ دیش بن جائے۔ انکل سام کا مسئلہ صرف پاکستان ہی نہیں، عالمی منظر پر اس کے مقابل ابھرتا ہوا عوامی جمہوریہ چین بھی ہے۔ امریکہ بہادر کی خدائی خطرے میں ہے۔ فرعون اور نمرود ایسے میں کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ 
بھارت اور افغانستان سے تخریب کار بھیجنے والوں کا فوری مسئلہ پاک چین تجارتی راہداری ہے۔ بلوچستان میں افراتفری پیدا کرنے کے لیے بھارت نے مزید رقوم مختص کی ہیں۔ تخریب کاروں کے پاس اب بہتر اسلحہ اور بہتر سواریاں ہیں۔ اب وہ بلوچستان کے ویرانوں سے سرحد پار کرکے، ایران اور ترکی کے راستے یورپ جانے والوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔ میرے خیال میں انسانی سمگلر تخریب کاروں کے ساتھ ہیں اور نہ منشیات فروش۔ منشیات فروش جو افغانستان کی ہیروئن اسی دشت و صحرا سے یورپ پہنچاتے ہیں۔ کارروائی ان کے خلاف ضرور ہونی چاہیے اور بھرپور کہ یہ پتھر دل بجائے خود انسانیت کا ناسور ہیں۔ مگر ان لوگوں کو اپنے دھندوں سے غرض ہے۔ تخریب کاری کا میدان الگ ہے اور الگ حکمتِ عملی اس کے لیے درکار ہے۔ 
جنرل ناصر جنجوعہ نے بلوچستان میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا تھا۔ اپنے لوگوں کو گلے لگایا۔ انس اور الفت کے چراغ جلائے۔ اب اس عمل کو کچھ اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بجلی اور پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر، لیویز کو پولیس میں ڈھالنے کا عمل اور ملازمتوں کی فراہمی۔ یہ تمام تگ و دو سول حکومت کے ذریعے ہونی چاہیے۔ 
طعنہ زنی اب بھی ہے۔ دشمن کا پروپیگنڈا اب بھی قبول کیا جاتا ہے۔ سالِ گزشتہ ایک سیمینار میں چند بلوچ سردار اس کارِ خیر سے فارغ ہو چکے تو ناچیز نے سوال کیا: تین برس تک تنہا یہ خطا کار بلوچستان کا بجٹ بڑھانے کے لیے چیختا رہا۔ آپ میں سے کسی کو کیوں توفیق نہ ہوئی۔ اللہ نے کرم کیا، حکمرانوں نے ہوش کے ناخن لیے۔ چھ فیصد سے بڑھ کر بلوچستان کا حصہ 9 فیصد ہو گیا۔ بلوچستان کی معیشت کو سینچنے کی ضروررت ہے۔ جس طرح مغربی جرمنی نے برلن کی دیوار گرنے کے بعد مشرقی جرمنی کو سینچا تھا۔ 
ایک جامع حکمتِ عملی درکار ہے۔ بلوچستان کے عوام کی بھرپور شرکت سے۔ وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے اندازِ فکر میں بہتری آئی ہے۔ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور سپہ سالار قمر جاوید باجوہ دو تین روز میں کوئٹہ پہنچنے والے ہیں۔ سنجیدہ غور و فکر اور منصوبہ بندی کے لیے۔ جنگ جاری ہے اور آخری فتح تک جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دوسرا کوئی option ہی نہیں۔ 
سب تنازعات طے ہو سکتے ہیں۔ سب چیلنج نمٹائے جا سکتے ہیں۔ تمام پہاڑ سر کیے جا سکتے ہیں۔ سب دامن پُر ہو سکتے ہیں۔ تعمیری اندازِ فکر کے ساتھ، اللہ کی رحمت کے ساتھ۔ انسانی تقدیروں کے فیصلے وہی کرتا ہے۔ انکل سام اور اس کے کارندے نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved