تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-11-2017

ایک نئے نظریے کا جنم

نواز شریف صاحب نے یہ بات دو ہزار سات میں لندن میں کہی ہوتی تو میں مان لیتا‘ اور شاید کوشش کرکے ایمان بھی لے آتا کہ نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے۔
اب آنکھوں دیکھی مکھی نہیں نگلی جا سکتی۔ آج دس برس بعد نواز شریف اپنی پوری جائیداد میرے نام لکھ دیں‘ تو بھی نہیں مانوں گا کہ نواز شریف نام کا کوئی نظریہ اس ملک میں ہے‘ جو آنے والے برسوں میں اس ملک‘ قوم اور معاشرے پر اپنے اثرات ڈالے گا۔ 
یقینا آپ کے ذہن میں سوال ابھرے گا کہ دس برس پہلے میں کیوں یقین کر لیتا۔ اپنی ناتجربہ کاری یا سادے پن کی وجہ سے۔ ارشد شریف، میں اور دیگر نواز شریف کو لندن میں سن سن کر یہ یقین کر بیٹھے تھے‘ ایک نیا چی گویرا جنم لے چکا ہے‘ اب غلطیاں دہرائی نہیں جائیں گی۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ خود ہوشیاری سے جنرل مشرف سے ڈیل کرکے باہر نکل گئے‘ اور ساتھیوں کو اٹک قلعہ میں سڑنے چھوڑ گئے تھے۔ 
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ اکثر گہری سانس لے کر نواز شریف کے آکسفورڈ سٹریٹ دربار میں کہتے تھے: میاں صاحب ہم آپ کے ساتھ والے سیل میں قید تھے‘ لیکن آپ نے ہمیں تو پتہ ہی نہ چلنے دیا کہ آپ کب اڑ گئے۔ اس سعودی جہاز میں ایک سیٹ ہمارے لیے بھی رکھ لیتے۔ نواز شریف بات کو ٹال جاتے۔ اس وقت وہ شاید غوث علی شاہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے‘ لہٰذا وہ گستاخی برداشت کر لیتے تھے‘ لیکن جونہی انہیں اقتدار ملا‘ سب سے پہلے غوث علی شاہ کا پتہ صاف کیا۔ گستاخی کی معافی بادشاہ کے دربار میں نہیں ہوتی۔ 
نواز شریف کا لندن میں رویہ اور انداز بہت مختلف تھا۔ لگتا تھا‘ وہ کچھ سیکھ چکے ہیں۔ دوسرے جنرل مشرف کے طویل دور حکومت نے بھی لوگوں کو تھکا دیا تھا۔ جنرل کے سب دعوے جھوٹے نکلے تھے۔ تمام کرپٹ لوگوں کو انہوں نے نیب کے ذریعے سدھار کر اپنی حکومت میں شامل کرکے وزیر بنا لیا تھا۔ ایم این ایز کو بھی اسی طرح نئی پارٹی میں شامل کرایا گیا۔ ابتدائی دو تین سالوں کے بعد جنرل مشرف نے بھی زرداری اور نواز شریف کی طرح ہی حکومت کی۔ ان کو اقتدار کا چسکا لگ گیا تھا اور وہ بھی وہی کر رہے تھے جو روم میں ہوں تو کیا جانا چاہیے۔ پھر چل سو چل۔ جنرل مشرف کے خلاف نفرت کا غبار باہر نکلنا شروع ہوا تو لوگوں نے ایک بار پھر بینظیر اور نواز شریف کی طرف دیکھنا شروع کر دیا‘ جو لندن اور دوبئی میں رہتے تھے۔ دس برسوں میں جنرل مشرف ان دونوں کی متبادل لیڈرشپ تیار نہ کر سکے تھے تاکہ لوگ انہیں بھول جاتے۔ اس کی وجہ یہ تھی جنرل کو سیاسی نشہ چڑھ گیا تھا۔ سیاسی اور دیگر ریفارمز ان کے ایجنڈے پر نہیں تھیں۔ ان کا ایجنڈا ان کا اپنا اقتدار‘ اور وہ خود تھے۔ اس کا نقصان ہوا۔ ہم لوگوں نے پھر کھوٹے سکوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ شاید بینظیر بھٹو اور نواز شریف ہی پاکستان کا مستقبل ہیں۔ لوگ ان کے پچھلے‘ پرانے سیاسی اور مالی بدعنوانیوں کے گناہ بھولنے کو تیار ہو گئے۔ جنرل مشرف کی ناکامیوں کا فائدہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو‘ اٹھا رہے تھے۔ اقتدار میں طویل عرصے تک رہنے کی خواہش ہی اسے بینظیر بھٹو کے ساتھ این ار آو کے لیے خفیہ ملاقاتوں کی طرف لے گئی۔ 
نواز شریف نے بڑی سمجھداری سے اپنے پتے کھیلے۔ بیرون ملک دوستوں کو استعمال کرکے پاکستان لوٹے۔ امیج وہی بنا ہوا تھا کہ نواز شریف اب بدل گئے ہیں‘ اور پاکستان میں نئی شروعات کریں گے‘ کوئی نیا سیاسی فلسفہ فالو ہو گا۔ پنجاب میں الیکشن جیتنے اور عطا محمد لالیکا جیسے ایم پی ایز کو تیس ہزار ڈالرز بطور بیرون ملک علاج کے اخراجات دے کر ق لیگ کے ایم پی ایز ساتھ ملا لیے گئے۔ شہباز شریف نے کئی ایماندار افسروں کو کئی اضلاع سے ٹرانسفر کرکے آزاد اور ق لیگ کے ایم این ایز کا وہ مطالبہ مان لیا تھا‘ جو نواز لیگ میں شامل ہونے کی شرط قرار پایا تھا۔ شہباز شریف کے ان ایماندار پولیس افسران کا دبائو ایم پی ایز کو ان کے در پر لے آیا تھا۔ دوسرے دن سب ایماندار افسران دھول چاٹ رہے تھے اور شہباز شریف اسی ق لیگ پر ڈاکے مار رہے تھے‘ جسے وہ جنرل مشرف کی باقیات کہتے تھے اور جن کونواز شریف لندن میں پارٹی میں شامل کرنا تو دور کی بات‘ ہاتھ تک ملانے کو تیار نہ تھے۔ لندن میں وہ تمام جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتیں نہ کرنے کی قسمیں کھاتے تھے لیکن واپس لوٹتے ہی شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان نے خفیہ ملاقاتوں کا کام وہیں سے شروع کیا‘ جہاں وہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو چھوڑ کر گئے تھے۔ جنرل کیانی کا اللہ بھلا کرے‘ وہ پہلے سے تیار بیٹھے تھے‘ اور یوں خفیہ ملاقاتیں شروع ہوئی کہ اگلا وزیر اعظم نواز شریف کو کیسے بنایا جائے۔ کسی گستاخ نے نواز شریف سے پنجاب ہائوس میں پوچھ لیا کہ پتہ چلا ہے‘ چوہدری نثار اور شہباز شریف پھر خفیہ وارداتیں ڈال رہے ہیں۔ کلاسک جواب دیا: میرے علم میں نہیں۔ کیا چوہدری نثار اور شہباز کی جرأت تھی کہ وہ جنرل کیانی سے درجن بھر سے زیادہ ملاقاتیں کرتے‘ اور نواز شریف کو علم ہی نہ ہوتا۔ نواز شریف کو علم تھا کہ سب ملاقاتیں انہیں دو ہزار تیرہ میں وزیر اعظم بنانے کے لیے ہو رہی ہیں۔ خفیہ ملاقاتوں کے علاوہ پیغامات کا سلسلہ بھی جاری تھی۔ 
نواز شریف جن حالات میں وزیراعظم بنے‘ انہیں اس کا پتہ تھا۔ اس میں جنرل کیانی کے رحم دلانہ رویے کا بڑا ہاتھ تھا۔ جن خفیہ ملاقاتوں سے وہ انکاری تھے‘ وہ رنگ لا چکی تھیں۔ وزیر اعظم بنتے ہی انہوں نے پھر سے پر پرزے نکالے۔ جنرل کیانی کو بھی آخری لمحے تک انہیں بھی لولی پاپ دیا گیا۔ ان کے سفارش کردہ نام کو آرمی چیف تک نہ بنایا گیا۔ جب نئے آرمی چیف کے حلف کے بعد ان سے ملاقات کی تو اس میں اسے یہ بتانا نہ بھولے کہ جنرل کیانی نے آپ کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی‘ میں نے پھر بھی آپ کو جنرل لگایا ہے۔ مطلب وہی تھا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ 
وہ پارلیمنٹ‘ جس میں واپس لوٹنے کے لیے نواز شریف نے کتنے رولے ڈالے، ترلے کیے، منتیں کیں، ڈیلیں کیں‘ جب وزیر اعظم بنے تو آٹھ ماہ تک اس کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ سینیٹ میں ایک سال تک نہ گئے تو وہاں سینیٹرز نے بائی لاز میں تبدیلی کرائی کہ قانوناً وزیر اعظم کو پندرہ دن بعد سینیٹ آنا پڑے گا۔ نواز شریف نے وہ قانون پڑھا اور پڑھ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ چار برس میں محض دو دفعہ سینیٹ گئے۔ کابینہ کے اجلاس چھ چھ ماہ نہ ہوئے۔ اپنی حکومت کا سارا نظام اسحاق ڈار اور اپنی بیٹی مریم نواز کو سونپ کر خود جہاز پکڑتے اور طبلچیوں کے ساتھ دوروں پر نکل جاتے۔ چار سالوں میں ایک سو کے قریب دورے کیے۔ تیں سو سے زائد دن ملک سے باہر رہے۔ لندن کے تیس سے زائد دورے کیے۔ جہاں کا بھی سفر کیا‘ واپسی پر لندن ضرور ٹھہرے۔ اسحاق ڈار نے اسّی کمیٹیوں کی سربراہی سنبھال لی تو مریم نواز صاحبہ نے وزیراعظم آفس میں سیاسی محاذ قائم کر لیا۔ میڈیا سیل بنا لیا۔ وفاداروں کی فوج کو اعلیٰ عہدے دیے گئے۔ شروع میں ایک نیک نام بیوروکریٹ رئوف چوہدری کو ایک کمیشن کا سربراہ بنایا کہ وہ اچھے لوگوں کو ڈھونڈ کر انہیں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرنے کی سفارش کرے۔ کچھ دن یہ ڈرامہ چلا اور ایک دن رئوف چوہدری کو ہی حکم ملا کہ ہم نے کافی ڈرامہ کر لیا‘ آپ کی مہربانی آئندہ تکلیف نہ کریں۔ قطر سے ڈیل کی تو اس میں ایسی ایسی کہانیاں سامنے آئیں کہ عقل دنگ ہے یہ سوچ کر کہ انہیں کتنی دولت چاہیے؟
اور پھر ان چار برسوں میںگورننس کا وہ تماشا بنا کہ سب دنگ رہ گئے۔ ایک دن سپریم کورٹ نے حیران اور دکھی ہو کر کہا: وزیر اعظم بھلا ایسے ہوتے ہیں‘ جیسے نواز شریف تھا۔ کیا وہ جھوٹے ہوتے ہیں؟ کیا وہ سب کو بیوقوف سمجھتے ہیں؟ کیا ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا؟ 
جب نواز شریف کو پتہ چلا تو حیران ہو کر کہا: مجھے کیوں نکالا۔ میں تو ایک نظریے کا نام ہوں!
یہ سن کر سب حیران ہیں کہ روئیں یا ہنسیں۔ اس شہزادی کی طرح‘ جو ایک جن کی قید میں تھی اور اس نے صدیوں بعد ایک آدم زاد کو دیکھا تو پہلے ہنسی اور پھر روئی تھی۔ نواز شریف کے منہ سے نظریے کا نام سن کر ہم سے رویا جا رہا ہے اور نہ ہی ہنسا جا رہا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved